“تلاشِ گمشدہ”

تحریر: ابنِ نور محمد

مجھے اپنے اس جگر گوشے، لعل اور زندگی کے سہارے کی تلاش ہے، جو میرے آنگن کا تارا تھا … مجھے دیکھ کر جس کا پھول جیسا چہرہ کھِل اٹھتا … مجھ سے چند دن کی جدائی کسی سانحہ سے کم نہ سمجھتا … میرے بغیر اس کاکھانا حلق سے نیچے نہ اترتا … اگر میں گھر میں نہ ہوتی تو گھر کو ویران چمن تصورکرتا…. جو میری تکلیف کو اپنا درد اور میرے الم کو اپنا غم جانتا …. میری خدمت کو عبادت گردانتا…. جو لفظ ”ماں“ میں اپنائیت، انسیت ، چاہت اور محبت محسوس کرتا … میری آغوش سے اس کی مضطرب روح کو تسکین اور بے قرار دل کو تمکین میسر آتی، اور اگر کبھی چھوٹو، مجھ سے سخت لہجے میں ہم کلام ہوتا تو وہ فوراً پکار اٹھتا کہ چھوٹو ! تمہیں نہیں پتا یہ ماں ہے ، بڑی مشکل سے آنسوؤں کو ضبط کرکے کہتا: ہاں ! یہ ماں ہے … ماں جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ قَضٰي رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَ بِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا يَبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡهَرۡهُمَا وَ قُلۡ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا﴾ ﴿۲۳﴾
”اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کردیا کہ اس کے سوا تم کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں ہی بڑھاپے کو پہنچیں تو ان سے اُف تک بھی نہ کہہ او رنہ تو انہیں جھڑک اور ان دونوں کے لئے نرم (لہجے میں) بات کر ۔“ [بني اسرائيل: ۲۳]
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿ وَ وَصَّيۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَيۡهِ حُسۡنًا ؕ ﴾
”اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ہے ۔“ [ العنكبوت: ۸]
نیز فرمایا:
﴿ و وصينا الانسان بوالدیه ۚ حملته امه وهنا علٰي وهن……﴾
” اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کے باوجود اسے اٹھائے رکھا ۔“ [لقمان: ۱۴]
جس طرح قرآنِ مجید میں والدین کے ساتھ ”حسنِ سلوک“ کی تاکید فرمائی گئی ہے ، اسی طرح احادیثِ نبوی ﷺ میں بھی والدین کی خدمت و محبت کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کون سا عمل زیادہ محبو ب ہے؟ آپ نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، میں نے پوچھا: پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہا دکرنا۔
[صحيح بخاري: ۵۲۷، صحيح مسلم: ۸۵ ۲۵۲]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اور) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں میرے حسنِ سلوک کا زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پوچھا: پھرکون؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں، اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ۔
[صحيح بخاري: ۵۹۷۱، صحيح مسلم: ۲۵۴۸ ۶۵۰۰]
مجھے اپنے اس معصوم بیٹے کی تلاش ہے جو ایک دن” درسِ حدیث “سن کر آیا تو گھنٹوں روتا رہا… میں بار بار پوچھتی لیکن… وہ تھا کہ روتا ہی جا رہا تھا ، بالآخر کچھ نارمل ہونے کے بعد کہنے لگا: ماں آج ہمارے معلم صاحب نے دو احادیث سنائی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو کہ جس شخص نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا ، ان میں سے ایک کو یا دونوں کو اور پھر وہ (ان کی خدمت کرکے ) جنت میں نہیں گیا ۔ [صحيح مسلم: ۲۵۵۱ ۶۵۱۰]
معلم صاحب نے یہ بھی کہا کہ جس طرح شر ک گناہ کبیرہ ہے، اسی طرح ماں باپ کی نافرمانی بھی بہت بڑا گناہے ۔ جیسا کہ حدیث ِ نبوی ہے ۔ [بخاري: ۲۶۵۴، مسلم: ۸۷]
ماں ! یہی بات مجھے رُلا رہی ہے کہ والدِ محترم تو پہلے ہی وفات پاچکے ہیں ۔ اب آپ ہی ہیں لیکن آپ کی خدمت بھی مجھ سے نہیں ہو پارہی۔
جی ہاں ! اس بیٹے کی جو اللہ کے حضور ہاتھ پھیلا کر ، آنکھوں سے آنسو بہا کر عرض کرتا:
﴿رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا﴾
”اے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ بچپن میں انہوں نے میری پرورش کی ۔“ [ بني اسرائيل: ۲۴]
﴿رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ….﴾
”اے ہمارے رب ! تو مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے ۔“ [ابراهيم: ۴۱]
میرا یہ لال حوادثاتِ زمانہ کا شکار ہوگیا، دنیا کی رنگینیوں میں کھو گیا ، اور میں آج تک اسے ڈھونڈتی پھر رہی ہوں، کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ میں … میں اپنے لاڈلے ، پیارے اور لختِ جگر سے کس قدر محبت کرتی ہوں؟ یہ سب کو معلوم ہے کہ اگر اس کائنات میں سب سے زیادہ اور سچی محبت کرنے والی ہستی ہے تو وہ ماں ہے … ماں کو اپنی اولاد بڑی محبوب ہوتی ہے ۔ !
ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کابیٹا پڑھے، لکھے ، بڑا آدمی بنے، معاشر ےمیں اس کی عزت ہو… یہی ارمان لئے میں نے اپنے بیٹے کی بہترین پرورش کرنی شروع کی… لیکن ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس کے والد ماجد وفات پا گئے ۔ وقت گزرتا رہا… اور مجھے اپنے راج دُلارے کے مستقبل (Future) کی فکر دامن گیر ہوئی…. کہیں ایسا نہ ہو کہ باپ کی شفقت سے محروم… کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائے… یہ سوچتے ہی میں لرز جاتی، رونگٹے کھڑے ہوجاتے… لہٰذا میں نے ہمت کر کے محنت مزدوری شروع کی ، راتوں کی نیند، دن کا سکون اپنے چاند سے بیٹے کے مستقبل کے لئے قربان کر دیا۔
زمانے کی خاک چھانی ، اپنے کمزور و ناتواں کندھوں پر اپنی بساط سے زیادہ بوجھ اٹھاتی، ہر طرح سے مشقت برداشت کرکے حلال روزی کماتی… صرف کس کے لئے … اپنے لخت جگر کے لئے … وگرنہ میرے لئے تو دو روٹیاں ہی کافی تھیں! بہرحال وقت گزرا … اور میرا پہلا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کہ میرا بیٹا اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوگیا یعنی اسے نوکری مل گئی… اب میں بے چینی سے اپنے دوسرے خواب کی تعبیر کے انتظار میں تھی… اور وہ تھا بیٹے کی شادی… میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ سوچ رکھا تھا … آخر وہ دن بھی آن پہنچا … اور میں بڑے شاندار طریقے سے اپنی بہو اور بیٹے کی دلہن کو بیاہ کر لے آئی … لوگ مبارکبادیں دے رہے تھے کہ تم نے شروع سے لے کر … آج تک بیٹے کو یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا …اور تم بہت خوش نصیب ہو وغیرہ وغیرہ … اور میں تھی کہ اندر ہی اندر خوشیوں کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔ لیکن یہ کیا؟ … تھوڑے ہی دنوں کے بعد … یہ اعلان سنائی دیا کہ ہم گاؤں میں نہیں رہ سکتے لہٰذا جہاں میں جاب (ملازمت) کرتا ہوں وہیں اپنی فیملی کے ساتھ رہوں گا۔ (جدید دور میں، فیملی میں” ماں “شامل نہیں)
یہ سننا تھا…میرے خوابوں کی لڑی بکھر گئی، میری سوچیں منتشر ہونے لگیں اور میں ٹوٹ کر رہ گئی وہ دن …اور آج…بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترس رہی ہوں… پریشانیوں نے گھیرا تنگ کردیا ہے کہ جن سے میں ایک لمبا عرصہ لڑتی رہی ہوں…. اب لڑوں بھی تو کس مقصد کے تحت؟ … یہی وجہ ہے کہ عمر سے پہلے بوڑھی ہوگئی ہوں..کئی بیماریوں میں مبتلا ہوں… کبھی کبھی بہت زیادہ بیمار ہوجاؤں تو محلے والے، عزیز و اقارب اور میرا لختِ جگر اپنی بیگم کے ہمراہ عیادت کےلئے آجاتے ہیں، گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ مہمانوں کی طرح بیٹھ کر چلے جاتے ہیں اور مجھے تخیلات کی دنیا میں چھوڑ جاتے ہیں! کہ گوشت پوست اور نام کے لحاظ سے تو میرا وہی بیٹا ہے لیکن سوچ اور فکر میں کتنا بدل چکا ہے ۔ جو میری آہٹ پہ میری طرف لپک آتا … آج کمزوری کی وجہ سے بار بار میرے گرنے پر بھی متوجہ نہیں ہوتا، جو گھنٹوں مجھ سے باتیں کرتا… آج میرے کان اس کی بات سننے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ ماں اور بیٹے کی محبت میں یہی بڑا فرق ہے کہ جب اسے میری ضرورت تھی تو میں نے تن من کی بازی لگا دی… آج مجھے ضرورت ہے اپنے لختِ جگر کی لیکن… میں دوسروں کے سہارے جی رہی ہوں۔
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
میرے پیار ے بیٹے! اگر” تلاشِ گمشدہ “کا یہ اشتہار پڑھو تو فوراً گھر آجانا، تمہاری بوڑھی ماں تمہارے بغیر ایک ایک دن تڑپ کر گزار رہی ہے ۔
اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
والسلام تمہار ی” ماں “

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply