تکبیرات عیدین میں رفع یدین کا ثبوت

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

امام اہل سنت، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی ۲۴۱ھ) فرماتے ہیں:
حدثنا يعقوب: حدثنا ابن أخي ابن شهاب عن عمه: حدثني سالم بن عبدالله أن عبدالله قال، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلوة يرفع يديه، حتي إذا كانتا حذومنكبيه كبّر، ثم إذا أرادأن يركع رفعهما حتي يكونا حذو منكبيه ، كبر و هما كذلك، ركع، ثم إذا أراد إن يرفع صلبه رفعهما حتي يكونا حذو منكبيه، ثم قال بسمع الله لمن حمده، ثم يسجد، ولا يرفع يديه فى السجود، و يرفعهما فى كل ركعة و تكبيرة كبّر ها قبل الركوع ، حتي تنقضي صلاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے ہاتھ آپ کے کندھوں کے برابر ہو جاتے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )تکبیر کہتے، پھر جب آپ رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر ہوتے۔ آپ تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ اسی طرح ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے، پھر جب آپ اپنی پیٹھ اُٹھانے کا ارادہ کرتے تو رفع یدین کرتے حتی کہ آپ کے ہاتھ کندھوں کے برابر ہوتے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے: سمع اللہ لمن حمدہ پھر آپ سجدہ کرتے اور سجدوں میں رفع یدین نہ کرتے۔ آپ ہر رکعت میں رکووع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہو جاتی۔
[مسند احمد ج ۲ص۱۳۳ ، ۱۳۴ح۶۱۷۵ و الموسوعة الحديثيه ج ۱۰ ص ۳۱۵]
سند کی بحث
یہ سند حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ ہے۔
شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
هذا سند صحيح على شرط الشيخين
اور یہ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے
[ارواء الغليل ج ۳ص۱۱۳ح ۶۴۰]
اسے امام عبداللہ بن علی بن الجارود النیسا بوری رحمہ اللہ (متوفی ۳۰۷ھ) نے اپنی کتاب ”المتنقیٰ“ میں یعقوب بن ابراہیم بن سعد کی سند سے روایت کیا ہے ۔ [ح۱۷۸]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (متوفی ۷۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ:
كتاب المنتقي فى السنن مجلد و احد فى الأحكام، لا ينزل فيه عن رتبة الحسن أبداً إلا فى لنا در فى أحاديث يختلف فيها اجتهاد النقاد
کتاب المنتقیٰ فی السنن، احکام میں ایک مجلد ہے ، اس کی حدیثیں حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتیں ، سوائے نادر احادیث کے جن میں ناقدین کی کوشش میں اختلاف ہوتا ہے۔
[سير اعلام النبلاء ج ۱۴ص ۲۳۹]
اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
وأورد هذا الحديث ابن الجارود فى المنتقي فهو صحيح عنده فإنه لا يأتى إلا بالصحيح كما صرح به السيوطي فى ديباجة جمع الجوامع
(ترجمہ ازناقل: ابن الجارود نے یہ حدیث منتقی میں درج کی ہے۔ پس یہ ان کے نزدیک صحیح ہے کیونکہ وہ صرف روایتیں ہی لاتے ہیں جیسا کہ سیوطی نے جمع الجوامع کے دیباچہ میں لکھا ہے۔ )
دیکھئے: [بوادرالنوادر ص۱۳۵]
یعقوب بن ابراہیم کی سند سے یہی روایت امام دارقطنی (متوفی ۳۸۵ ھ) نے بیان کی ہے۔ [سنن الدار قطني ۱؍۲۸۹ح۱۱۰۴]

اب اس حدیث کے راویوں کی توثیق پیش خدمت ہے۔
➊ یعقوب بن ابراہیم بن سعد
ثقة فاضل ؍من رجال الستة [تقريب التهذيب: ۷۸۱۱]
➋ محمد بن عبداللہ بن مسلم، ابن اخی الزھری
صدوق حسن الحديث، وثقه الجمهور ؍من رجال الستة.
ابن اخی الزھری کے بارے میں جرح و تعدیل کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔

جارحین اور ان کی جرح:
ابن اخی الزھری پر درج ذیل محدثین کی جرح منقول ہے۔
➊ یحیی بن معین
ضعيف
➋ ابو ھاتم الرازی
ليس بقوي يكتب حديثه
➌ العقیلی
ذكره فى الضعفاء
➍ ابن حبان
ردئي الحفظ ، كثير الوهم، يخطئ عن عمه فى الروايات إلخ
➎ الدارقطنی
ضعيف
➏ النسائي
ليس بذلك القوي، عنده غير ماحديث منكر عن الزهري؟
ملخصاً من تہذیب التہذیب [دارالفكر۹؍۲۴۸ ، ۲۴۹] وغیرہ۔

ابن اخی الزھری کی توثیق درج ذیل محدثین سے منقول ہے۔
➊ ابن عدي
ولم أربحديثه بأ ساً إذا روي عنه ثقة [الكامل۷/۳۶۳]
➋ البخاری
احتج به فى صحيحه
➌ مسلم
احتج به فى صحيحه [صحيح مسلم: ۱۴۴۹وترقيم دارالسلام۳۵۸۹]
➍ الساجی
صدوق، تفرد عن عمه بأ حاديث لم يتابع عليها [تهذيب: ۹/۲۴۹]
➎ الذھبی
صدوق صالح الحديث وقد انفرد عن عمه بثلاثة أحاديث [ميزان: ۷۷۴۳]
➏ ابن حجر
صدوق له أوهام [تقريب: ۶۰۴۹]
➐ الترمذی
صحح له [الترمذي: ۱۱۸۸]
➑ البوصیری
صحح له [زوائد ابن ماجه: ۱۳۹۷]
➒ ابن الجارود
روي له فى المنتقي [المنتقي: ۱۷۸]
➓ ابو نعیم الاصبہانی
روي له فى صحيحه/المستخرج [المستخرج: ۳/۱۲۰ح۲۳۵۶]
⓫ ابو عوانہ
روي له فى صحيحه [المستخرج: ۲/۳۳۱]
⓬ الضیاء المقدسی
روي له فى المختارة [المختاره: ۶/۲۴۲ح۲۲۵۸]
⓭ البغوی
صحح له [شرح السنة: ۱۱/۸۸ح۲۷۱۵]
۔: ابو داود
ثقة (اس کا راوی ابو عبید الآجری مجہول ہے)
۔: احمد بن حنبل
يثني عليه (اس کا راوی ابو عبید الآجری مجہول ہے)
۔: یحییٰ بن معین
يثني عليه (اس کا راوی ابو عبید الآجری مجہول ہے)
ملخصاً من [تهذيب التهذيب ۹؍۲۷۹ ، ۲۸۰] وغیرہ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک ابن اخی الزھری ثقہ وصدوق، صحیح الحدیث و حسن الحدیث ہے۔ یاد رہے کہ ثقہ و صدوق راوی کی جن روایات میں وہم و خطاء بذریعہ محدثین ثابت ہو جائے تو وہ روایتیں مستثنیٰ ہو کر ضعیف ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ابن اخی الزھری کی فانتهي الناس عن القرأه معه والی روایت کی سند میں غلطی اور وہم ہے۔
دیکھئے: [مسند احمد ۵/۳۴۵ح۲۲۹۲۲ الموسوعة الحديثيه مع التخريج و كتاب القرأت للبيهقي ۳۲۵ ، ۳۲۶]

فائدہ:
ابن اخي الزهري كي عن الزهري عن سالم عن ابيه والی سند صحیح بخاری (۵۵۷۴) و صحیح مسلم (۴/۱۴۷۱) میں موجود ہے۔

تنبیہ:
ہر تکبیر کےساتھ رفع یدین والی روایت مذکور میں ابن اخی الزھری کی متابعت محمد بن الولید الزبیدی نے کر رکھی ہے۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
➌ محمد بن مللم الزھری
متفق على جلالته و اتقانه/من رجال الستة [التقريب: ۶۲۹۶]
امام زہری نے سماع کی تصریح کر دی ہے لہذا اس روایت میں تدلیس کا الزام مردود ہے۔
➍ سالم بن عبداللہ بن عمر
أحد الفقهاء السبعة و كان ثبتاً عابد اًفا ضلاً من رجال الستة [التقريب: ۲۱۷۶]
➎ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
صحابي مشهور/من رجال الستة [التقريب: ۳۴۹۰]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت ابن اخی الزھری کی وجہ سے حسن لذاتہ (یعنی حجت و مقبول ) ہے۔

ابن اخی الزھری کی متابعت
ابن اخی الزھری رحمہ اللہ رفع یدین والی اس روایت میں تنہا راوی نہیں ہیں بلکہ (محمد بن الولید) الزبیدی ( ثقة ثبت من كبار أصحاب الزهري/من رجال البخاري و مسلم و أبى داودو النسائي وابن ماجه/التقريب: ۲۳۷۶ ) نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے لہٰذا ابن اخی الزھری پر اس روایت میں اعتراض سرے سے فضول ہے والحمد لله.

الزبیدی کی متابعت والی روایت سنن ابی داود (۷۲۲) سنن الدار قطنی (ص/۲۸۸ح۱۰۹۸) و السنن الکبری للبیھقی (۳/۲۹۲ ، ۲۹۳) میں موجود ہے۔
الزبیدی سے روایت بقیہ بن الولید نے بیان کی ہے اور بقیہ سے ایک جماعتنے اسے روایت کیا ہے۔
ابن الترکمانی نے مخالفت برائے مخالفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بقیہ بن ولید پر ابن حبان ، ابو مسہر اور سفیان بن عیینہ کی جرح نقل کی ہے۔
[الجوهر النقي۳/۲۹۲ ، ۲۹۳]
جس کا جواب کچھ تفصیل سے عرض ہے۔ ۔ بقیہ بن الولید الحمصی رحمہ اللہ ( التحقيقات النقية فى توثيق بقية )
اس مضمون میں راوی حدیث بقیۃ بن الولید رحمہ اللہ کے بارے میں محدثین کرام کی جرح و تعدیل کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
بقیہ کے بارے میں مروی جرح درج ذیل ہے۔
➊ سفیان بن عیینہ
لا تسمعو امن بقية. . . إلخ
➋ العقیلی
ذكره فى الضعفاء
➌ ابو حاتم الرازی
لايحتج به
➍ ابو مسہر الغسانی
بقية، أحاديثه ليست نقية فكن منها على تقية
➎ ابن خزیمہ
لا أحتج بقية
➏ الجوز جانی
و بقية ضعيف الحديث، لايحتج بحديثه
➐ عبدالحق الاشبیلی
لا يحتج به
➑ ابن القطان الفاسی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
➒ الذہبی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
➓ ابن حزم
ضعيف
⓫ البیہقی
أجمعوا على أن بقية ليس بحجة
۔: الساجی
فيه اختلاف
۔: الخلیلی
اختلفوا فيه
ملخصاً من [تهذيب التهذيب ۱/۴۷۴ ۔ ۴۷۸] وغیرہ
الساجی اور الخلیلی کا کلام تو جرح ہی نہیں ہے۔
بعض دوسرے علماء سے بھی بقیہ کی مُدلَّس (عن والی) روایات اور مجہولین و ضعفاء سے روایات پر جرح منقول ہے، اس جرح کا کوئی تعلق بقیہ کی عدالت اور ضبط (حافظے ) سے نہیں ہے۔

بقیہ کی توثیق درج ذیل ہے۔
➊ ابو اسحاق الفزاری
خذوا عن بقية ماحدثكم عن الثقات [الترمذي: ۲۸۵۹]
➋ عبداللہ بن مبارک
صدوق اللسان [صحيح مسلم: ۴۳دارالسلام]
➌ ابوزرعہ الرازی
وأذا حدث عن الثقات فهو ثقة [الجرح و التعديل: ۲ ؍۴۳۵]
➍ یحییٰ بن معین
ثقة [تاريخ عثمان الدارمي: ۱۹۰]
➎ العجلی
ثقة ماروي عن المعروفين [تاريخ العجلي: ۱۶۰]
➏ مسلم
أخرج له فى صحيحه [صحيح مسلم: ۱۰۱ ؍۱۴۲۹فواد عبدالباقي]
➐ یعقوب بن شیبہ
[تاريخ بغداد: ۷؍۱۲۶]
➑ الخطیب البغدادی
وكان صدوقاً [تاريخ بغداد: ۷ ؍۱۲۳]
➒ محمد بن سعد
وكان ثقة فى روايتة عن الثقات [الطبقات: ۷ ؍۴۶۹]
➓ الترمذی
صحح له فى سننه [الترمذي: ۱۲۳۵ ، ۱۶۶۳]
⓫ ابن عدی
إذا روي عن الشامين فهو ثبت [الكامل: ۲ ؍۲۷۶]
⓬ ابن شاہین
ذكره فى الثقات [الثقات: ۱۳۹]
⓭ احمد بن حنبل
وإذا حدث بقية عن المعروفين مثل بحيربن سعد قبل [الضعفاء للعقيلي: ۱ ؍۱۶۲]
⓮ ابن حبان
فرأيته ثقة مأموناً ولكنه كان مدلساً [المجروحين: ۱ ؍۲۰۰]
⓯ ابن حجر
صدوق كثير التدليس عن الضعفاء [التقريب: ۷۳۴]
⓰ الھیثمی
وهو ثقة مدلس [مجمع الزوائد: ۱ ؍۱۹۰]
⓱ العراقی
قال فى حديث و إسناده جيد [تخريج الاحياء: ۲؍۱۵۴، الصحيحه: ۱۶۹۱]
⓲ المنذری
وثقة [الترغيب و الترهيب: ۳ ؍۲۵و الصحيحه: ۳۵۳]
⓳ الحاکم
مامون مقبول [المستدرك ۱؍۲۷۳ح۱۰۰۸نيز ديكهئے ۱؍۲۸۹ح۱۰۶۴]
۲۰: الذھبی
وقال فى حديثه: على شرط مسلم [تلخيص المستدرك: ۲ ؍۶۱۶]
۲۱: البخاری
استشهد به فى صحيحه [صحيح بخاري: ۷۰۷]
۲۲: ابو احمد الحاکم
ثقة فى حديثه إذا حدث عن الثقات بما يعرف [تهذيب: ۱ ؍۴۷۷مصححاً]
۲۳: شعبہ
روي عنه [شعبة لايروي إلا عن ثقه عنده: تهذيب ۱؍۴ ، ۵]
۲۴: ابن خلفون
ذكره فى الثقات [حاشيه تهذيب الكمال: ۱ ؍۳۶۹]
۲۵: الزیلعی
وكان صدوقاً [نصب الرايه: ۱ ؍۴۸]
۲۶: الدار قطنی
ثقة [كتاب الضعفاء و المتروكين: ۲۳۰]
۲۷: الجوز جانی
فإذا أخذت حديثه عن الثقات فهو ثقة [احوال الرجا: ۳۱۲]
۲۸: یعقوب بن سفیان
فهو ثقة إلخ [المعرفة و التاريخ ۲؍۴۶۴و تاريخ دمشق: ۱۰؍۲۷۰]
۔: علی بن المدینی
صالح فيما روي عن أهل الشام [تاريخ بغداد۷؍۱۲۵و سنده ضعيف]
۔: النسائی
إذا قال حدثنا و أخبر نا فهو ثقة [تهذيب التهذيب: ۱؍۴۷۵ و سنده ضعيف]
۔: بن الترکمانی!!
هو صدوق و قد صرح بالتحديث [الجوهر النقي: ۱ ؍۱۴۷]
نیز دیکھئے: [توضيح الكلام ۱؍۳۱۷ ۔ ۳۲۱]
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک بقیہ بن الولید ثقہ و صدوق ہے۔ جب وہ ثقہ راویوں سے سماع کی تصریح کے ساتھ روایت بیان کرے تو اس کی روایت صحیح یا حسن ہوتی ہے۔
حافظ المنذری فرماتے ہیں۔
ثقة عند الجمهور لكنه مدلس
”وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہے لیکن مدلس ہے۔“ [الترغيب و الترهيب ج ۴ص ۵۶۸]
حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ:
وثقه الجمهور فيما سمعه من الثقات
”جمہور نے اسے ان روایات میں ثقہ قرار دیا ہے جو اس نے ثقہ راویوں سے سنی ہیں۔ “ [الكاشف: ۱ ؍۱۰۶ ، ۱۰۷، ت ۶۲۶]

جن علماء نے بقیہ پر جرح کی ہے وہ صرف اور صرف دوہی باتوں پر مبنی ہے ۔
تدليس
(یعنی بقیہ کی عن والی اور غیر مصرح بالسماع روایات ضعیف ہیں۔ )
مجهولين و ضعفاء
سے روایت (یعنی بقیہ کی وہ تمام روایتیں ضعیف و مردود ہیں جو اس نے مجہول اور ضعیف راویوں سے بیان کی ہیں۔ )
میرے علم کے مطابق کسی جلیل القدر امام نے بقیہ کی مصرع بالسماع روایت پر کوئی جرح نہیں کی، بقیہ پر تمام جروح کا تعلق اس کی غیر مصرح بالسماع یا اہل حمص وغیرہ کی اوہام والی روایتوں اور ضعیف و مجہول راویوں کی روایات پر ہے۔

خلاصۃ التحقیق:
بقیہ بن الولید صدوق مدلس ، صحیح الحدیث یا حسن الحدیث راوی ہے بشرطیکہ سماع کی تصریح کرے۔

تنبیہ۱:
بقیہ اگر بحیر بن سعد سے روایت کرے تو یہ روایت سماع پر محمول ہوتی ہے چاہے بقیہ سماع کی تصریح کرے یا نہ کرے۔
دیکھئے: [تعليقة على العلل لا بن ابي حاتم؍تصنيف ابن عبدالهادي ص۱۲۴ح۳۵؍۱۲۳]

تنبیہ۲:
بقیہ کی محمد بن الولی الزبیدی سے روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔ [ ۱۰۱؍۱۴۲۹]

تنبیہ۳:
امام ابو احمد الحاکم (صاحب الکنیٰ) بقیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
ثقة فى حديثة إذا حدث عن الثقات بما يعرف لكنه ربماروي عن أقوام مثل الأوزاعي و الزبيدي و عبيد الله العمري أحاديث شبيهة بالموضوعة أخذها عن محمد بن عبدالرحمن و يوسف بن السفر و غير هما من الضعفاء و يسقطهم من الوسط و يرويها عن من حدثوه بها عنهم
جب وہ ثقہ راویوں سے معروف (یعنی مصرح بالسماع) روایتیں بیان کرے تو ثقہ ہے کیونکہ بعض اوقات وہ لوگوں مثلاً اوزاعی، زبیدی اور عبید اللہ العمری سے موضوعات کے مشابہ وہ احادیث بیان کرتا ہے جو اس نے محمد بن عبدالرحمن اور یوسف بن السفر و غیر ھما ضعیف راویوں سے حاصل کی تھیں۔ وہ انہیں درمیان سے گرا کر ان سے حدیثیں بیان کرتا ہے۔ جن سے انہوں نے اسے احادیث سنائی تھیں۔
[تهذيب التهزيب ج۱ص۴۷۷]
اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ بقیہ مدلس راوی ہے لہذا اگر وہ سماع کی تصریح کر کے ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرے تو اس میں وہ ثقہ ہے اور اگر اوزاعی، زبیدی اور عبید اللہ بن عمر العمری سے بغیر تصریح سماع کے ، تدلیس کرتے ہوئے عن والی روایات بیان کرے تو یہ روایتیں ضعیف ، مردود اور موضوع ہوتی ہیں۔ اس جرح کا تعلق صرف تدلیس سے ہے جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے۔ بعض الناس نے پندرہویں صدی ہجری میں اس جرح کو مطلق قرار دینے کی کوشش کی ہے جس کا باطل ہونا واضح ہے۔

تنبیہ۴:
بقیہ تدلیس التسویہ کے الزام سے بری ہے۔ بقیہ سے تدلیس التسویہ کرنا ثابت نہیں ہے ۔
دیکھئے: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ۱۱۷؍۴ والضعيفة للشيخ الألباني رحمه الله ۱۲؍۱۰۵ ۔ ۱۱۲ح ۵۵۵۷ و عجالة الراغب المتمني للشيخ سليم الهلالي ۲؍۸۷۶ح۷۶۳]
جدید محققین مثلاً شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے بقیہ کی مصرح بالسماع والی روایتوں کو حسن قرار دیا ہے۔ جناب عبدالرؤف بن عبدالمنان بن حکیم محمد اشرف سندھو صاحب ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس کی سند بقیہ بن الولید کی وجہ سے حسن درجے کی ہے۔ حاکم، ذہبی اور بوصیری نے مصباح الزجاجہ (۴۶۶) میں اس کو صحیح کہا ہے۔
[القول المقبول ص۶۲۰ح ۵۶۸]
نیز دیکھئے: [القول المقبول ص۱۹۴ح ۱۰۸]
اگر کوئی کہے کہ محدث عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”مگر یہ حدیث بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ واقع ہیں اور یہ مدلس و ضعیف ہیں اور باوجود ضعیف ہونے کے اس جملہ کے ساتھ یہ متفرد ہیں ان کے سوا کوئی اور اس جملہ کو روایت نہیں کرتا ہے۔ ۔ ۔ “
[القول السديد فيما يتعلق بتكبيرات العيدص۷۱]
تو عرض ہے کہ یہ کلام تین وجہ سے مردود ہے۔
اول:
یہ جمہور محدثین کی تحقیق کے خلاف ہے۔

دوم:
خود محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے بقیہ کا ذکر کیا ہے یا سنن الترمذی میں بقیہ کا ذکر آیا ہے مگر انہوں نے بذات خود اس پر کوئی جرح نہیں کی۔
دیکھئے: [تخفة الاحوذي ج۱ص۹۷ح۹۴، ج۳ص۵ح۱۶۳۵ ، ۳؍۱۷ح ۱۶۶۳ ، ۳؍۳۷۷، ۳۷۸ح۲۶۷۶، ۴؍۳۶ح۲۸۵۹، ۴؍۵۶ح۲۹۲۱]
لہذا معلوم ہوا کہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی جرح ان کی کتاب تحفۃ الاحوذی کی رُو سے منسوخ ہے۔

سوم:
مبارکپوری رحمہ اللہ کا قول”اس جملے کے ساتھ یہ متفرد ہیں“ قطعاً غلط ہے کیونکہ ابن اخی الزھری نے بھی یہی جملہ بیان کر رکھا ہے۔
پاکستان کے مشہور محقق اور اہل حدیث کے نامور عالم مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بقیہ بن الولید کا زبردست دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”یہ اس بات کا قوی چبوت ہے کہ جمہور کے نزدیک و ثقہ ہے جب سماع کی صراحت کرے تو قابل حجت ہے۔ بالخصوص جب کہ شامی شیوخ سے روایت کرے۔ “ [توضيح الكلام ج ۱ص۳۱۹باب: بقيه بن الوليد پر جرح كا جواب]

تنبیہ ۵:
اگر کوئی یہ کہے کہ امام زھری کے دوسرے شاگرد یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بیان نہیں کرتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ الزبیدی (ثقۃ) اور ابن اخی الزھری (صدوق) کا یہ روایت بیان کرنا حجت ہونے کے لئے کافی ہے۔ اگر ایک ثقہ و صدوق راوی ایک روایت سند و متن میں زیادت کے ساتھ بیان کرے، جبکہ دوسرے بہت سے ثقہ و صدوق راوی یہ زیادت بیان نہ کریں تو اسی زیادت کا اعتبار ہوتا ہے۔ ( و الزيادة من الثقة مقبولة )
مثال۱:
كفي بالمرء كذباً أن يحدث بكل ماسمع
والی حدیث کو (صرف) علی بن حفص المدائنی نے موصولاً بیان کیا ہے
[صحيح مسلم: ۵ ؍۵ و ترقيم دارالسلام: ۸، سنن ابي داود: ۴۹۹۲، تعليقات الدار قطني على المجروحين لابن حبان ص۴۱و المعلق عليه جاهل]
یاد رہے کہ صحیح مسلم کے ایک نسخے کی سند میں تصحیف ہو گئی ہے جس کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ کو بڑا وہم لگا ہے۔
دیکھئے: [الصحيح ۲۰۲۵ و صحيح مسلم طبعه هنديه ج۱ص۸ ، ۹]

مثال۲:
صحیح بخاری میں محمد بن عمرو بن حلحلہ عن محمد بن عمرو بن عطاء عن ابی حیمد الساعدی رضی اللہ عنہ والی روایت میں صرف ایک رفع یدین کا زکر ہے [البخاري: ۸۲۸]
جبکہ سنن ابی داود (۷۳۰) وغیرہ میں عبدالحمید بن جعفر عن محمد بن عمر و بن عطاء عن ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ والی روایت میں رکوع سے پہلے ، رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر اُٹھتے وقت (کل چار مقامات پر رفع یدین کا ثبقت ہے۔ یہ دونوں روایتیں صحیح ہیں لہذا معلوم ہوا کہ ثقہ کی زیادت معتبر و مقبول ہے۔ بشرطیکہ ثقہ راویوں یا اوثق کے من کل الوجوہ سراسر خلاف نہ ہو۔

متن کی بحث
ابن الترکمانی و بعض الناس نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس روایت میں عیدین کا طریقہ مذکور نہیں ہے بلکہ عام نماز کی طرح ہے۔
عرض ہے کہ اس روایت میں درج ذیل مقامات پر رفع یدین کی صراحت موجود ہے۔
➊ تکبیر تحریمہ
➋ رکوع سے پہلے
➌ رکوع کے بعد
➍ ہر رکعت میں
➎ رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں (دیکھئے یہی مضمون، شروع)

حدیث صحیح الفاظ دوبارہ پیش خدمت ہیں:
وير فعهما فى كل ركعة و تكبيرة كبّرها قبل الركوع حتي تنقضي صلاته
ترجمہ: ”اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہر رکعت میں اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نما زپوری ہو جاتی۔“
[مسند احمد: ۲ ؍۱۳۴]
اب سوال یہ ہے کہ عیدین کی تکبیرات رکوع سے پہلے ہوتی ہیں یا رکوع کے بعد ہوتی ہیں؟ اگر پہلے ہوتی ہیں تو ضرور بالضرور اس حدیث کے عموم میں شامل ہیں۔
امام بیہقی نے بقیہ بن الولید کی حدیث کو تکبیرات عید اور باب السنة فى رفع اليدين كلما كبر للركوع دونوں جگہ ذکر کیا ہے۔
[السنن الكبري: ۳؍۲۹۲ ، ۲؍۸۳]
معلوم ہوا کہ امام بیہقی کے نزدیک اس حدیث سے رفع یدین عند الرکوع اور رفع یدین فی العیدین دونوں جگہوں پر ثابت ہے۔ والحمد للہ

ایک اہم بات
ہم بحمد اللہ اہل حدیث یعنی سلفی اہل حدیث ہیں۔ قرآن و حدیث و اجماع کو حجت سمجھتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا وہی مفہوم معتبر سمجھتے ہیں جو سلف صالحین سے ثابت ہے۔ آثار سلف صالحین سے استدلال اور اجتہاد کو جائز سمجھتے ہیں۔ حدیث مذکور سے درج ذیل سلف صالحین نے تکبیرات عیدین پر استدلال کیا ہے۔
➊ امام بیہقی رحمہ اللہ
[السنن الكبري: ۳ ؍۲۹۲ ، ۲۹۳ باب رفع اليدين فى تكبير العيد]
➋ الامام محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسا بوری
[التلخيص الحبير: ۲ ؍۸۶ح ۶۹۲]
سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس استدلال کا رد نہیں کیا لہذا محدث مبارکپوری اور محدث البانی رحمہما اللہ کا نظریہ، سلف صالحین کے استدلال کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
مولوی محمد افضل اثری (صاحب مکتبۃ السنۃ کراچی) لکھتے ہیں کہ:
”جیسا کہ امام بیہقی اور امام (ابن ) منذر کا استدلال ذکر کرنے کے بعد شیخ الاسلام ابن حجر العسقلانی“ [تلخيص الحبير145بحواله المرعاة341/2]
لکھتے ہیں:
و الأ ولي عندي ترك الرفع لعدم ورود نص صريح فى ذلك، ولعدم ثبوته صريحاً بحديث مرفوع صحيح.
”یعنی میرے نزدیک اولی یہ ہے کہ رفع یدین درز وائد تکبیرات نہ کیا جائے کیونکہ اس سلسلہ میں صریح قسم کی نص وارد نہیں ہے اور نہ ہی صراحتاً مرفوع صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے۔“
یہی بات علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہم اللہ تعالیٰ، علامہ البانی حفظہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی صریح حدیث ثابت ووارد نہیں ہے۔
[ ضميمة هدية المسلمين ص۹۷طبعه غير شرعيه]
اس بیان میں محمد افضل اثری صاحب نے غلط بیانی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی سے وہ قول منسوب کر دیا ہے جس سے حافظ ابن حجر بالکل بری ہیں۔
دیکھئے : [التلخيص الحبير ج۲ ص ۸۶ح۶۹۲]
اس صریح غلط بیانی کا دوسرا کذاب و افتراء ہے۔ صاحب مرعاۃ المفاتیح (الشیخ عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ) کے قول کو حافظ ابن حجر کا قول بنا دینا اگر کذب و افتراء نہیں تو پھر کیا ہے؟
یاد رہے کہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا عبید اللہ مبارکپوری اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے اقوال و ”تحقیقات“ در تکبیراتِ عیدین، امام عطاء بن ابی رباح، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ سلف صالحین کے مقابلے میں اور مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

خلاصۃ التحقیق:
اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن اخی الزھری اور بقیہ والی روایت صحیح ہے اور اس سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین پر استدلال بالکل صحیح ہے۔ والحمد لله

سلف صالحین کے آثار
اب تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مشروعیت پر سلف صالحین کے آثار پیش خدمت ہیں۔
➊ امام عبدالرحمن بن عمر و الاوزاعی الشامی رحمہ اللہ
ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
قلت للأّ وزاعي: فأرفع يدي كرفعي فى تكبيرة الصلوة؟ قال: نعم، ارفع يديك مع كلهن
میں نے اوزاعی سے کہا: کیا میں (عید میں) رفع یدین کروں ، جیسے میں نماز میں رفع یدین کرتا ہوں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں تمام تکبیروں کے ساتھ رفع یدین کرو۔
[احكام العيدين للفريابي: ۱۳۶و إسناده صحيح]
➋ امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ
ولید بن مسلم سے روایت ہے کہ:
سألت مالك بن أنس عن ذلك فقال: نعم، ارفع يديك مع كل تكبيرة ولم أسمع فيه شيئاً
”میں نے مالک بن انس سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں ، ہر تکبیر کےس اتھ رفع یدین کرو، اور میں نے اس میں کچھ بھی نہیں سنا۔“
[احكام العيدين: ۱۳۷، و إسناده صحيح]
تنبیہ:
امام مالک کا ولم أسمع فيه شيئاً دو باتوں پر ہی محمول ہے۔
اول:
میں نے اس عمل کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی۔
دوم:
میں نے اس عمل کے مخالف کوئی حدیث نہیں سنی۔
اول الذکر کے بارے میں عرض ہے کہ اگر امام مالک نے بقیہ بن الولید اور ابن اخی الزھری کی حدیث اور عطاء بن ابی رباح تابعی کا اثر نہیں سنا تو یہ بات ان دلائل کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

تنبیہ: ۲:
مجموع شرح المہزب للنووی (۵؍۲۶)الاوسط لابن المنذر (۴؍۲۸۲) اور غیر مستند کتاب المدونہ (۱؍۱۶۹)وغیرہ میں اس اثر کے خلاف جو کچھ مروی ہے وہ بے سند و بے اصل ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

➌ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ
دیکھئے : [كتاب الام ج۱ص۲۳۷]

➍ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
دیکھئے : [مسائل الامام احمد، رواية ابي داود ص۶۰]
➎ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ
دیکھئے : [تاريخ ابن معين رواية الدوري: ۲۲۸۴]
معلوم ہوا کہ مکہ، مدینہ اور شام وغیرہ میں سلف صالحین تکبیرات عیدین میں رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔ ان کے مقابلے میں محمد بن الحسن الشیبانی (کذاب؍کتاب الضعفاء للعقیلی: ۴ ؍۵۲و سندہ صحیح، الحدیث حضرو: ۷ص۱۷) سے تکبیرات عیدین میں رفع یدین کی مخالفت مروی ہے، دیکھئے کتاب الاصل (۱؍۳۷۴ ، ۳۷۵)والا وسط لابن المنذر (۴؍۲۸۲)
سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ وہ تکبیرات مذکورہ میں رفع یدین کے قائل نہیں تھے۔
[ مجموع: ۵؍۲۶والا وسط: ۴؍۲۸۲]
یہ قول بلاسند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
بعض حنفیوں نے بغیر کسی سند متصل کے ابو یوسف قاضی سے تکبیراتِ عیدین میں رفع یدین نہ کرنا نقل کیا ہے۔
یہ نقل دو وجہ سے مردود ہے۔
➊ بے سند ہے۔
➋ قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم کے بارے میں امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ:
ألا تعجبون من يعقوب، يقول على مالا أقول
کیا تم لوگ یعقوب (ابو یوسف) پر تعجب نہیں کرتے، وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔ ( التاريخ الصغير للبخاري ج ۲ص ۲۱۰و فيات: عشر إلى تسعين و مائته ؍ و إسناده حسن وله شواهدفالخبر صحيح [انظر تحفة الاقوياء فى تحقيق كتاب الضعفاء ص ۱۲۲ت ۴۲۵]
معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف کو کذاب سمجھتے تھے۔
تنبیہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح المکی رحمہ اللہ زوائد تکبیراتِ عید میں رفع یدین کے قائل تھے۔
[مصنف عبدالرزاق۳؍۲۹۷ح۵۶۹۹]
اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرزاق بن ھمامدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔ سفیان ثوری مدلس نے عبدالرزاق کی متابعت کر رکھی ہے۔ [ديكهئے السنن الكبري للبيهقي ۳؍۲۹۳]
یہ روایت ان دونوں سندوں کےساتھ ضعیف ہے۔

اختتام بحث:
تکبیرات عیدین میں رفع یدین کرنا بالکل صحیح عمل ہے۔ محدث مبارکپوری ، شیخ البانی رحمہما اللہ اور بعض الناس کا اس عمل کی مخالفت کرنا غلط اور مردود ہے۔ وما علينا إلا البلاغ.

یہ تحریر اب تک 23 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply