حجامہ (سینگی لگوانا) ایک شرعی علاج​

تحریر: حافظ ندیم ظہیر حفظ اللہ

حجامہ سے مراد پچھنے لگوانا ہے،یعنی جسم کے متاثرہ حصے سے سینگی کے ذریعے خراب و فاسد خون نکلوانا۔یہ ایسا علاج ہے جس کی طبی اہمیت سے انکار ممکن نہیں،بلکہ دورِ جدید میں سائنسی لحاظ سے بھی اسے مجرب و مفید قرار دیا گیا ہے۔ ہم نے ان سطور میں صحیح احادیث و آثار سے حجامہ (سینگی)کی شرعی حیثیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے :
سینگی میں شفاء ہے :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ،مُقنَّع بن سنان (تابعی) کی تیمارداری کے لئے تشریف لائے،پھر ان سے فرمایا:جب تک تم سینگی نہ لگوالو میں یہاں سے نہیں جاؤں گا،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
((إن فیہ شفاء )) بلاشبہ اس میں شفاء ہے۔(صحیح بخاری :۵۶۹۷)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفاء تین چیزوں میں ہے :(۱) سینگی لگوانے میں (۲) شہد پینے میں (۳) اور آگ سے داغنے میں،(لیکن)میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔(صحیح بخاری :۵۶۸۱)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگرتمھاری داؤں میں شفاء ہے تو سینگی لگوانے میں اور آگ سے داغنے میں ہے اور میں داغنے کو پسند نہیں کرتا۔(صحیح بخاری :۵۷۰۴)
سینگی بہترین دوا(علاج ) ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو،اگر ان میں سے کوئی بہتر دوا ہے تو وہ سینگی لگوانا ہے۔(سنن ابی داود : ۳۸۵۷،سنن ابن ماجہ : ۳۴۷۶ وسندہ حسن )
سینگی لگوانے کے لئے قمری تاریخ کا انتخاب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص (قمری مہینے کی ) سترہ،انیس اور اکیس تاریخ کو سینگی لگوائے،اسے ہر بیماری سے شفاء ہوگی۔(سنن ابی داود :۳۸۶۱وسندہ حسن)
عورتیں بھی سینگی لگواسکتی ہیں :
ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سینگی لگوانے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طیبہ کو حکم دیا کہ انھیں سینگی لگادیں۔
راوی کے نزدیک ابو طیبہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی یا نابالغ لڑکے تھے۔(صحیح مسلم :۲۲۰۶، دار السلام :۵۷۴۴)
راجح یہی ہے کہ وہ اُس وقت غلاموں میں،سینگی لگانے کے ماہر،نابالغ لڑکے تھے۔
حالتِ احرام میں سینگی لگوانا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لحی جمل کے مقام پر حالتِ احرام میں سر کے درمیان سینگی لگوائی تھی۔ (صحیح بخاری :۱۸۳۶،صحیح مسلم :۱۲۰۳)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالتِ احرام میں سینگی لگوائی۔(صحیح بخاری : ۵۶۹۵)
روزے کی حالت میں سینگی لگوانا :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی۔(صحیح بخاری :۵۶۹۴)
سینگی لگوانے کے بعد غسل کرنا :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چار کاموں کی وجہ سے غسل کیا کرتے تھے :جنابت سے،جمعہ کے دن،سینگی لگوانے سے اور میت کو غسل دینے کے بعد۔(سنن ابی داود : ۳۴۸وسندہ حسن )
سینگی لگانے والے کو اجرت دینا ؟
ابو طیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی لگائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انھیں (مزدوری میں )ایک صاع کھجور دی جائے اور آپ نے ان کے مالکوں کو حکم دیا کہ ان پر مقررہ خراج میں کمی کریں۔(صحیح بخاری : ۲۱۰۲،صحیح مسلم :۱۵۷۷)
یہاں خراج سے مراد وہ رقم ہے جو غلام اپنے مالک یا مالکوں کو آزادی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی اور حجام کو اس کی اجرت دی،اگر یہ اجرت حرام ہوتی تو اسے نہ دیتے۔(صحیح بخاری : ۲۱۰۳)
ثابت ہوا کہ جن روایات میں اس اجرت کو خبیث وغیرہ کہا گیاہے وہ کراہت پر محمول ہیں یا منسوخ ہیں۔واللہ اعلم
سینگی لگوانے کے بارے میں چند ضعیف و غیر ثابت روایات​
(۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس رات مجھے معراج ہوئی،میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرا،وہ سب مجھے یہی کہتے رہے :اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)سینگی لگوایا کریں۔
(سنن الترمذی :۲۰۵۲،عبد الرحمن بن اسحاق الکوفی الواسطی ضعیف ہے،سنن ابن ماجہ : ۳۴۷۷،المستدرک للحاکم ۴؍۲۰۹ عباد بن منصور ضعیف ہے اور یہ روایت اپنے تمام طرق و شواہد کے ساتھ ضعیف ہی ہے۔)
(۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سینگی لگانے والا اچھا بندہ ہے۔خون لے جاتا ہے،کمر ہلکی کرتا ہے اور بینائی تیز کرتا ہے۔
(سنن ترمذی : ۲۰۵۳،سنن ابن ماجہ :۳۴۷۸،المستدرک ۴؍۲۱۲،عباد بن منصور ضعیف راوی ہے۔)
(۳)سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نازل ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گردن کی رگوں پر اور دونوں کندھوں کے درمیان سینگی لگوانے کی ہدایت کی۔
(سنن ابن ماجہ :۳۴۸۲،اصبغ بن نباتہ متروک راوی ہے۔)
(۴)سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گردن کی رگوں پر اور کندھوں کے درمیان سینگی لگوائی۔(سنن ابی داود :۳۸۶۰،سنن الترمذی :۲۰۵۱،سنن ابن ماجہ :۳۴۸۳ یہ روایت قتادہ کے عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔)
(۵)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہار منہ سینگی لگوانا زیادہ مفید ہے،اس سے عقل میں اضافہ اورحافظہ تیز ہوتا ہے اور اچھی یاداشت والے کی یاداشت بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔جس نے سینگی لگوانی ہو وہ اللہ کا نام لے کر جمعرات کو لگوائے۔جمعہ،ہفتہ اور اتوار کو سینگی لگوانے سے اجتناب کرو۔سوموار اور منگل کو سینگی لگوالیا کرو۔بدھ والے دن بھی سینگی لگوانے سے بچو،کیونکہ ایوب علیہ السلام کو اسی دن آزمائش آئی تھی۔جذام اور برص صرف بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں ظاہر ہوتا ہے۔(سنن ابن ماجہ :۳۴۸۸،عبد اللہ بن عصمۃ اور سعید بن میمون دونوں مجہول ہیں )
تنبیہ :جن دنوں میں سینگی لگوانے کی ممانعت وارد ہوئی ہے وہ سب ضعیف روایات ہیں،کسی بھی دن سینگی لگوائی جاسکتی ہے،البتہ قمری مہینے کے تین دنوں میں سینگی لگوانا بہتر و افضل ہے،جیسا کہ بحوالہ حدیث گزر چکا ہے۔
قارئین کرام !ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ سینگی کی شرعی حیثیت اور اس کے احکام صفحہ قرطاس پر منتقل کردیئے ہیں۔امید ہے کہ اس متروکہ عمل کو جاری و عام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ایسے ماہر معالج کا انتخاب کریں جو بخوبی جانتاہوکہ جسم کے کس حصے پر کس مقصد یا مرض کے لئے سینگی لگانی ہے۔
وما توفیق الا باللہ۔”بحوالہ ماہنامہ الحدیث، شمارہ 84،مئی 2011ء

 

اس تحریر کو اب تک 48 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply