جہری نمازوں میں اونچی آواز میں آمین کہنا

تحریر: ابوالریان نعیم الرحمٰن

آمین بالجہر کی چند صحیح و حسن روایات درج ذیل ہیں۔
پہلی حدیث : قال الإمام ابوداود رحمه الله : ”حد ثنا محمد بن كثير : أخبرنا سفيان عن سلمة عن حجرأبي العنبس الحضر مي عن وائل بن حجر قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذاقرأ ولاالضالين قال : آمين ورفع بها صوته“
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ولاالضالين کی قرأت کے بعد آمین کہتے اور اپنی آواز اس کے ساتھ بلند فرماتے۔ [سنن ابي داودج اص 141، 142ح : 932باب التامين وراءالامام]
? یہ روایت مسند الدارمی [ج ا ص 284ح : 1250] پر بھی اسی سند سے موجود ہے وہاں ويرفع بها صوته کے الفاظ ہیں اور ترجمہ انہی الفاظ کے مطابق لکھا گیا ہے۔

سند کا تعارف
➊ محمد بن کثیر العبدی البصری، صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی ہے۔
◈ اس کی صحیح بخاری میں ساٹھ [60] سے اوپر روایتیں ہیں۔ [مفتاح صحيح البخاري 156]
◈ صحیح مسلم میں اس کی حدیث [ج 2ص244ح 2269 كتاب الرؤيا، باب فى تأويل الرؤيا] میں موجود ہے۔
◈اس پر امام یحییٰ بن معین کی جرح مردود ہے۔ قال ابن حجر ثقة ولم يصب من ضعفه [تقريب التهذيب ص 468]
◈ ابن معین کی جرح محمد بن کثیر المصیصی کے بارے میں ہے۔ [حاشيه ميزان الاعتدال ج4ص18] المصیصی دوسرا شخص تھا۔
◈ محمد بن کثیر العبدی کی متابعت ابوداود الحفری [السنن الكبري للبيهقي ج4ص57] اور الفریابی [سنن دار قطني ج ا ص333] نے کر دی ہے والحمدلله

➋ سفیان بن سعید الثوری، صحیح بخاری و صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی تدلیس کی بحث آگے آ رہی ہے۔
➌ سلمۃ بن کھیل، صحیح بخاری و صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں اور ثقه ہیں۔ [تقريب ص 202]
➍ حجر ابوالعنبس ثقه ہیں۔ [الكاشف للذهمي ج ا ص 150] انہیں خطیب بغدادی وغیرہ نے ثقه کہا ہے۔
➎ وائل بن حجر مشہور صحابی ہیں۔
? معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ والحمدلله

ایک اعتراض کا جواب
پرائمری ماسٹر : محمد امین صفدر اوکاڑوی حیاتی دیوبندی، نے لکھا ہے : ”سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث ابوداود سے جو پیش کرتے ہیں نہ صحیح ہے، کیونکہ اس میں سفیان مدلس، علاء بن صالح شیعہ، محمد بن کثیر ضعیف ہے۔ نہ دوام میں صریح ہے۔“ [مجموعه رسائل ج 3 ص 331 طبع اول، غير مقلدين كي غير مستند نماز، حواله نمبر 87، تجليات صفدر ج 5 ص 470]

الجواب :
① سفیان بن سعید الثوری کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا :
ولا أعرف لسفيان الثوري عن حبيب بن أبى ثابت ولا عن سلمة بن كهيل ولا عن منصور و ذكر مشائخ كثيرة، لا أعرف لسفيان عن هولاء تدليسا (ما ) أقل تدليسه [علل الترمذي الكبير ج 2 ص 966]
یعنی سفیان ثوری، سلمہ بن کہیل سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔

آل تقلید کے نزدیک یہاں تدلیس مضر نہیں ہے۔
ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے کہا :
والتدليس و الإرسال فى القرون الثلاثه لا يضر عندنا [اعلاء السنن ج ا ص 313]

سفیان ثوری ترک رفع یدین والی حدیث المنسوب الی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، کے بنیادی راوی ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔ دیوبندی اور بریلوی حضرات کا سفیان کی یہاں تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ابوبلال محمد اسماعیل جھنگوی دیوبندی کی ”تحفہ اہل حدیث“ حصہ دوم [ص 155، 154] بھی دیکھ لیں۔

باقی جوابات کو اختصار کی وجہ سے حذف کر رہا ہوں مثلا یحییٰ بن سعید القطان کی سفیان ثوری سے روایت وغیرہ۔ العلاء بن صالح ہماری روایت کی سند میں ہے ہی نہیں اور محمد بن کثیر العبدی کو ضعیف کہنا مردود ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ یاد رہے کہ راوی کے تعین کے لئے اس کے شیوخ و تلامیذ کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایک روایت میں امام ابوداود نے کہا :
حدثنا محمد بن كثير نا سفيان عن منصور تو خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے کہا :
حدثنا محمد بن كثير العبدي أبو عبدالله البصري۔۔۔ قال ابن معين لم يكن بثقة و ذكره ابن حبان فى الثقات وقال أحمد بن حنبل : ثقه [بذل المجهودج ا ص 139 ح 55]

ابن معین کی جرح مردود ہے جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔
عمل صحابہ اور مخالفین آمین بالجہر کے پاس عدم دلیل کی رو سے یہ صحیح حدیث دوام پر دلیل ہے۔ والحمدلله
لعلاء بن صالح پر جرح بھی مردود ہے جمہور محدثین نے اسے ثقہ قرار دیا ہے لہذا اس کی حدیث حسن لذاتہ ہے۔

دوسری حدیث : ❀ امام ابن ماجہ القزوینی نے کہا :
حدثنا أسحاق بن منصور : أخبرنا عبدالصمد بن عبدالوارث : ثنا حماد بن سلمة : ثنا سهيل بن أبى صالح عن أبيه عن عائشه رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال بما حسدتكم اليهود على شيء، ماحسدتكم على السلام و التامين [سنن ابن ماجه ج ا ص 278ح 856]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یہود قوم (تمہارے آپس میں) سلام کرنے اور (امام کے پیچھے) آمین بولنے پر جس قدر حسد کرتی ہے اس قدر کسی اور چیز پر حسد نہیں کرتی۔“
? اسے منذری (متوفی 656ھ) اور بوصیری دونوں نے صحیح کہا ہے [الترغيب و الترهيب ج ا ص 368 وزوائد سنن ابن ماجه للبوصيري]

سند کا تعارف
➊ اسحاق بن منصور بن بہرام الکوسج ابویعقوب التمیمی المروزی نزیل نیسابور [تهذيب الكمال للمزي ج 2 ص 74، 75] صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی اور ثقه ثبت ہے [تقريب ص38]
➋ عبدالصمد بن عبدالوارث بن سعید العنبری، صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی اور صدوق ثبت فى شعبه تھا [تقريب 322] اس کے بارے میں عبدالباقی بن قانع (ضعیف) نے کہا : ثقه يخطئي [تهذيب التهذيب ج 6ص292] یہ جرح مردود ہے۔
➌ حماد بن سلمہ صحیح مسلم کا راوی ہے۔ جمہور محدثین نے اسے ثقه قرار دیا ہے۔ اس پر جرح مردود ہے۔ حماد بن سلمہ سے عبدالصمد کی روایت صحیح مسلم [كتاب الجهاد باب استحباب الدعاء عند لقاء العدوح 1743] میں موجود ہے لہذا ثابت ہوا کہ عبدالصمد کا حماد سے سماع قبل از اختلاط و تغیر ہے۔ دیکھیئے : [مقدمة ابن الصلاح مع شرح العراقي ص 366، النوع : 26 ] لہٰذا اختلاط و تغیر کا الزام بھی مردود ہے۔ خالد بن عبداللہ الطحان نے یہی حدیث سہیل سے بیان کر رکھی ہے۔ [صحيح ابن خزيمة ج ا ص 288ح574]
➍ سہیل بن ابی صالح، صحیح مسلم کا راوی صدوق تغير حفظه بأخره، روي له البخاري مقرونا و تعليقا ہے۔ [تقريب ص 215]
سہیل بن ابی صالح سے حماد بن سلمہ کی روایت صحیح مسلم [كتاب البروالصله، باب النهي عن قول : هلك الناس ح 2623] پر موجود ہے جو اس کی دلیل ہے کہ حماد کا سہیل سے سماع قبل از اختلاط ہے۔ لہذا سہیل پر تغير حفظه بأخره والی جرح یہاں مردود ہے۔
➎ ابوصالح ذکوان، صحیح بخاری و صحیح مسلم کا راوی اور ثقه ثبت ہے۔ [تقريب ص 151]
➏ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔
? ثابت ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہودی لوگ، مسلمانوں سے دو (اہم) باتوں پر حسد کرتے ہیں۔ (۱) ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا (۲) آمین کہنا۔
? یہ ظاہر ہے کہ وہ سلام اور آمین سنتے ہیں لہٰذا اسی وجہ سے حسد کرتے ہیں۔

تیسری حدیث : ❀ خطیب بغدادی نے تاریخ [11؍43] اور ضیاء المقدسی نے ”المختارۃ“ [5؍107ح17129، 1730] میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ (الفاظ خطیب کے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن اليهود ليحسد و نكم على السلام و التأمين ”بے شک یہود تم سے سلام اور آمین پر حسد کرتے ہیں۔“
? اس کے سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں اور اس کی سند صحیح ہے۔

ان روایات کی تایید میں عرض ہے کہ ایک روایت میں اس حسد کی وجہ مسلمانوں کا وقولهم خلف إمامهم فى المكتوبة : آمين ”امام کے پیچھے آمین کہنا ہے۔“ [الترغيب و الترهيب ج ا ص 328، 329 ”وقال : بإسناد حسن“ مجمع الزوائد ج 2ص113 ”وقال : اسناده حسن“]

اس طرح آمین بالجہر کی اور بھی بہت ساری روایات ہیں دیکھئے کتاب ”القول المتین فی الجہر بالتامین“ وغیرہ، ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ کا یہ دعویٰ بالکل صحیح ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آمین بالجہر کہنا متواتر احادیث کے ساتھ ثابت ہے۔“ مانعین کے پیش کردہ دلائل غیر صریح، مبہم، ضعیف اور بلاسند ہیں لہذا صحیح و متوتر احادیث کے مقابلے میں مردود و باطل ہیں۔

صحابہ کرام کا عمل

❀ عبدالرزاق نے اپنی کتاب ”المنصف“ میں کہا :
عن ابن جريج عن عطاء قال قلت له : أكان ابن الزبير يؤمن عليٰ إثرأم القرآن ؟ قال : نعم، و يؤمن من وراء ه حتي أن للمسجد للجة، ثم قال : إنما آمين دعاء، وكان أبو هريرة يدخل المسجد وقد قام الإمام قبله فيقول : لا تسبقني بآمين [ج2ص96، 97ح2640وعلقه البخاري فى صحيحه مع الفتح 2؍26قبل ح780، كتاب الأذان باب 111]
ابن جریج سے روایت ہے کہ میں نے عطاء (بن ابی رباح) سے پوچھا : کیا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : جی ہاں اور ان کے مقتدی بھی آمین کہتے تھے حتی کہ مسجد گھونج اٹھتی تھی۔ پھر فرمایا : آمین تو دعا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوتے اور امام (اقامت کے بعد) پہلے کھڑا ہو چکا ہوتا تو اسے کہتے : مجھ سے پہلے آمین نہ کہنا۔
? اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابن جریح نے عطاء بن ابی رباح سے قلت له کے ساتھ سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا تدلیس کا الزام باطل ہے۔ ابن جریح صحیح بخاری و صحیح مسلم کا بنیادی راوی ہے اس پر حبیب اللہ ڈیروی حیاتی دیوبندی کی جرح مردود ہے۔ اس پر تہمت متعہ ثابت نہیں اور اگر اسے ثابت مانا بھی جائے تو بھی دو وجہ سے مردو دہے۔

① ابن جریح سے اس مسئلہ میں رجوع مروی ہے۔ [فتح الباري ج 9 ص 173]
② عین ممکن ہے کہ ان تک متعہ کی حرمت والی احادیث نہ پہنچی ہوں۔ ظاہر ہے کہ عدم علم کی وجہ سے انسان غیر عقائدی امور میں معذور ہوتا ہے۔

? یہاں پر بطور تنبیہ عرض ہے کہ خود ڈیروی صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ :
”اس کی سند میں ابن جریج راوی واقع ہے جو کہ ثقہ ہے مگر سخت قسم کا مدلس ہے۔“ [نور الصباح ص 222 طبع دوم 1406 ه] ظاہر ہے کہ ثقہ کی روایت، عدم شذوذ اور عدم علت کی حالت میں صحیح ہوتی ہے۔

? اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ آمین ایسی دعاء ہے جسے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے مقتدی اونچی آواز کے ساتھ کہتے تھے، کسی صحابی سے عبداللہ بن الزبیر پر اس مسئلے میں رد و اختلاف مروی نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ آمین بالجہر پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔

? اس کے مقابلے میں کسی صحیح یا حسن حدیث سے جہری نمازوں میں آمين بالسر ثابت نہیں۔

رائے ونڈ میں اتوار کے دن دیوبندی مولوی لاؤڈ سپیکر پر جہری دعا پڑھتا ہے اور بے شمار لوگ اس کی جہری دعا پر آمین بالجہر کہتے ہیں۔ اسی طرح بریلوی و دیوبندی حضرات اور بھی بہت سی دعائیں جہرا پڑھتے ہیں لہذا ادعو اربكم تضرعا وخفية سے ان کا استدلال صحیح نہیں۔ دوسروں کو بھی وہی نصیحت کرنی چاہیئے جس پر آدمی خود کاربند ہو، ورنہ لم تقولون مالاتفعلون والا سوال ہو جاتا ہے جس کا جواب دینا پڑے گا۔

شعبہ سے مروی روایت وأخفيٰ بها صوته (اور آپ نے آمین کے ساتھ اپنی آواز خفیہ رکھی) شذوذ و علت کی وجہ سے مردود ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس کا صرف یہی مطلب ہے کہ ساری نمازوں میں آہستہ آمین کہنی چاہیئے۔

تنبیہ : اس روایت کے بارے فن حدیث کے ماہر جمہور محدثین کی تحقیقی ہی معتبر ہے۔

بشر بن رافع کی روایت، جو آمین بالجہر کے بارے میں مروی ہے وہ سخت ضعیف و مردود ہے۔ درج بالا روایات کی موجودگی میں ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کسی صحیح العقیدہ عالم نے اسے پیش کیا ہے تو ان صحیح روایات کی تایید میں ہی پیش کیا ہو گا۔ یا پھر اسے اس کی اجتہادی غلطی قرار دیا جائے گا۔ دیو بندی و بریلوی حضرات بھی اپنی کتابوں میں ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔ مثلا دیکھئے ”حدیث اور اہل حدیث“ اور ”جاءالحق“ وغیرھما۔ اس مسئلے میں ہماری تحقیق یہی ہے کہ صرف صحیح یا حسن حدیث سے ہی استدلال کرنا چایئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی صحیح محتمل الوجھین روایت کا مفہوم، معمولی ضعیف (جس کا ضعف شدید نہ ہو) سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ والله اعلم

 

یہ تحریر اب تک 37 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

This Post Has One Comment

  1. فرحان احمد

    حنفی دیوبندی مساجد میں اجتماعی دعا کا معمول ہے کیا ان کے اس عمل میں شرکت لیے سکتے ہیں یا ان دعاؤں کے جواب میں آمین کہنا درست برائے مہربانی اہل علم رہنمائی فرمائیں آپ کا دینی بھائی فرحان احمد جزاک اللہ خیر

Leave a Reply