حدیث نور اور مصنف عبدالرزاق : ایک نئی دریافت کا جائزہ

الحمد لله رب العالمين و الصلوٰة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد :
مصنف عبدالرزاق کے نام سے حدیث کی ایک مشہور کتاب مطبوع اور متداول ہے۔ سنہ 1425؁ھ بمطابق 2005 م ایک چھوٹی سی کتاب ”الجزء المفقود من الجزء الأول من المصنف“ کے نام سے محمد عبدالحکیم شرف القادری (بریلوی) کی تقدیم اور عیسیٰ بن عبداللہ بن محمد بن مانع الحمیری ( ؟ ) کی تحقیق کے ساتھ (بریلویوں کے ) مؤسسۃ الشرق، لاہور پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ اس نسخہ میں چالیس (40) احادیث و آثار لکھے ہوئے ہیں۔ بریلوی حضرات اس میں درج حدیثِ نور کی وجہ سے خوشیاں منا رہے ہیں حالانکہ قلمی اور مطبوع کتابوں سے استدلال کی کئی شرائط ہوتی ہیں۔ اس مضمون میں اس”الجزء المفقود“ کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔

بریلویوں کا شائع کردہ یہ”الجزء المفقود“ سارے کا سارا موضوع اور من گھڑت ہے۔ اس کے موضوع اور من گھڑت ہونے کے دلائل درج ذیل ہیں :
➊ اس نسخہ کا ناسخ (لکھنے والا) اسحاق بن عبدالرحمٰن السلیمانی ہے جس کے خط (تاریخ نسخ 933؁ھ) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص دسویں صدی ہجری میں موجود تھا۔ [ديكهئے الجزء المفقود ص 10 ]
اس شخص کے حالات اور ثقہ و صدوق ہونا نامعلوم ہے لہٰذا یہ شخص مجہول ہے۔
➋ دسویں صدی ہجری والے اسحاق بن عبدالرحمٰن السلیمانی نے اپنے آپ سے لے کر امام عبدالرزاق رحمہ الله (صاحب المصنف) تک کوئی سند بیان نہیں کی اور نہ یہ بتایا کہ اس نے یہ نسخہ کہاں سے نقل کیا ہے لہٰذا یہ سارے کا سارا نسخہ بے سند ہے۔
➌ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ نسخہ کہاں کہاں اور کس کس کے پاس رہا ہے۔ حدیث کی کتابوں کے معتبر نسخوں پر علمائے کرام کے سماعات درج ہوتے ہیں۔ یعنی فلاں عالم نے یہ نسخہ فلاں تاریخ کو فلاں عالم سے سنا تھا۔ مثلاً دیکھئے مخطوطۃ مسند الحمیدی (الظاہریہ) پہلا صفحہ۔ جبکہ اس کے برعکس”الجزء المفقود“ کے مقدمہ میں لکھا ہوا ہے کہ :
وليس على النسخة التى بين يدينا أية سماعات ” ہمارے ہاتھوں میں (یہ) جو نسخہ موجود ہے اس پر کوئی سماعات نہیں ہیں۔“ [ ديكهئے ص 14 ]
➍ دارلکتب العلمیۃ بیروت لبنان سے مصنف عبدالرزاق کا جو نسخہ شائع ہوا ہے اسے پانچ نسخوں سے شائع کیا گیا ہے۔
اول : مراد ملا کا نسخہ (ترکی) یہ مکمل نسخہ ہے اور 747؁ھ کا لکھا ہوا ہے۔ [المصنف جلد 1 ص 11 ]
دوم : فیض اللہ افندی کا نسخہ (ترکی ) یہ نامکمل نسخہ ہے اور 606؁ھ کا لکھا ہوا ہے۔ [ جلد 1 ص 11 ]
سوم : المکتبۃ السعیدیۃ العامہ کا نسخہ (تونک) یہ ناقص نسخہ ہے اور 1373؁ھ کا لکھا ہوا ہے۔
چہارم : شیخ محمد نصیف کا نسخہ (جدہ) یہ نامکمل نسخہ ہے اور نویں صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔ [ايضاً ج 1 ص 12 ]
پنجم : حبیب الرحمٰن اعظمی کی تحقیق والا مطبوعہ نسخہ، اسے مراد ملا والے نسخہ سے شائع کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا کہ نسخہ بریلویہ پر سماعات کا نہ ہونا، کاتبِ نسخہ کا مجہول ہونا اور نسخہ کا بے سند ہونا اس نسخہ کے مشکوک اور بے اصل ہونے کے لئے کافی ہے۔
➎ اس نسخہ (نسخۂ بریلویہ ) کے مقدمہ نگار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخہ مطبوعہ نسخہ سے زیادہ مضبوط نسخہ ہے۔ [ديكهئے ص 11]
حالانکہ یہ نسخہ فاش غلطیوں والا ہے۔
مثال : بریلویوں کے ”الجزء المقفود“ میں لکھا ہوا ہے کہ :
عبدالرزاق عن ابن جريج قال : أخبرني البراء قال…… إلخ [ ص55ح 2 ]
اس روایت میں امام ابن جریح سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : مجھے براء (بن عازب رضی اللہ عنہ ) نے خبر دی إلخ۔
”الجزء المقفود“ کا محقق لکھتا ہے :
ابن جريج حافظ ثقة و كان يدلس، فقد صرح هنا بالإخبار
ابن جریج حافظ ثقہ ہیں، آپ تدلیس کرتے تھے، پس آپ نے یہاں سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [حاشيه : 1 ]
عرض ہے کہ ابن جریج رحمہ الله 80؁ھ میں پیدا ہوئے۔ [طبقات ابن سعد ج 5 ص 496 ]
جبکہ سیدنا البراء رضی اللہ عنہ 72؁ھ میں فوت ہوئے۔ [تقريب التهذيب : 248 ]
سیدنا البراء بن عاذب رضی اللہ عنہ کی وفات کے آٹھ سال بعد پیدا ہونے والے امام جریج یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں أخبرني البراء ” مجھے براء نے خبر دی۔“ ( ! )

لطیفہ : الجزء المفقود کے محقق نے اپنے الفاظ بھول کر دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ :
عبدالرزاق قال : أخبرني الزهري عن سفيان بن شبرمة… [ص 88 ح 28 ]
اس روایت میں امام عبدالرزاق رحمہ الله، جناب زہری رحمہ الله سے سماع کی تصریح کر رہے ہیں حالانکہ امام زہری رحمہ الله 125؁ھ یا اس سے ایک دو سال پہلے فوت ہوئے [ ديكهئے التقريب التهذيب : 6296]
اور امام عبدالرزاق رحمہ الله 126؁ھ میں پیدا ہوئے۔ [تقريب التهذيب : 4026 ]
امام زہری رحمہ الله کی وفات کے ایک سال بعد پیدا ہونے والے امام عبدالرزاق رحمہ الله کس طرح أخبرني الزهري کہہ سکتے ہیں ؟

لطیفہ : اسی کتاب کے ایک دوسرے مقام پر”محقق“ صاحب لکھتے ہیں کہ :
هذا الإسناد فيه انقطاع بين عبدالرزاق و الزهري ” اور اس سند میں عبدالرزاق اور زہری کے درمیان انقطاع ہے۔ “ [ص94 ح 40 كا حاشيه : 3 ]
➐ سابقہ نمبر میں جو روایت لکھی ہوئی ہے۔ اس کے راوی ”سفیان بن شبرمۃ“ کے حالات معلوم نہیں ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ یہ ”سفیان عن ابن شبرمۃ“ ہے۔ جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ [ 15/1 ح 132] میں لکھا ہوا ہے۔
یعنی سفيان الثوري عن عبدالله بن شبرمة .
میں جناب محمد عبدالحکیم شرف القادری (بریلوی) اور تمام آل بریلی سے پوچھتا ہوں کہ ”سفیان بن شبرمۃ “ کون ہے ؟ اگر یہ کاتب یا کمپوزر کی غلطی ہے تو پھر غلطیوں والے اس بےسند نسخہ پر آپ کیوں خوشیاں منا رہے ہیں ؟
➑ امام زہری المدنی کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں 50یا 51
امام یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر (پیدائش : 154؁ھ وفات : 231؁ھ) تلمیذٕ امام لیث بن سعد فرماتے ہیں کہ : زہری 56؁ھ میں پیدا ہوئے۔ [تاريخ دمشق 228/58 وسنده صحيح، الزهري لابن عساكر ص 36 ح 10 ]
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ 60؁ھ کے قریب فوت ہوئے۔ [تقريب التهذيب : 4641]
آپ کی قبر مقطم (مصر) میں ہے۔ [سيراعلام النبلاء ج 2 ص 468]
یعنی آپ مصر میں فوت ہوئے !
الجز المفقود میں لکھا ہوا ہے کہ : عن ابن جريج عن الزهري أنه سمع عقبة بن عامر … . [ص 84 ح 24 ]
حالانکہ (مدینہ طیبہ میں پیدا ہونے والے ) امام زہری رحمہ الله کی عقبہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ حافظ نور الدین الہیثمی رحمہ الله لکھتے ہیں کہ : والزهري لم يسمع من عقبة بن عامر ” اور زہری رحمہ الله نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کچھ نہیں سنا۔“ [ مجمع الزوائد ج 1 ص 331، آخر : باب فضل الاذان ]

معلوم ہوا ”الجزء المفقود“ کے مجہول ناسخ نے اس بے سند نسخے میں ایک سند وضع کر کے امام زہری رحمہ الله پر جھوٹ بول رکھا ہے۔ کہ انہوں نے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے !
➒ الجزء المفقود میں لکھا ہوا ہے کہ :
عبدالرزاق عن معمر عن الزهري عن أبى سعيد الخدري عن أبيه عن جده عن أبى سعيد إلخ [ص 80، 81 ح 20 ]
اس روایت میں بقول اسحاق بن عبدالرحمٰن السلیمانی : امام زہری سیدنا ابوسعید الخدری (سعد بن مالک بن سنان الانصاری) رضی اللہ عنہ عن ابیہ (مالک بن سنان) عن جدہ (سنان بن عبید) عن ابی سعید سے روایت کر رہے ہیں حالانکہ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کے دادا سنان بن عبید کا صحابہ میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور نہ سنان بن عبید کے استاد ابوسعید کا کہیں تذکرہ ملتا ہے۔ الجزء المفقود کے ”محقق“ نے ابوسعید الخدری عن ابیہ عن جدہ عن ابی سعید میں ابوسعید الخدری کو ردبیح (ربیح) بن عبدالرحمٰن بن ابی سعید بنا دیا ہے حالانکہ ربیح کی کنیت ابوسعید، معلوم نہیں ہے اور نہ اس کے شاگردوں میں امام زہری رحمہ الله کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ [ ديكهئے تهذيب الكمال ج 6 ص 124 ]
➓ احادیث کی کتابوں میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ان کی روایات (سندیں اور متون ) دوسری کتابوں میں بھی ملتی ہیں مثلاً مصنف عبدالرزاق کی پہلی متصل مرفوع حدیث عبدالرزاق عن مالك عن عمرو بن يحيي عن أبيه عن عبدالله بن زيد کی سند سے مروی ہے۔ یہی روایت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله نے حدثنا عبدالرزاق قال : أخبرنا مالك عن عمرو بن يحيي عن أبيه عن عبدالله بن زيد کی سند سے اسی متن کے ساتھ بیان کر رکھی ہے۔ [ مسند احمد ج 4 ص 39 ح 16438 و سنده صحيح ]
عبدالرزاق کی سند سے یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں بھی موجود ہے۔ [80/1 ح 155 ]
امام مالك عن عمرو بن يحيي عن أبيه عن عبدالله بن زيد کی سند سے یہی روایت موطا امام مالک (18/1 ح 31) و صحیح بخاری (185) و صحیح مسلم (235) میں موجود ہے۔ جب کہ بریلویوں کی پیش کردہ روایات الجزء المفقود کا وجود حدیث کی دوسری باسند کتابوں میں نہیں ملتا۔ معلوم ہوا کہ دال میں ضرور کچھ کالا کالا ہے۔
ان دس دلائل سے معلوم ہوا کہ “الجزء المفقود” کے نام سے مطبوع کتاب بے اصل، بے سند اور موضوع ہے۔ لہٰذا اس سے استدلال کرنا حلال نہیں ہے۔

امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ اللہ
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام عبدالرزاق رحمہ الله (متوفی 211؁ھ) ثقہ حافظ امام تھے۔ جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے لیکن ثقہ ہونے کے ساتھ وہ مدلس بھی تھے۔ ان کی تدلیس کے لئے دیکھئے کتاب الضعفاء للعقیلی (ج3 ص 111، 110 وسندہ صحیح ) و طبقات المدلسین للحافظ ابن حجر رحمہ اللہ ۔
مدلس راوی کے بارے میں یہ عام اصول ہے کہ غیر صحیحین میں اس کی عن والی روایت ضعیف و مردود ہوتی ہے، لہٰذا اگر یہ من گھڑت اور موضوع ”الجزء المفقود“ (بفرض محال ) ثابت بھی ہوتا تو اس میں نور والی روایات باطل اور مردود ہیں۔
امام عبدالرزاق آخری عمر میں نابینا ہونے کے بعد اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ [ديكهئے الكواكب النيرات ص 53 ت 34 ]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ : ہم 200؁ھ سے پہلے عبدالرزاق کے پاس آئے تھے، اس وقت ان کی نظر صحیح تھی۔ جس نے ان کی نظر ختم ہونے کے بعد ان سے سنا ہے تو اس شخص کا سماع ضعیف ہے۔ [تاريخ ابي زرعه الدمشقي : 1160و سنده صحيح]
امام احمد نے مزید فرمایا کہ :
لا يعبأ بحديث من سمع منه وقد ذهب بصره، كان يلقن أحاديث باطلة
” جس نے اس کے نابینا ہونے کے بعد اس سے احادیث سنی ہیں، ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وہ باطل حدیثوں کی تلقین قبول کر لیتے (اور انہیں بیان کر دیتے ) تھے۔“ [سوالات ابن هاني؛ 228/5 و سنده صحيح ]
اس مطبوعہ بے سند نسخے میں عبدالرزاق کا شاگرد ہی معلوم نہیں ہے لہٰذا اس پر کس طرح اعتماد کیا جا سکتا ہے ؟

 

یہ تحریر اب تک 124 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. انعام الرحمان

    جس روایت کی بنا پر تدلیس کا الزام ہے کیا اس راوی کا اخلاط سے پہلے سننا ثابت ہے ؟
    امام ابو جعفر العقیلی روایت کرتے ہیں کہ:
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: ذَكَرَ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعِ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ وَلَّوْا عَلِيًّا فَهَادِيًا مَهْدِيًّا» فَقِيلَ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ: سَمِعْتَ هَذَا مِنَ الثَّوْرِيِّ؟ قَالَ: لَا حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ، وَغَيْرُهُ: ثُمَّ سَأَلُوهُ مَرَّةً ثَانِيَةً فَقَالَ: حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَيَحْيَى بْنَ الْعَلَاءِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ
    (الضعفاء الکبیر للعقیلی: 3/110)
    اس روایت سے ایسا لگتا ہے کہ عبد الرزاق نے تدلیس کی ہے۔ لیکن اس کی اسناد بظاہر تو صحیح معلوم ہوتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس سند کے تمام رجال ثقات ہیں لیکن یہ بھی ایک معلوم شدہ بات ہے کہ امام عبد الرزاق آخری عمر میں ضعیف الحفظ ہو گئے تھے یعنی مختلط ہو گئے تھے۔ اور محمد بن سہل بن عسکر کا سماع ان سے اختلاط سے پہلے کا ہے یا بعد کا اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت اس وجہ سے ضعیف ہے۔ اور ممکن ہے کہ امام عبد الرزاق نے اپنے خراب حافظے کی وجہ سے اس حدیث میں غلطی کی ہو نہ یہ کہ وہ مدلس تھے! لہٰذا امام عبدالرزاق پر تدلیس کا الزام ہرگز ثابت نہیں ہے۔

Leave a Reply