حجراسود اور حضرت عمر رض کی دعوت توحید

[arabic-font]

((انّ عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ قال للرّکن؛ أما واللّٰہ انّی لأعلم أنک حجر، لا تضرّ ولا تنفع ، ولولا أنی رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلم استلمک ما استلمک، فاستلمہ، ثمّ قال؛ ما لنا و للرّمل ؟انّما کنّا راءینا المشرکین ، وقد أھلکھم اللّٰہ، ثمّ قال ؛ شییٔ صنعہ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، فلا نحبّ أن نّترکہ.))

[/arabic-font]

                “سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رکن (حجرِ اسود) سے مخاطب ہو کر فرمایا، یقیناً میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نفع  و نقصان کا مالک نہیں، اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر آپ نے اس کو بوسہ دیا، پھر فرمایا، ہمیں رمل سے کیا واسطہ تھا، ہم تو صرف مشرکین کو دکھانے کےلئے ایسا کرتے تھے ، اللہ نے ان کو ہلاک کردیا ہے ، پھر فرمایا، یہ ایسا کام ہے جسے نبیٔ کریم ﷺ نے کیا ہے، لہٰذاہم اسے چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔”(صحیح بخاری: ۱۶۰۵، صحیح مسلم: ۱۲۷۰)

۱٭         (صرف) طوافِ (قدوم کے پہلے تین چکروں میں) حج و عمرہ کے اندر “رمل” (کندھے اکڑ ا کر تیز تیز اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چلنا) سنتِ نبوی ہے ۔

فائدہ:       سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول “یہ رمل سنت نہیں ہے ” (صحیح مسلم: ۱۲۶۴، داؤد: ۱۸۸۵) کا مطلب یہ ہے کہ یہ واجبی اورفرض سنت نہیں ہے کہ جس کے بغیر حج نہ ہوسکے۔

۲٭        (صرف طوافِ قدوم کے پہلے تین چکروں میں) اضطِباع (احرام کی چادر دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا) جائز ہے ، جیسا کہ روایت (مسند الامام أحمد : ۴۵/۱ ، سنن أبی داؤد: ۱۸۸۷، سنن ابن ماجہ : ۲۹۵۲، صحیح ابن خزیمہ : ۲۷۰۸ ، وسندہ حسن ) ہے : فیم  الرّملان الیوم و الکشف عن المناکب .

۳٭        حجرِ اسود کی فضیلت کا ثبوت ہے ، نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:

[arabic-font]

((الحجر الأسود من الجنّۃ، وکان أشد بیاضا من الثّلج، حتی سوّدتہ خطایا أھل الشّرک.))

[/arabic-font]

                “حجر اسود جنت سےآیا ہے ، یہ برف سے زیادہ سفید تھا، مشرکین کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔ ” (مسند الامام أحمد: ۳۰۷/۱ ، وسندہ حسن)

نیز فرمایا:

[arabic-font]

((لولا ما مسّہ من أنجاس الجاھلیّۃ ما مسّہ ذو عاھۃ الا شفیٰ وما علی الارض شییٔ من الجنّۃ غیرھا))

[/arabic-font]

                “اگر اسے جاہلیت کی نجاستیں نہ لگی ہوتیں تو جو بھی مصیبت زدہ اسے چھوتا ، نجات پاتا، نیز اس کے علاوہ جنت کی کوئی چیز روئے زمین پر موجود نہیں۔” (السّنن الکبریٰ للبیہقی: ۷۵/۵، وسندہٗ صحیح)

                اور فرمایا:

[arabic-font]

((لیبعثنّ اللّٰہ الحجر یوم القیامۃ، لہ عینان یبصر بھما ولسان ینطق بہ و یشھد علی من استلمہ بحقّ))

[/arabic-font]

                “اللہ تعالیٰ حجرِ اسود کو روزِ قیامت یوں اٹھائے گا کہ اس کی دیکھی دو آنکھیں اور بولتی زبان ہوگی، وہ اپنے چومنے والے مسلمان کے حق میں گواہی دے گا۔ ”                (مسندالامام أحمد: ۳۰۷/۱، وسندہٗ حسن)

۴٭        اللہ اکبر کہہ کر (صحیح بخاری : ۱۶۱۳) طواف میں حجرِ اسود کو بوسہ دیناسنت اور مستحب ہے۔

                سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور اس سے چمٹ گئے اور کہا، میں نے دیکھا کہ نبیٔ کریم ﷺ تجھے بہت چاہتے تھے۔            (صحیح مسلم: ۱۲۷۱)

                فائدہ : ایک روایت میں ہے :

[arabic-font]

       وھو یمین اللّٰہ الّتی یصافح بھا خلقہ.

[/arabic-font]

                “یہ زمین میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے مصافحہ کرتا ہے ۔”

                                (مسند الامام أحمد: ۲۱۱/۲، عن عبداللہ بن عمرو، صحّحہ ابن خزیمہ: (۲۷۳۷) و الحاکم (۴۵۷/۱))

یہ سند “ضعیف” ہے ، اس میں عبداللہ بن المومل راوی “ضعیف الحدیث” ہے ۔ (التقریب: ۳۶۴۸)

                اس کی دوسری سند (تاریخ بغداد : ۲۳۸/۶، الکامل لابن عدی : ۳۴۲/۱) “موضوع” (من گھڑت) ہے ، اس میں اسحاق بن بشیر “کذاب” ہے ۔

                سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

[arabic-font]

           الحجر الأسود یمین اللّٰہ فی الأرض.

[/arabic-font]

                “حجرِ اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے ۔”    (غریب الحدیث لابن قتیبہ: ۹۶/۲ ، تاریخ مکۃ للأزرقی: ۳۲۴/۱، قال ابن حجر: ھذا موقوف صحیح (المطالب العالیۃ: ۳۷/۲)  یہ قول جمیع سندوں کے ساتھ “ضعیف” ہے۔

۵٭        بوسہ صرف حجرِ اسود کے لئے مشروع ہے ۔

۶٭         پتھر نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

                فائدہ :       سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا :

[arabic-font]

                یا أمیر المؤمنین انّہ یضرّ و ینفع.

[/arabic-font]

      “اے امیر المؤمنین! یہ نفع و نقصان دیتا ہے ۔”              (مستدرک الحاکم : ۴۵۷/۱ – ۴۵۸، شعب الایمان للبیہقی: ۳۷۴۹)

                یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے ، اس میں ابو ہارون العبدی راوی “کذاب” ہے ۔

۷٭        حجرِ اسود کو بوسہ اس کی تعظیم کی بنا پر نہیں، بلکہ اتباعِ سنت کی بنا پر دیا جاتا ہے۔

                فائدہ:       سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :

[arabic-font]

               لولم یکن الحجر من البیت ما طفت.

[/arabic-font]

                “اگر حجرِ اسود بیت اللہ کا حصہ نہ ہوتا تو میں اس کا طواف نہ کرتا ۔”    (مسند عمر بن الخطاب لأبی بکر أحمد بن سلمان النجاد: ۱۸ ، وسندہ حسن)

۸٭        حجرِ اسود کو “رکن” کہنا بھی صحیح ہے ، اس لیے کہ یہ کعبہ کے کونے میں نصب ہے ۔

۹٭         بے جان چیز کو خطاب کرکے حاضرین کو سنانا جائز ہے۔

۱۰٭       عام گفتگو میں قسم اٹھانا جائز ہے۔

۱۱٭        سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اطاعتِ رسول ﷺ کے جذبۂ مبارکہ سے سرشار تھے۔

۱۲٭       کبھی کبھی عدمِ فعل عدمِ مشروعیت کی دلیل ہوتا ہے ۔

۱۳٭      امورِ دینیہ کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، ان پر عمل ہونا چاہیے۔

۱۴٭      نو مسلم یا کمزور ایمان والوں کے سامنے شرعی امور کی حکمت بیان کرنا مفید و نافع ہے ۔

۱۵٭       شرک کے شبہ تک سے دور ہونا چاہیے۔

۱۶٭       جس چیز کا بوسہ شرعاً مشروع نہ ہو، اسے چومنا مکروہ ہے ۔

۱۷٭      اتباعِ سنت میں غلبۂ اسلام کے لئے قوت و طاقت کا مظاہرہ مستحسن ہے ۔

۱۸٭      ایک کام جو نبیٔ اکرمﷺ نے کسی علت کے پیشِ نظر کیا،  وہ علت مرتفع ہوجانے کے بعد بھی ہمیشہ سنت کے درجہ پر ہوگا۔

۱۹٭       عمل میں ریاکار ی اس وقت مذموم ہوتی ہے ، جب وہ لوگوں کی موجودگی میں دکھاوے کی غرض سے ہو ، عدم موجودگی میں وہ عمل نہ کیا جائے۔

۲۰٭      نبیٔ اکرمﷺ کے دورِ مبارک میں اسلام کو غلبہ نصیب ہوگیا تھا اور شرک و کفر نیست و نابود ہوگیا تھا۔

۲۱٭       یہ حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کی فضیلت و منقبت پر زبردست دلیل ہے ۔

یہ تحریر اب تک 9 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply