حالت نماز میں قرآن کریم کو پکڑ کر قرائت

تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

جب آدمی حافظ قرآن نہ ہو تو بوقت ضرورت قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر قرآئت کر سکتا ہے۔ محدثین کرامؓ اس کو جائز سمجھتے تھے۔ اسی طرح اگر سامع حافظ نہ ہو تو وہ بھی ایسا کر سکتا ہے جیسا کہ:

۱۔ سیدہ عائشہؓ کے بارے میں روایت ہے:

کانت عائشۃ یؤمّھا عندھا ذکوان من المصحف۔

‘‘ سیدہ عائشہؓ کے غلام ذکوانؓ ان کی امامت قرآن مجید سے دیکھ کر کرتے تھے۔’’

(صحیح البخاری: ۹۶/۱ تعلیقا، مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، کتاب المصاحف لابن داوٗد: ۷۹۷، السنن الکبرٰی للبیھقی: ۲۵۳/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

حافظ نوویؒ (خلاصۃ الاحکام: ۵۵۰/۱) نے اس کی سند کو ‘‘ صحیح’’ اور حافظ ابن حجرؒ (تغلیق التعلیق: ۲۹۱/۲) نے اس روایت کو ‘‘صحیح’’ قرار دیا ہے۔

۲۔ امام ایوب سختیانیؓ فرماتے ہیں:

کان محمّد لا یری بأسا أن یؤمّ الرجل القوم، یقرأفی فی المصٖف۔

‘‘ امام محمد بن سرین تابعیؒ اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے کہ آدمی قوم کو امامت کروائے اور قرائت قرآن مجید سے دیکھ کر کرے۔’’

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

۳۔ امام شعبہؒ، امام حکم بن عتیبہ تابعیؒ سے اس امام کے بارے میں روایت کرتے ہیں، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید کو ہاتھ میں پکڑ کر قرائت کرتا ہے۔ آپؒ اس میں رخصت دیتے تھے۔’’

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندۃٗ صحیحٌ)

۴۔ امام حسن بصری تابعیؒ اور امام محمد بن سیرین تابعیؒ فرماتے ہیں کہ نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔’’

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

۵۔ امام عطاء بن ابی رباح تابعیؒ کہتے ہیں کہ حالت نماز میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۷/۲، وسندہٗ صحیحٌ)

۶۔ امام یحیٰی بن سعید الانصاریؒ فرماتے ہیں:

لا أری بالقراءۃ من المصحف فی رمضان بأسا۔

‘‘ میں رمضان المبارک میں قرآن مجید سے دیکھ کر قرائت کرنے میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا۔’’

(کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: ۸۰۵، وسندہٗ صحیحٌ)

۷۔ محمد بن عبداللہ بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام زہریؒ سے قرآن مجید سے قرائت کر کے امامت کرانے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا:

لم یزل الناس منذ کان الإسلام، یفعلون ذلک۔

‘‘ اسلام کے شروع سے لے کر ہر دور میں مسلمان ایسا کرتے آئے ہیں۔’’

( کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: ۸۰۶، وسندہٗ حسنٌ)

۸۔ امام مالکؒ سے ایسے انسان کے بارے میں سوال ہوا، جو رمضان المبارک میں قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر امامت کراتا ہے۔ آپؒ نے فرمایا:

لابأس بذلک، وإذا ضطرّوا إلی ذلک۔

‘‘ مجبوری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔’’

(کتاب المصاحف لابن ابی داوٗد: ۸۰۸، وسندہٗ صحیحٌ)

۹۔ امام ایوب سختیانیؒ فرماتے ہیں:

کان ابن سیرین یصلّی، والمصحف إلی جنبہ، فإذا تردّد نظر فیہ۔

‘‘ امام محمد سیرینؒ نماز پڑھتے تو قرآن مجید ان کے پہلو میں پڑا ہوتا۔ جب بھولتے تو اس سے دیکھ لیتے۔’’

(مصنف عبد الرزاق: ۴۲۰/۲، ح: ۳۹۳۱، وسندہٗ صحیحٌ)

۱۰۔ امام ثابت البنانیؒ بیان کرتے ہیں:

کان أنس یصلّی، وغلامہ یمسک المصحف خلفہ، فإذا تعایا فی آیۃ فتح علیہ۔

‘‘ سیدنا انس بن مالکؓ نماز پڑھتے تھے۔ ان کا غلام ان کے پیچھے قرآن مجید پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ جب آپ کسی آیت پر رک جاتے تو وہ لقمہ دے دیتا تھا۔’’

(مصنف ابی ابن شیبۃ: ۳۳۷/۲، السنن الکبری للبیھقی: ۲۱۲/۳، وسندہٗ صحیحٌ)

ثابت ہوا کہ قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر قرآئت کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اس کے خلاف سلف سے کچھ ثابت نہیں۔ فاسد کہنے والوں کا قول خود فاسد اور کاسد ہے۔

سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم، فقیہ العصر، شیخ عبد العزیز ابن بازؒ نے بھی فتح الباری (۱۸۵/۲) کی تحقیق میں اس کو بوقت ضرورت جائز قرار دیا ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں قرآن کریم پکڑ کر نماز میں قرائت کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

۔ سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے ہمیں قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر امامت کرانے سے منع فرمایا۔’’

(کتاب المصاحف: ۷۷۲)

تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین ‘‘ ضعیف’’ ہے، کیونکہ:

۱۔ اس کی سند میں نہشل بن سعید راوی ‘‘ متروک’’ اور ‘‘کذاب’’ ہے۔

(تقریب التھذیب: ۷۱۹۷، میزان الاعتدال: ۲۷۵/۴)

۲۔ اس کے راوی ضحاک بن مزاحم کا سیدنا ابن عباسؓ سے سماع نہیں ہے۔

( تفسیر ابن کثیر: ۲۳۶/۵، التلخیص الحبیر لابن حجر: ۲۱/۱، العجاب فی بیان الاسباب لابن حجر: ص۱۰۴)

حنفی اور دیوبندی مذہب کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے:

و لذلک قال مشایخنا فیمن صلّی، وفی کمّہ جرو کلب أنّہ تجوز صلاتہ، و قیّد الفقیہ أبو جعفر الھند و انیّ الجواز بکونہ مسدود الفم۔

‘‘ اس واسطے ہمارے مشایخ نے اس نمازی کے بارے میں کہا ہے، جس کی حالت یہ ہے کہ اس کی آستین میں پلا ( کتیا کا  بچہ) ہو، اس کی نماز جائز ہے، فقیہ ابو جعفر الہندونی نے اس جواز کو اس بات کے ساتھ مقید کیا ہے کہ کتے کا منہ (کپڑا لپیٹ کر) بند کیاہوا ہو۔’’

( بدائع الصنائع: ۷۴/۱، الدر المختار مع کشف لاستار: ۳۸/۱، رد المختار: ۱۵۳/۱، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار: ۱۱۵-۱۱۴/۱، البحر الرائق لابن نجیم: ۱۰۲-۱۰۱/۱، فیض الباری از انور شاہ کشمیری دیو بندی: ۲۷۴/۱، مجموعہ رسائل از مھدی حسن شاھجہانپوری دیوبندی: ۲۴۰)

آل تقلید کتا اٹھا کر نماز پڑھنے کو تو جائز سمجھتے ہیں، لیکن قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ یہ قبیح بدعت ہے۔ امت میں کوئی مسلمان بھی کتا اٹھا کر نماز پڑھنے کا قائل نہیں۔ مقلدین نے یہ بدعت ایجاد کی ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھو ردّ۔

‘‘ جو شخص ہمارے اس دین میں ایسی چیز نکالے، جس کا وجود اس میں نہ ہو، وہ باطل ہے۔’’

(صحیح البخاری: ۳۷۱/۱، ح:۲۶۹۷، صحیح مسلم: ۷۷/۲، ح:۱۷۱۸)

مشتاق علی شاہ دیو بندی نے ایک کتاب شائع کی ہے ‘‘ فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات’’ مکتبہ فاروقیہ۔ ۸ گوبند گڑھ، گوجرانوالہ، پاکستان۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر ۳۰۸ پر اس نے فقہ حنفی پر ایک غیر حنفی کا اعتراض نقل کیا ہے کہ حنفیوں کے نزدیک ‘‘ اگر بڑے کتے کو بھی بغل میں دبائے ہوئے نماز پڑھے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔’’

مشاق علی شاہ دیو بندی کے ممدوح محمد شریف کوٹلوی بریلوی نے اس کے تین جوابات دئیے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے:

‘‘ رسول کریمﷺ اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔’’

(فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات: ص ۳۰۹)

سوال کتے کے بارے میں تھا اور جواب میں اس گستاخ نے پیارے نبی اکرمﷺ کی پاک نواسی کا ذکرکر دیا ہے۔

حنفی مذہب کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے:

إذا قرأ المصلّی من المصحف فسدت صلاۃ فی قول أبی حنیفۃ، لو نظر إلی فرج المطلّقۃ عن شھوۃ، یصیر مراجعا، ولا تفسد صلاتہ، لونظر المصلّی إلی فرج امرأۃ بشھوۃ حرمت علیہ أمھا وابنتھا، ولا تفسد صلاتہ۔

‘‘ جب نمازی قرآن مجید پکڑ کر قرائت کرے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق نماز فاسد ہو جاتی ہے، لیکن اگر طلاق شدہ عورت کے شرمگاہ کو شہوت کی نظر سے دیکھے تو رجوع ہو جائے گا، نماز بھی فاسد نہیں ہو گی۔ اگر نمازی کسی عورت کی شرمگاہ کی طرف شہوت کے ساتھ دیکھتا ہے تو اس عورت کی ماں اور بیٹی اس پر حرام ہو جائے گی، نماز فاسد نہیں ہوگی۔’’

(فتاوی قاضی خان: ۶۵/۱، فتاوی عالمگیری: ۱۰۱/۱، الفتاوی التاتارخانیہ: ۵۹۴/۱، الاشباہ والنظائر لابن نجیم: ۳۰۷/۲)

امام بریلوت احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ اگر عورت کو طلاق رجعی دی تھی، ہنوز عدت نہ گزری تھی۔ یہ نماز میں تھا کہ عورت کی فرج داخل (شرمگاہ کے اندرونی حصے) پر نظر پڑ گئی اور شہوت پیدا ہوئی۔ رجعت ہو گئی اور نماز میں فساد نہ آیا۔’’

(فتاوی رضویہ: ۷۴/۱)

قارئین کرام! یہ حنفی مذہب کی معتبر کتابیں ہیں اور یہ حنفی فقہاء ہیں اور یہ ان کی فقہ ‘‘ شریف’’ ہے۔

الحاصل:

بوقت ضرورت قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ کر قرائت کی جاسکتی ہے۔ فاسد کہنے والوں کا قول فاسد ہے۔

 

یہ تحریر اب تک 40 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply