حسین بن منصور الحلاج کے بارے میں علمائے اہلسنت کا موقف

تحریر:   غلام مصطفے ظہیر امن پوری

مشہور گمراہ صوفی حسین بن منصور الحلاج م (٣٠٩ھ) زندیق اور  حلولی تھا ۔ اس کے کفر و الحاد پر علمائے حق کا اجماع و اتفاق ہے۔ اس کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالی ہر چیز میں حلول کر گئے ہیں۔ یہ عقیدہ وحدت الوجود کا بانی تھا ۔اس کے کفر و الحاد کی وجہ سے علماء نے اس کا خون جائز قرار دیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیاتھا۔

ائمہ اہل سنت میں سے کوئی بھی شخص اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا ، گمراہ صوفی اس کے پکے حمائتی ہیں، اس کے باوجود وہ اپنے تئیں اہل سنت کہتے نہیں تھکتے۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣/٨٥٢ھ ) اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

[arabic-font]

        ولا أری نیتعصّب للحلاج اِلّا من قال بقولہ الّذی ذ کر أنّہ عیّن الجمع ، فھذا ھو القول أھل الواحدۃ المطلقۃ ، و لھذا تری ابن عربّی صاحب ” الفصوص” یعظّمہ و یقع فی الجنید ۔۔۔۔۔       “

[/arabic-font]

میں حلاج کے حق میں اسی شخص کو تعصب رکھتے دیکھتا ہوں، جو اسی کے قول کا قائل ہے ،جو اس سے ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے ( خالق و مخلوق کے درمیان) جمع کو لازم کیا تھا۔ یہی وحد تِ مطلقہ (وحد ت الوجود  ) والوں کا عقیدہ ہے۔ اسی لئے آپ الفصوص نامی کتاب کے مصنف ابن عربی کو دیکھیں گے کہ وہ اس کی تعظیم کرتا ہے اور جنید کی گستاخی کرتا ہے۔۔۔۔۔”  

  (  لسان المیزان لابن حجر ؛ ٢/ ٣١٥)

حافظ ا بن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨-٥٩٧ھ ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

اتّفق علماء العصر علی اِباحۃ دم الحلّاج   “

[/arabic-font]

  اس زمانہ کے تمام علمائے کرام حلاج کے خون کے مباح ہونے پر متفق ہو گئے تھے۔

حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (٧٠١-٧٧٣ھ ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

  و قد اتّفق علماء بغداد علی کفرِ الحلاج و زند قتہ، و أجمعو علی قتلہ و صلبہ ، و کان علماء بغداد اِذ ذاک ھم علماء الد ّنیا ۔

[/arabic-font]

” بغداد کے علماء کرام حلاج کے کافر و زند یق ہونے پر متفق ہو  گئے تھے اور انہوں نے اسے قتل کرنے اور سولی پر لٹکانے پر اجماع کر لیا تھا اور اس زمانے میں علمائے بغداد ہی دنیا کے (کبار) علماء میں شمار ہوتے تھے۔ ”

( البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر: ١١/٩٤١)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨-٥٩٧ھ ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

اتّفق علماء العصر علی اِبا حۃ دم الھلّاج ۔ 

[/arabic-font]

اس زمانہ کے تمام علمائے کرام حلاج کے خون کے مباح ہونے پر متفق ہو گئے تھے

(تلبیس ابلیس لابن الجوزی : ١/١٥٤ )  

ابو حامد علامہ غزالی (م ٥٠٥ھ لکھتے ہیں:

[arabic-font]

وأمالشّطج فنعنی بھ صنفین من الکلام أحدثھ بعض الصّوفیہ ، احدھما الدّعاوی الطّویلۃ العریضۃ فی العشق مع اللہ تعالی والوصال المغنی عن الأعمال الظّاھرۃ حتّی ینتھی قوم الی دعوی الاتّحاد و ارتفاع الحجاب والمشاھدۃ با لّرؤیہ والمشافعۃ بالخطاب، فیقولون: قیل لنا کذا و قلنا کذا ، و یتشبّہون فیہ بالحسین بن منصور الحلّاج الّذی صلب لأجل اطلاقہ کلمات من ھذاہ الجنس ، و یستشھد ون بقولہ: أنا الحقّ، وبما حکی عن أبی یزید البسطامّی أنّھ قال: سبخانی، و ھذا فنّ من الکلام عظیم ضررہ فی العوّام حتّی ترک جماعۃ من أھل الفلاحۃ فلاحتھم و أظھر وامثل ھذہ الدّعاوی،فانّ ھذا الکلام یستلذّہ الطّبع اذفیھ فیھ البطالھ من الأعمال مع تزکیۃ النفس بدرک المقامات والأحوال ،فلا تعجز الأغنیاء عن دعوی ذ لک لأنفسھم ولا عن تلقف کلمات مخبطۃ مزخرفۃ، و مھما أنکر علیھم ذلک لم یعجز و اعن أن یقولوا ھذا انکار مصدرہ العلم والجدال ۔والعلم حجاب، والجدل عمل النّفس،و ھذا الحد یث لا یلوح الامن الباطن بمکاشبۃ نور الحق ،فھذا و مثلہ ممّا قد استطار فی البلاد شررہ و عظم فی العوّام ضررہ ، حتی نطق بشی ء منہ،فقتلھ أفضل فی دین اللہ من احیاء عشرہ۔۔۔ 

[/arabic-font]

شطح سے مراد ہم د و طرح کا علمِ کلام لیتے ہیں،جسے بعض صوفیوں نے گھڑا ہے ۔ ان میں ایک تو اللہ تعالی کے ساتھ عشق اور اس وصال کے بلند بانگ دعوے ہیں،جو ظاہری اعمال ( نماز،روزہ،حج،وغیرہ) سے مستغنی کر  د یتا ہے، حتی کہ کئی لوگ اتحاد ( وحد ت  الوجود)، (خالق و مخلوق کے درمیان ) پردہ اُٹھ جانے ،اللہ تعالی کے مشاہدے اور بلا واسطہ کلام کے دعاوی تک پہنچ گئے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ( اللہ تعالی کی طرف سے) یوں کہا گیا اور ہم نے یوں کہا۔اس بارے میں وہ حسین بن منصور حلاج سے مشابہت اختیار کرتے ہیں،جسے اس جیسی باتیں کرنے کی وجہ سے سولی پر لٹکا دیا گیا تھا اور وہ د لیل میں اسی منصور کا أنّا الحقُّ ( میں ہی اللہ ہوں ) والا قول پیش کرتے ہیں، اسی طرح ابو یزید بسطامی کا وہ قول بھی اپنی دلیل بناتے ہیں کہ اس نے کہا، ،سُبحانی ،سُبحانی  (میں پاک ہوں ،میں پاک ہوں)۔علم کلام کی جو یہ قسم ہے ،لوگوں میں اس کا نقصان بہت زیادہ ہو گیا ہے،یہاں تک کہ فلاح کی راہ پر چلنے والے لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے اپنی راہِ فلاح چھوڑ دی اور اس طرح کے دعاوی شروع کر دیئے ،وجہ یہ ہے کہ علمِ کلام کی اس قسم کو طبیعت بہت پسند کرتی ہے،کیونکہ اس میں اعمال کو چھوڑنے کے باوجود مقامات و احوال کے ساتھ تزکیہ نفس ( کا دعوی) موجود ہے۔ بد دماغ لوگوں کو اپنے لیئے اس طرح کے دعاوی کرنے اور بے وقوفی پر مبنی چکنے چیڑے کلمات کہنے سے آپ نہیں روک سکتے۔ جب بھی ان پر بات کا اعتراض کیا گیا تو وہ یہ کہنے سے باز نہیں آئے کہ اس انکار کا مبدا علم،جدال ہے،علم پردہ ہے اور جدال عمل نفس ہے اور یہ باتیں اللہ تعالی کے نور کے مکاشفہ کے ذریعے باطن سے نکلتی ہیں۔یہ اور اس طرح کی دیگر خرافات کا شر علاقوں میں پھیل گیا اور عوام میں ان کا نقصان بہت بڑھ گیا ہے، یہاں تک کہ جو شخص اس طرح کی بکواس بکے،اسے قتل کرنا دینِ اسلام میں دس لوگوں کی زند گی بچانے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔  ”

نیز لکھتے ہیں:

[arabic-font]

   و من ھنا نشأ خیال من اّعدّی الحلول والاتحاد و قال: أنا الحق ، و حولہ ید ندن کلام النصّاری فی دعوی اتّحاد الّلاھوت والنّاسوت أو تد رّعھا  بھا أو حلولھا فیھا علی ما اختلف فیھم عبارتھم ،و ھو غلط محض۔۔۔۔

[/arabic-font]

” یہاں سے اس شخص کا خیال پیدا ہوا ،جو حلول و اتحا د کا دعوی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ہی اللہ ہوں۔ لا ہوت کے ناسوت میں متحد ہو جانے یا اس میں چھپ جانے یا اس میں حلول کر جانے کے بارے میں نصاری کی کلام بھی اسی کے لگ بھگ ہے، اگرچہ اس بارے میں ان کی عبارات مختلف ہیں یہ عقیدہ بالکل غلط ہے۔۔۔۔۔۔  “

(ااحیاء العلوم الدین للغزالی: ٢/٢٩٢)

علامہ ذہبی رحمہ اللہ ( ٣٢٦-٨٤٧ھ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

فتدبّر یا عبداللہ !ط نحلۃ الحلّاج الذی ھو من رؤوس القرامطۃ ، و دعاۃ الزند قۃ ،و انصف ،و تورّع ،و اتّق ذلک ،و حاسب نفسک ،فا ن تبرھن لک أنّ شمائل ھذاالمرء شمائل عد وّ للاسلام، محبّ للرسالۃ ،حریص علی الظھور بباطل و بحقّ، فتبّر أمن نحلتہ ، و ِان تبرھن لک والعیاذ باللہ ۔ أنّھ کان۔ والحالۃ ھذہ۔ محقّا ، ھاد یا، مھد یّا فجدد اِسلامک،واستغث بربّک أن یوفّقک للحق، و أن یثبّت قلبک علی دینھ ، فاِنّما الھدی نور یقذفھ اللہ فی قلب عبدہ المسلم ولا قوّۃ الّا باللہ ۔۔۔۔۔۔۔

[/arabic-font]

“اے اللہ کے بندے آپ اس حلاج کے مذھب پر غور کریں جو کہ قرامطہ ( غالی اور خطرناک قسم کے رافضی لوگوں ) کا ایک سردار اور الحاد بے دینی کا زبردست داعی تھا۔ آپ انصاف و غیر جانبداری سے کام لیں ، اس سے بچ جائیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں۔ اگر آپ کے لئے واضح ہو جائے کہ اس شخص کے خصائل اسلام دشمن ، حکومت پسند اور باطل و حق کے اختلاط کے ساتھ غلبہ حاصل کرنے کے خواہش مند شخص کے خصائل ہیں تو فوراًً اس مذہب سے دستبردار ہو جائیے ! اور اللہ نہ کرے ،اگر اس صورت حال کے باوجود آپ کو وہ حق بجانب ، ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ نظر آئے تواپنے اسلام کی تجدید کیجئے اور اپنے ربّ سے مدد مانگئے کہ وہ آپ کو حق کی توفیق دے اور آپ کے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھے، کیونکہ ہدایت تو ایک نور ہے جسے اللہ تعالی اپنے مسلمان بندے کے دل میں جاگزیں کر دیتاہے۔ گمراہی سے بچنے اور حق کو پانے کی قوت و طاقت صرف اللہ تعالی دیتا ہے ۔۔۔۔۔   ”

( سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٤/ ٣٤٥)

اس کے باوجود حلاج کی طرف منسوب قول أنا الحق ( میں ہی اللہ ہوں) کے دفاع میں دیو بندیوں کے حکیم الامت جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:

جیسے شجرہ طور بلا اختیار کلمہ أِ نٔی أنا اللہ کا مظہر تصرف حق سے ہو گیا ، اسی طرح منصور بھی بلا اختیار کلمہ أنا الحق کا مظہر تصرف حق سے ہو گیا۔

( بوادرالنوادر از تھانوی : ٣٩٨  )

نیز لکھتے ہیں :

دوسرے معنی محتمل یہ ہے کہ میں نے یہ راز ظاہر نہیں کیا ،خود محبوب ہی نے ظاہر کیا ، یعنی أنا الحقّ کے ساتھ وہی متکلم ہیں ،جیسا شجرہ طور سے کلامِ حق اِنّی أنا اللہ کا ظہور ہوا  “

 ( اشعار الغیور بما فی الاشعار ابن منصور از تھانوی : ١٤٣)

مزید لکھتے ہیں:

“اسی ظہور کے ایک درجہ کو تجلی بھی کہتے ہیں ،جیسے شجرہ طور میں بھی تجلی تھی۔ اگر انسان کامل میں کلام کی تجلی ہو جائے تو بُعد کیا ہے؟

( ایضًًا: ١٤٧)

“جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

اور ایک تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت ابنِ منصور کی زبان کلامِ حق کی ترجمان تھی۔ ان کی زبان سے اسی طرح أنا الحقّ نکلا جیسے شجرہ موسی سے      اِنّی أَ نا اللہ ربُّ العالمین    کی آواز آئی تھی ۔ ظاہر ہے کہ درخت نے اپنے کو اللہ رب العالمین نہیں کہا تھا ،بلکہ اس وقت وہ کلام الہی کا ترجمان تھا۔ اسی طرح ابنِ منصور کے متعلق بھی خیال کیا جا سکتا ہے اور غلبہ حالات و واردات میں بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ عارف کی زبان سے اللہ تعالی تکلم فرماتے ہیں، جس کو سالکین اصحابِ حال سمجھ سکتے ہیں۔ پس یہ تو مسلم ہو سکتا ہے کہ ابنِ منصور کی زبان سے أنا الحق نکلا ہو ،مگر یہ مسلم نہیں کہ ابن منصور نے خود أنا الحق کہا تھا۔

(سیرت منصور حلاج از ظفر احمد تھانوی: ٥٠)

تبصرہ :

یہ انتہائی گمراہ کن اور کفریہ عقیدہ ہے، جو متکلمین کی باطل تاویلات کا نتیجہ ہے۔اہل سنت میں میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ۔اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ تھانوی صاحب اور ان کے اذ نا ب و احباب پکے عقیدہ حلول کے قاہل تھے، جو کہ کفر محض ہے ۔یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی صریح گستاخی ہے اور سیدنا موسی علیہ السلام کی بھی گستاخی ہے، نیز ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے،قرآن مقدس کی توہین ہے اور خالص معنوی تحریف ہے۔ ائمہ اہل سنت نے سختی سے اس کا ردّ کیا ہے جیسا کہ :

١    امام ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ ( م ٣٢٤ھ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

          و زعمت الجھمیّۃ کما زعمت النّصاری أنّ کلمۃ اللہ تعالی حواھا بطن مریم رضی اللہ عنھا و زادت الجھمیّۃ علیہم ، فزعمت أن کلام اللہ مخلوق حلّ فی شجرۃ ، و کانت الشجر-ہ حاویۃ لھ،فلزمھم أن تکون الشجرۃ بذلک الکلام متکلّمۃ، ووجب علیھم أنّ مخلوقا من المخلوقین کلّم موسی و أنّ الشجرۃ قالت: یا موسی اِنّی أنا اللہ لا الھ اِلّا أنا فاعبدنی،فلو کان کلام اللہ مخلوقافی شجر-ۃ لکان المخلوق قال: یا موسی اِنّی أنا اللہ أنا فاعبدنی ، و قد قال تعالی : :” ولکِنّ حقّ القََول مِنّی لَا ملئنَّ جھنّم مِنِ الجّنِۃ َوالّناِس اَجَمعین”   و کلام اللہ من اللہ تعالی فلا یجوز أن یکون کلامھ الّذی ھو منھ مخلوقافی شجرۃ مخلوقۃ ،کما لا یجوز أن یکون علمہ الذّی ھو منھ مخلوقا فی غیرہ ، تعالی اللہ عن ذلک علوّا کبیرًًا۔      

[/arabic-font]

نصاری کی طرح جہمی لوگوں نے بھی خیال کیا ہے اللہ تعالی کے کلمہ کو مریم رضی اللہ عنھا نے اپنے پیٹ میں سمو لیا تھا ۔ جہمی لوگوں نے اس سے بڑھ کر یہ بھی  کہا کہ اللہ تعالی کی کلام مخلوق تھی ، جو کہ ایک درخت میں داخل ہو گئی تھی اور اس درخت نے اس کلام کو اپنے اندر سمو لیا تھا۔ اس طرح جہمی لوگوں پر یہ کہنا لازم آتا ہے کہ درخت ہی اس کلام کے ساتھ متکلم تھا اور سید نا موسی علیہ السلام سے ایک مخلوق نے ہی کلام کی تھی اوردرخت ہی نے کہا تھا کہ اے موسی میں ہی الہ ہوں ،میرے سوا کوئی الہ نہیں ہے ،چنانچہ میری  ہی عبادت کرو ۔۔۔۔ اگر یہ اللہ تعالی کی کلام درخت میں پیدا کر دی گئی تھی تو پھر مخلوق نے موسی علی السلام سے یہ کہا تھا ،حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ( لیکن میری بات ثابت ہو گئی ہے کہ میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا)، کلام اللہ، اللہ تعالی ہی سے ہے ، چنانچہ یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ کلام جو اللہ کی طرف سے تھی ،وہ ایک مخلوق درخت میں پیدا کر دی گئی تھی، جیسا کہ یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالی کا وہ علم ،جو اسی سے ہے ،وہ کسی غیر میں پیدا کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی ان خرافات سے بہت بلند ہے 

(الا بانۃ عن اصول الدیانہ لا بی الحسن الا شعری : ص ٦٨ )

نیز لکھتے ہیں:

[arabic-font]

          و قد قال اللہ تعالی    : وَ مَا کَانَ ِلَبَشَرِِ اَن یُّکلِّمُھ اللہُ اِلّا َو حیًًاَاَو مِن وَراءِ حَجَاب اَو ُیرسِلِ َرسُولًًا فََیُوحِیَ بِاذ نِھ مَا یَشَاء:، فلو کان کلام اللہ لا یوجد ألّا مخلوقا فی شیئ مخلوق لم یکن لاشتراط ھذہ الوجوہ معنی، لأنّ الکلام قد سمعہ جمیع الخلق ووجدوہ۔۔ بزعم الجھمیّۃ ۔۔ مخلوقا فی غیر اللہ تعالی و ھذا یوجب اِ سقاط مرتبۃ النّنییّن صلوات اللہ علیہم اجمعین۔ و یجب علیہم اِذا زعمو اأنّ کلام اللہ لموسی خلقھ فی شجرۃ أن یکون من سمع کلام اللہ عزّ و جلّ من ملک أو من نبیّ أتی بھ من عنداللہ أفضل مرتبۃ من سماع الکلام من موسی ،لأنّھم سمعوہ من نبیّ ، ولم یسمعھ موسی من اللہ عزّو جلّ و اِنّما سمعھ من شجرۃ ، و أن یزعمو أن الیھودی اِذا سمع کلام اللہ من النبّیّ علیہ الصلواۃ والسلام افضل مرتبۃ فی ھذا المعنی من موسی آلأنّ الیھودی سمعھ من نبیّ من انبیاء اللہ ،و موسی سمعھ مخلوقا فی شجرح لم یکن مکلّما لموسی من وراء حجاب ، لأنّ من حضر الشجرۃ من الجنّ والاِنس قد سمعو الکلام من ذلک المکان ، و کان سبیل موسی غیرہ فی ذلک سواء فی أنھ لیس کلام اللہ لھ من وراء حجاب ۔ ثمّ یقال لھم : اِذا زعمتم أنّ معنی أنّ اللہ عزّ و جلّ کلّم موسی : أ نّھ خلق کلاما کلّمہ بھ فی الشّجرۃ، و قد خلق اللہ عند کم فی الذّراع کلاما، لأنّ الذّراع قالت لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم : لا تأکلنی ،فاِ نی مسمومۃ ، فیلزمکم أنّ زلک الکلام الّذی سمعھ النّبیّ  صلی اللہ علیہ وسلّم کلام اللہ تعالی ، فاِن استحال أن یکون اللہ تکلّم بذلک الکلام المخلوق فما أنکرتم من أنّھ یستحیل أن یخلق اللہ عزّ و جلّ کلامھ فی شجرۃ ، لأنّ الکلام مخلوق ، لا یکون کلام للہ ، فاِن کان کلام اللہ و کان معنیب أنّ اللہ تکلّم عند کم  أنّھ خلق الکلام ، فیلزمکم أن یکون اللہ متکلّما بالکلام الّذی خلقھ فی الذّراع ، فاِن أجابوا اِلی ذلک قیل لھم : فاللہ تعالی علی قولکم ھو القائل : لا تاکلنی ، فاِنی مسمومۃ ، تعالی اللہ عن قولکم وافترائکم علیہ علوّا کبیرًًا ۔

[/arabic-font]

اللہ تعالی نے فرمایا : (اور کسی بشر کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اس سے کلام کرے ، مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کوئی رسول بھیج دے ، پھر اس کی طرف اپنے اذن سے جو چاہے وہی کرے ) اگر اللہ تعالی کی کلام کسی مخلوق میں ہی پیدا کی ہوئی پائی جاتی تو ان قیوط کے ساتھ مشروط کرنے کا کوئی معنی نہیں ،کیونکہ جہمی لوگوں کے بقول اسے بسا اوقات ساری مخلوقات اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور ذات میں پیدا شدہ حالت میں سن لیتی ہیں۔ یہ عقیدہ انبیائے کرام کا مرتبہ کم کرنے کا موجب بنتا ہے۔جب وہ جہمی لوگ یہ دعوی کریں کہ اللہ تعالی نے جو سید نا موسی علیہ السلام سے کلام کی تھی، اسے ایک درخت میں پیدا کیا تھا ، اس وقت ان پر یہ لازم آتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کلام کو کسی فرشتے یا ایلچی سے سنا ہو جو اسے اللہ کے پاس سے لے کر آیا تھا ،وہ کلام سننے کے اعتبار سے  سید نا موسی سے افضل ہوں ، کیونکہ ان لوگوں نے اسے کسی نبی سے سنا ہو گا، لیکن موسی علیہ السلام اسے اللہ عزوجل سے نہیں سنا، بلکہ ایک درخت سے سنا تھا، نیز ان جہمی لوگوں پر یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ یہ دعوی کر دیں کہ ایک یہودی جب اللہ تعالی کی کلام کو اپنے نبی سے سنے تو وہ اس کام میں موسی علیہ السلام سے افضل ہو گا، کیونکہ یہودی نے اسے اللہ کے کسی نبی سے سنا ہو گا اور موسی علیہ السلام نے اسے ایک درخت میں مخلوق ہونے کی صورت میں سنا ہو گا۔ اگر اللہ کی کلام درخت میں پیدا کر دی گئی تھی تو اللہ تعالی نے پھر موسی علیہ السلام سے پردے کے پیچھے سے کلام نہیں کیا ،کیونکہ جو بھی جن یا انسان اس جگہ حاضر ہو گا ،اس نے اسی جگہ سے کلام کو سنا ہو گا۔ یوں موسی علیہ السلام اور ان کے غیر کا ذریعہ ایک ہی ہو گا کہ انہوں نے کلام کو پردے کے پیچھے سے نہیں سنا۔ پھر ان جہمی لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تمہارا یہ دعوی ہے کہ اللہ تعالی کے موسی علیہ السلام سے کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کلام کو درخت میں پیدا کیا، پھر اس کے ذریعے موسی علیہ السلام سے کلام کی تو پھر اللہ تعالی نے شانے کے گوشت میں بھی کلام پیدا کی ہے، کیونکہ شانے کے گوشت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا مجھے نہ کھائیں ،کیونکہ میں زہر آلودہ ہوں۔ چنانچہ تمہارے نزدیک یہ لازم آئے گا کہ جو کلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی وہ اللہ کی کلام تھی” ۔۔۔

 ( الابانۃ للاشعری : ص  ١٠٩)

٢       امام آجری رحمہ اللہ ( م ٣٦٠ھ ) لکھتے ہیں

[arabic-font]

          فاِن قال قائل منھم : خلق اللہ عزّ و جلّ کلاما فی شجرۃ، و کلّم بھ موسی ، قیل : ھذا ھو الکفر ،لانّھ یزعم أنّ الکلام مخلوق ، تعالی اللہ عزّ و جلّ عن ذلک ، و یزعم أنّ مخلوقا یدّعی الربوبیّۃ ، و ھذا من اقبح القول و أسمجھ ، و قیل لہ : یا ملحد ! ھل یجوز لغیر اللہ أن یقول : اننّی أنا اللہ ؟ نعوذ باللہ أن یقول قاہل ھذا مسلما، ھذا کافر، یستتا ب ، فاِن تاب و رجع عن مذھبھ السّوء و اَلّا قتلتھ الامام ،فاِن لم یقتلھ الاِمام و لم یستتبھ و علم منھ أنّ ھذا مذھبھ ھجر ، و لم یکلّم ، و لم یسلّم علیہ ، ولم یصلّ خلفھ ، و لم تقبل شھا د تھ ، ولم یزوّجھ المسلم کریمتہ ۔۔۔      ”

[/arabic-font]

اگر ان جہمیوں میں سے کوئی کہے کہ اللہ تعالی نے درخت میں کلام کو پیدا کیا تھا اور اس کے ذریعے موسی علیہ السلام سے کلام کی تھی تو اسے کہا جائے گا ،یہی کفر ہے ، کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ کلامِ الہی مخلوق ہے۔ اللہ تعالی اس سے پاک ہے ۔ وہ شخص یہ گمان کرتا ہے کہ مخلوق ربوبیت کا دعوی کر رہی ہے۔ یہ سب قبیح اور بد ترین قول ہے، اس سے مزید کہا جائے گا ، اے ملحد و بے د ین شخص ! کیا غیر اللہ کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ میں ہی اللہ ہوں؟ ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ایسا کہنے والا مسلمان ہو! یہ تو کافر ہے، ا س سے توبہ کروائی جائے گی، اگر وہ توبہ کر لے اور اپنے برے مذھب سے لوٹ آئے تو ٹھیک ورنہ حاکمِ وقت اسے قتل کر دے ۔اگر وقت کا حکمران اسے قتل نہیں کرتا اور اس سے توبہ نہیں کروائی جاتی اور اس کا مذھب معلوم ہو جاتا ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ،اس سے کلام نہیں کی جائے گی،اس پر سلام بھی نہیں کیا جائے گا ،اور نہ ہی اس کی اقتدا میں نماز پڑھی جائے گی،نہ ہی اس کی گواہی قبول کی جائے گی ، نہ ہی اس سے کوئی مسلمان اپنی بیٹی کی شادی کرے گا۔ 

(الشریعہ للآجری : ٣١٣  )

٣      حافظ بیہقی رحمہ اللہ ( م ٤٥٨ )  لکھتے ہیں :

 

[arabic-font]

فلو کان کلام اللہ لا یوجد اِلّامخلوقا فی شی مخلوق لم لا شتراط ھذ ہ الوجوہ معنی ، لاستواء جمیع الخلق فی سماعہ من غیر اللہ وو جودھم ذ لک عند الجھمیّۃ مخلوقا فی غیر اللہ، و ھذا یوجب اِ سقاط مرتبۃ النّبییّن صلوات اللہ علیھم اجمعین،و یجب علیھم اِ ذا زعموا أنّ کلام اللہ لموسی خلقہ فی شجرۃ ، أن یکون من سمع کلام اللہ من ملک او من نبیّ أتاہ بھ من عند اللہ افضل مرتبۃ فی سماع الکلام من موسی، لانّھم سمعوہ من نبیّ، ولم یسمعھ موسی علیہ السلام من اللہ،و اِنّما سمعھ من شجرۃ، و أن یزعمو أنّ الیھود اِذ سمعت کلام اللہ من موسی نبیّ اللہ افضل مرتبۃ فی ھذا المعنی من موسی بن عمران لأنّ الیھود سمعتھ من من نبّی من الانبیاء و موسی سمعو مخلوقا فی شجر-ہ ، ولو کان مخلوقا فی شجرۃ لم یکن اللہ عزّ و جلّ مکّلما لموسی من وراء حجا ب ،و لأنّ کلام اللہ عزّ و جلّ  لموسی علیہ السلام لو کان مخلوقا فی شجرۃ  کما زعمو الزمھم أن تکون الشّجرۃ بذلک الکلام ،ووجب علیھم أنّ مخلوقا من المخلوقین کلّم موسی و قال لھ: اِنّنی أنا اللہ لا الھ الّا أنا فاعبدنی ، و ھذا ظاھر الفساد ۔۔۔۔۔۔

[/arabic-font]

 ” اگر اللہ تعالی کا کلام صرف کسی مخلوق چیز میں مخلوق ہو کر ہی پایا جائے تو ان قیود میں سے کسی کی شرط لگانے کا کوئی معنی نہیں ، کیونکہ تمام مخلوق اس کو غیر اللہ سے سننے میں برابر ہے اوریہ جہمی لوگوں کے ہاں غیر االلہ میں پیدا شدہ ہے ۔ یہ انبیاء کے مرتبہ کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جب وہ یہ دعوی کریں کہ اللہ تعالی کی موسی علیہ السلام سے کلام ایک درخت میں پیدا کی گئی تھی تو ان پر لازم آتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کلام کو کسی فرشتے یا نبی سے سنا ہے ،جو اسے اللہ کی طرف لے کر آیا تھا ،وہ لوگ اس کلام کو سننے میں موسی علیہ السلام سے بہتر و افضل ہیں، کیونکہ انہوں نے تو اس کلام کو کسی نبی سے سنا ہے ، جبکہ موسی علیہ السلام نے اس کلام کو اللہ تعالی سے نہیں سنا ، بلکہ ایک درخت سے سنا ہے ،نیز ان پر لازم آتا ہے کہ وہ یہ دعوی کریں کہ یہودی جب اللہ کی کلام کو اللہ کے نبی موسی علیہ السلام سے سنتے تھے تو وہ اس سننے میں موسی بن عمران علیہ السلام سے افضل تھے ، کیونکہ یہودیوں نے اسے اللہ کے نبیوں میں سے ایک نبی موسی علیہ السلام سے سنا تھا۔ جبکہ موسی علیہ السلام نے اسے ایک مخلوق درخت سے سنا تھا۔ اگر یہ کلام ایک درخت میں پیدا کیا ہوتا تو اللہ تعالی پردے کے پیچھے سے موسی علیہ السلام سے کلام نہیں کر رہا تھا اور یوں لازم آتا ہے کہ مخلوق میں سے ایک مخلوق نے موسی علیہ السلام سے کلام کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں، میری عبا د ت کرو اور یہ واضح طور پر فاسد بات ہے ۔۔۔ “

الاعتقاد للبیھقی :٩٧-٩٨

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ (  ٦٦١-٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:

[arabic-font]

و من قال اِنّہ بنفسہ لم ینا د، و لکن خلق نداء فی شجرۃ أو غیرھا لزم أن تکون الشّجرۃ ھی القائلۃ : اِنّی أنا اللہ ،و لیس ھذا کقول النّاس : نادی الأمیر ، اِذ أمر منادیا، فاِنّ المنادی عن الأمیر یقول: أمر الأمیر بکذا و رسم السّلطان بکذا، لا یقول: أنا أمرتکم ، و لو قا ل ذ لک  لأنہ النّاس ، والمنادی قال لموسی : اِ نّنی أنا اللہ لا الہ اِلّا أنا فاعبدنی، اِنّی أنا اللہ ربّ العالمین ، و ھذا لا یجوز أن یقولہ ملک اِلّا اذا بلغہ عن اللہ کما نقرأ نحن القرآن ، والملک اِذا أمرہ اللہ بالنّداء قال، کما ثبت فی الصّحیح عن الّنیّ صلی اللہ علیہ وسلّم أنّھ قال: ((اذا أحبّ اللہ عبدا نادی جبریل : اِنّی أ حبّ فلانا فأحبہ ، ثمّ ینادی جبیریل فی السّماء : اِنّ اللہ یحب فلانا فاَحبّوہ ۔۔۔ )) فجبریل اِذا نادی فی السّماء قال: اِن اللہ اللہ یحب فلانا فاَحبّوہ، واللہ ازا نادی جبریل یقول: یا جبریل اِنّی احب فلانا و لِھذا نادت الملئکۃ زکریا قال اللہ تعالی : ” فَناتہُ المَلئِکَۃُ وَ ھُوا قَائمُُُ ُ یُصَلّی فِی المِحرَابِ اَنّ اللہَ یُبَشِرکَ بِیِحیی ۔۔۔۔ ”    و قال : ” وَاِذ قِالتِ المِلئکَۃُ یا مَریمُ اِنّ اَللہَ اَصطَفَاکِ وَ طَھَرکِ و اَصطَفَاکِ علی نَسَا ءِ العَالَمِینَ ”   ولا یجوز قطّ لمخلوق اَن  یقول : من ادعونی فاستجیب لھ ، من یسألنی فأعطیہ ، من یستغفر نی فأغفرلہ ، و اللہ تعالی اِذا خلق صفۃ فی محلّ کان المحلّ متصفا بھا ، فاِذا فی محلّ علما أو قدرۃ أو حیاۃ أو حرکۃ أو لونا أو سمعا أو بصرا کان ذلک لامحلّ ھو العالم بھ القاد ر المتحرّک الحیّ المتلون السّمیع البصیر ، فاِنّ الرّبّ لا یتصف بما یخلقہ فی مخلوقاتہ ، و اِنّما یتصف بصفاتہ القائمۃ بہ، بل کلّ موصوف لا یوصف اِلّا بما یقوم بہ ،  لا بما یقوم بغیرہ ولم یقم بہ ، فلو کان النّداء مخلوقا فی شجرۃ لکانت ھی القائلہ : اِنّی أنا اللہ ، و اِذا کان ما خلقہ الرّب فی غیرہ کلاما لہ، و لیس لہ کلام اِلّا ما خلقہ لزم أن یکون اِنطاقہ لأعضاء الانسان یوم القیامۃ کلاما لہ ، و تسبیح الحصی و تسلیم الحجر علی الرسول کلام لہ ، بل یلزم أن یکون کلّ کلام فی الوجود کلامھ، لأنّھ  قد ثبت أنّھ خالق کل شیء ، و ھکذا طرد قول الحلو لیّۃ التّحادیّۃ کا بن عربیّ ، فأنّھ قال: و کلّ کلام فی الوجود کلامھ سواء علینا نثرہ و نظامہ ۔۔۔۔   

[/arabic-font]

“جو شخص یہ کہے کہ  (موسی علیہ السلام کو)  خود  اللہ تعالی نے نہیں پکارا تھا ، بلکہ درخت وغیرہ میں پکا ر پیدا کر دی تھی ، اس کو لازم آئے گا کہ یہ درخت ہی کہنے والا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ اس طرح نہیں جیسے لوگ کہتے کہ امیر نے آواز لگائی ہے ، جب وہ کسی منادی کرنے والے کو بھیجے ، کیونکہ امیر کی طرف سے منادی کرنے والا کہتا ہے کہ امیر نے یہ حکم دیا ہے اور بادشاہ نے یہ قانون لاگو کیا ہے ۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ میں تمہیں حکم دے رہا ہوں۔ اگر وہ ایسا کرے گا لوگ اس کی بے عزتی کریں گے۔ پکارنے والے نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں ، لہذا میری ہی عبادت کرو ، میں ہی اللہ ربّ العالمین ہوں۔ ایسا تو کسی فرشتے کے لئے  بھی جائز نہیں ہوتا، جب وہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی پیغام پہنچا رہا ہو، جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں – جب اللہ تعالی فرشتے کو نداء کا حکم دیتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو فرماتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت کر ، پھر جبریل آسمانوں میں نداء لگاتا ہے کہ اللہ تعالی فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے ، تم سب اس سے محبت کرو۔ اب جبریل جب آسمانوں میں نداء لگاتا ہے تو کہتا ہے کہ اللہ تعالی فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے ، تم بھی اس سے محبت کرو اور اللہ تعالی جب جبریل کو بلاتا ہے تو فرماتا ہے اے جبریل! میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں۔ اسی لئے جب فرشتوں زکریا علیہ السلام کو پکارا تھا تو فرمان باری تعالی ہے”(ان کو فرشتوں نے پکارا اس حال میں کہ وہ کھڑے محراب میں نماز ادا کر رہے تھے کہ اللہ تعالی آپ کو یحیی کی خوشخبری دیتے ہیں ) ، نیز فرمان باری تعالی ہے (اورجب فرشتوں نے کہا ، اے مریم ! بے شک اللہ تعالی نے تجھے چن لیا ہے اور پاک کر دیا ہے اور تجھے تمام جہانوں کی عورتوں پر چن لیا ہے ) کسی مخلوق کے لئے قطعاًً جائز نہیں کہ وہ کہے کہ میں ہی اللہ رب العالمین ہوں ، نہ ہی کوئی مخلوق یہ کہہ سکتی ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے تو میں اس کو معاف کر د وں؟ جب اللہ تعالی کسی جگہ میں کسی صفت کو پیدا کرتا ہے تو وہی جگہ اس صفت کے ساتھ موصوف ہوتی ہے، چنانچہ جب اللہ کسی میں علم ، قدرت ، زند گی ، حرکت ، رنگ ۔سمع یا بصر پیدا کرتا ہے تو وہی ( جس میں یہ صفت پیدا کی گئی ہوتی ہے  ) اس کا عالم ، اس کی قدرت رکھنے والا ، متحرک ، زندہ ، رنگ دار ، سمیع اور بصیر ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی اس  چیز کے ساتھ متصف نہیں ہوتا ، جسے وہ اپنی مخلوق میں پیدا کر دیتا ہے ، وہ صرف انہی صفات کے ساتھ متصف ہوتا ہے ، جو اسی میں قائم ہوتی ہیں، کسی دوسرے میں قائم نہیں ہوتیں، لہذا اگر ندا درخت میں پیدا کر دی گئی تھی تو وہی درخت یہ کہہ رہا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں۔ اگر وہ کلام جسے اللہ تعالی اپنے غیر میں پیدا کر دے ، اس کی کلام ہو تو لازم آئے گا کہ روز قیامت اللہ تعالی کا انسان کے اعضاء کو بلوانا اللہ ہی کی کلام ہو، کنکریوں کی تسبیح کرنا بھی اللہ کی کلام ہو اور پتھر کا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلّم پر سلام کرنا بھی اللہ ہی کی کلام ہو ، بلکہ یہ بھی لازم آئے گا کہ کائنات میں ہر کلام اللہ تعالی ہی کی ہو ، کیونکہ یہ با ت ثابت ہے کہ اللہ تعالی نے ہی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ حلول و اتحاد کے قائلین ،جیسے ابن عربی ہے، ان کا یہی قول ہے، ان کا کہنا کہ کائنات میں ہر کلام اسی اللہ کی ہی کلام ہے ،خواہ وہ نثر ہو یا نظم ۔۔۔۔۔”     

(منھاج السنہ لابن تیمیۃ : ٢/ ٢١٩ )

امام ابنِ ابی العزا الحنفی (م ٧٩٢ھ  ) لکھتے ہیں:

 

[arabic-font]

   وما أفسد استد لالھم بقولہ تعالی   ” نُودِیَ مِن شَاطِی ءِ وادِی الایمَن فِی البُقعَۃِ المُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرۃ ۔۔۔۔” علی أنّ الکلام خلقہ اللہ تعالی فی الشّجرہ ، فسمعھ موسی منھا! وعمو عمّا قبل ھذہ الکلمۃ وما بعدھا فاِنّ اللہ قال : ” فَلَمّا أَ تَاھَا نُودِیَ مِن شَاطِی ءِ وادِی الایمَن” النداء ھو الکلام من بُعد ، فسمع موسی ۴ النّدا من خافۃ الوادی ، ثمّ قال: ” فِی البُقعَۃِ المُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرۃ: أی أنّ النداء کان فی البقعۃ المبارکۃ من عند الشجر-ۃ ، کما یقول سمعت کلام زید من البیت ، یکون من البیت لابتداء الغایۃ، لا أنّ البیت ھو المتکلم ! و لو کان الکلام مخلوقا فی الشّجرۃ لکانت الشجرۃ ھی القائلۃ:  ” یَا مُوسی اِنِّی أنَا اللہ ربُّ العَالَمِین ” و ھل قال:  اِنِّی أنَا اللہ ربُّ العَالَمِین، غیر ربّ العالمین ؟ و لو کان ھذا الکلام بدامن غیر اللہ لکان قول فرعون : أنا ربکم العالی صدقا اِذ کلا من کلامین عندھم مخلوق قد قالھ غیر اللہ ! و قد فرّقو بین الکلامین علی أصولھم الفاسدہ : أنّ ذاک کلام اللہ خلقہ اللہ فی الشّجرۃ ، وھذا کلام خلقہ فرعون ! فحرّ فو و بدّ لو  واعتقد و ا خالقا غیر اللہ  ۔۔۔۔ “

[/arabic-font]

ان (جہمی لوگوں کا ) اس فرمان باری تعالی نُودِیَ مِن شَاطِی ءِ وادِی الایمَن فِی البُقعَۃِ المُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرۃ  سے استدلال کتنا فاسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام کو درخت میں پیدا کیا، پھر موسیٰ نے اس سے سنا، وہ اس فرمان باری تعالیٰ کے ما قبل اور ما بعد سے اندھے بن گئے ہیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے فَلَمّا أَ تَاھَا نُودِیَ مِن شَاطِی ءِ وادِی الأَیمَنِ  ندا تو د ور سے کلام کرنے کو کہتے ہیں اور موسی علیہ السلام نے کلام کو وادی کے اندر سے سنا تھا،پھر فرمان ہوا ” فِی البُقعَۃ المُبَارکَۃ مِنِ الشّجَر “یعنی ندا بقعہ مبارکہ میں درخت کے پاس سے تھی ،جیسا کہ کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے زید کی کلام کو گھر سے سنا،گھر سے کا لفظ ابتدائے غایت کے لئے ہوتا ہے، یہ نہیں کہ گھر کلام کر رہا تھا۔ اگر یہ کلام مخلوق ہوتی اور درخت میں پیدا کی گئی ہوتی تو درخت ہی یہ کہنے والا ہوتا کہ اے موسی میں ہی رب العالمین ہوں۔ کیا رب العالمین کے علاوہ کسی اور نے کہا تھا کہ میں رب العالمین ہوں ؟ اگر یہ کلام غیر اللہ سے ظاہر ہوئی تھی تو پھر فرعون کا یہ کہنا سچ تھا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ! کیونکہ دونوں کلامیں جہمیوں کے ہاں مخلوق ہیں اور دونوں کا قائل غیر اللہ ہے ، لیکن انہوں نے اپنے فاسد اصولوں کے مطابق ان دونوں کلاموں میں فرق کیا ہے کہ وہ اللہ کی کلام تھی ،جسے اس نے درخت میں پیدا کیا تھا اور یہ وہ کلام تھی جسے فرعون نے پیدا کیا تھا ! انہوں نے تحریف و تبد ل سے کام لیا ہے اور یہ اعتقاد رکھا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے  “

( شرح العقیدۃ الواسطیۃ : ١٧٤-١٧٥)

تنبیہ:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

 

[arabic-font]

رایت الشّجرۃ الّتی نودی منھا موسی سمرۃ خضراء۔۔۔۔۔۔

[/arabic-font]

   ” میں نے اس درخت کو دیکھا ہے ، جس سے موسی علیہ السلام کو آواز دی گئی تھی ، وہ سر سبز تھا ” 

      تبصرہ:    

١:  اس قول کی سند سخت ” ضعیف ” ہے۔

٢: امام ابو معاویہ ” مدلس ہیں”

٣: امام اعمش بھی مدلس ہیں۔ اور یہ دونوں امام ‘عن” سے بیان کر رہے ہیں

٤:   ابو عبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ، جیسا کہ حافظ ابنِِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

 

[arabic-font]

فاِنّہ عند اللہ کثر لم یسمع من ابیہ ۔۔۔۔۔۔

[/arabic-font]

” جمھور کے نزدیک اس ( ابو عبیدہ ) نے اپنے والد ( سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے سماع نہیں کیا “۔

(موافقۃ الخبر الخبر لا بن حجر ١/ ٣٦٤ )     

لہذا حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ ( تفسیر ابن کثیر ٥/١٧) کا اس بارے میں اِسنادہ مقارب کہنا صحیح نہیں ۔

 

اس تحریر کو اب تک 21 بار پڑھا جا چکا ہے۔