تقدیر پر ایمان – اہل السنت کا اجماعی عقیدہ

تحریر:حافظ زبیر علی زئی

وعن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ ﷺ: ((کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل أن یخلق السمٰوات و الأرض بخمسین ألف سنۃ)) قال: ((وکان عرشہ علی الماء))
(سیدنا) عبداللہ بن عمرو (بن العاصؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے (تمام) مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا….. اور اس کا عرش پانی پر تھا۔
اسے (امام) مسلم (۲۶۵۳/۱۶ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۴۸) نے روایت کیا ہے ۔
تخریج الحدیث:
اس حدیث کو امام مسلم کے علاوہ امام عبداللہ بن وہب المصری (کتاب الجامع: ۵۸۰، کتاب القدر: ۱۷) جعفر بن محمد الفریابی (کتاب القدر:۸۴) ترمذی(السنن : ۲۱۵۶ وقال : حسن صحیح غریب) احمد (۱۶۹/۲ ح ۶۵۷۹) عبد بن حمید (المنتخب: ۳۴۳) ابن حبان (الاحسان : ۶۱۰۵، دوسرا نسخہ: ۶۱۳۸) محمد بن الحسین الآجری (الشریعۃ ص ۱۷۶ ح ۳۴۱۔ ۳۴۳) اور بیہقی (کتاب القضاء و القدر: ۱۲۸، کتاب الاسماء و الصفات ص ۳۷۴، ۳۷۵ دوسرا نسخہ ص ۴۷۷ کتاب الاعتقاد ص ۱۳۶) وغیرہم نے ابوہانیٔ حمید بن ہانئ عن ابی عبدالرحمٰن الحبلی عن عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی سند سے روایت کیا ہے ۔
ابو عبدالرحمٰن عبداللہ بن یزید الحبلی ثقہ ہیں۔ (دیکھئے تقریب التہذیب : ۳۷۱۲)
حمید بن ہانئ ثقہ ہیں۔ انہیں دارقطنی (سوالات البرقانی : ۹۵) ابن حبان (الثقات ۱۴۹/۴)اور ابن شاہین (الثقات:۲۷۵) نے ثقہ قرار دیا ہے ۔ امام مسلم وغیرہ نے تصحیح کے ذریعے توثیق کی ہے لہذا یہ روایت بالکل صحیح ہے ۔ والحمدللہ

فقہ الحدیث:
۱:        مقدار کی جمع مقادیر ہے ۔ مقدار کا مطلب ہے “عدد پیمائش، نا پ تول اور سائز میں مماثل شے، درجہ، حیثیت، تقدیر فیصلۂ الٰہی” دیکھئے القاموس الوحید (ص ۱۲۸۳)
۲:        اس صحیح حدیث سے معلوم ہواکہ تقدیر برحق ہے اور یہی اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقید ہ ہے ۔
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:“ومذھب السلف قاطبۃ أن الأمور کلھا بتقدیر اللہ تعالیٰ”

اور تمام سلف (صالحین) کا مذہب یہی ہے کہ تمام امور اللہ کی تقدیر سے ہیں                                                       (فتح الباری ۴۷۸/۱۱ تحت ح ۶۵۹۴)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿اِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ﴾ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے ۔ (القمر: ۴۹)

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے مشرکینِ قریش نے تقدیر کے بارے میں جھگڑا کیا تو یہ (درج بالا) آیت نازل ہوئی۔          (صحیح مسلم: ۲۶۵۶، دارالسلام: ۶۷۵۲)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم کام کرتے ہو۔ (الصّٰفّٰت:۹۶)

اس آیت کی تشریح میں امام بخاری فرماتے ہیں: پس اللہ نے خبر دی کہ تمام اعمال اور اعمال والے مخلوق ہیں۔ (خلق افعال العباد ص ۲۵ ح ۱۱۷)تقدیر پر دیگر آیات کے لئے دیکھئے کتاب الشریعۃ للآجری (ص ۱۵۰ تا ۱۷۲)

متواتر المعنیٰ احادیث سے عقیدۂ تقدیر ثابت ہے .
امام مالکؒ فرماتے ہیں: “ما أضل من کذب بالقدر، لولم یکن علیھم فیہ حجۃ إلا قولہ تعالیٰ﴿خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُّ‍ؤْمِنٌط﴾لکفیٰ بھا حجۃ” تقدیر کا انکار کرنے والے سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں ہے ، اگر تقدیر کے بارے میں صرف یہ ارشادِ باری تعالیٰ دلیل ہوتا: اس نے تمہیں پیداکیا پس تم میں بعض کافر ہیں اور بعض مومن ہیں۔ (التغابن : ۲) تو کافی تھا۔  (کتاب القدر للفریابی : ۲۹۰وسندہ صحیح، الشریعۃ للآجری ص ۲۲۶، ۲۲۷ ح ۵۰۸ و سندہ صحیح)
طاوس تابعی فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک جماعت کو پایا ہے، وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر سے ہے ۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۵ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۵۱)
امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوسہیل بن مالک سے پوچھا: تقدیر کے ان منکروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا : میری یہ رائے ہے کہ انہیں توبہ کرائی جائے اگر توبہ کرلیں (تو ٹھیک ہے ) ورنہ انہیں تہِ تیغ کردینا چاہئے۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: میری (بھی) یہی رائے ہے ۔ (موطأ امام مالک ۹۰۰/۲ ح ۱۷۳۰ و سندہ صحیح)
قدریہ (تقدیر کے منکرین) کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، (اللہ کی ) قسم ، اگر وہ احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کردیں تو تقدیر پر ایمان لانے کے بغیر (اللہ کے ہاں ) قبول نہیں ہوتا ۔(صحیح مسلم: ۸ ، دارالسلام: ۹۳)
ابن عمرؓ کو ایک بدعتی نے سلام بھیجا تو انہوں نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (دیکھئے سنن الترمذی: ۲۱۲۵ و سندہ حسن و قال الترمذی: “ھذا حدیث حسن صحیح غریب”)
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: “العجز و الکیس من القدر”

کمزوری اور ذہانت تقدیر سے ہے ۔ (الشریعہ للآجری ص ۲۱۳ ح ۴۴۸ و سندہ صحیح)

اس طرح کے اور بھی بہت سے آثار ہیں جن سے تقدیر کا عقیدہ صاف ثابت ہوتا ہے ۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا : “من کفر بالقدر فقد کفر بالإسلام”

جس نے تقدیر کا انکار کیا تو اس نے اسلام کا انکار کیا۔ (الشریعہ ص ۲۱۷ ح ۴۶۲ و سندہ صحیح)

قاسم بن محمد بن ابی بکر اور سالم بن عبداللہ بن عمر دونوں قدریہ فرقے والوں پر لعنت بھیجتے تھے۔ (الشریعۃ ص ۲۲۳ ح ۴۹۲ و سندہ حسن)
امام لیث بن سعد المصری نے تقدیر کے منکر کے بارے میں فرمایا کہ نہ اس کی بیمار پرسی کی جائے اور نہ اس کے جنازے میں شامل ہو ۔ (الشریعۃ للآجری ص ۲۲۷ ح ۵۰۹ و سندہ صحیح)
۳:       امام یحییٰ بن سعید القطان اور امام عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہما اللہ نے فرمایا:
“کل شيء بقدر” میں بقدر کا معنی “کتب و علم” ہے یعنی لکھا اور اسے علم ہے ۔ (کتاب القدر للفریابی : ۴۱۱ و سندہ صحیح)
۴:       امام اہل سنت ابو عبداللہ احمد بن حنبل نے فرمایا:
“لا یصلی خلف القدریۃ و المعتزلۃ و الجھمیۃ”

قدریہ، معتزلہ اور جہمیہ (گمراہ فرقے والوں) کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے ۔ (کتاب السنۃ لعبد اللہ بن احمد : ۸۳۳ و سندہ صحیح)

۵:       فضل بن عیسیٰ الرقاشی نامی ایک قدری بدعتی شخص تھا جس کے بارے میں امام ایوب السختیانیؒ نے فرمایا :”لو ولد أخرس کان خیراً لہ” اگر وہ گونگا پیدا ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا۔ (کتاب الضعفاء للبخاری : ۳۰۶ و سندہ صحیح، الجرح و التعدیل ۶۴/۷ و سندہ صحیح)
یہ رقاشی ایک دن محمد بن کعب القرظی (تابعی) کے پاس آکر تقدیر کے بارے میں کلام کرنے لگا تو امام قرظی نے اس سے کہا : (خطبے والا) تشہد پڑھ، جب وہ “من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادي لہ” تک پہنچا تو انہوں نے لاٹھی اٹھا کر رقاشی کے سر پر ماری اور فرمایا : اٹھ جا (دفع ہوجا) پھر جب وہ چلا گیا تو آپ نے (اپنی بصیرت اور تجربے سے) فرمایا: یہ آدمی اپنی رائے سے کبھی رجوع نہیں کرے گا۔ (السنۃ لعبد اللہ بن احمد : ۹۶۲ و سندہ صحیح)
۶:        تقدیر کے بارے میں شیخ عبدالمحسن العباد المدنی نے بہت بہترین بحث کی ہے جس کا ترجمہ راقم الحروف نے کیا ہے اور  “شرح حدیثِ جبریل” کے نام سے چھپ چکا ہے ۔ اس کتاب سے تقدیر کی بحث پیشِ خدمت  ہے :

تقدیر پر ایمان

اچھی اوربری تقدیر پرایمان کے بارے میں قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں اور بہت سی احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ تقدیر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ ﴿۴۹﴾ ﴾ بے شک ہم نے ہر چیز کو قدر (تقدیر و مقدار ) کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔ (القمر: ۴۹)
اور فرمایا ﴿قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ﴾کہہ دو ہمیں تو وہی مصیبت پہنچتی ہے جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ رکھی ہے ۔(التوبہ : ۵۱)
اور فرمایا ﴿مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾ ﴾ زمین میں اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ واقع ہونے سے پہلے ہماری کتاب میں درج ہے ، اللہ کے لئے یہ (بہت ) آسان ہے ۔ (الحدید : ۲۲)
رہی سنت تو امام بخاریؒ و امام مسلمؒ نے صحیحین میں تقدیر کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں جن میں ایسی بہت سی احادیث ہیں جن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے ۔
(سیدنا) ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے قوی مومن بہتر اور پسندیدہ ہے اور (ان ) سب میں خیر ہے ۔ جو چیز تجھے نفع دے اس کی حرص کر، اللہ سے مانگ اور عاجز نہ بن ۔ اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہنا کہ اگر میں ایسے ایسے کرتا تو ایسا ہوتا ۔ بلکہ یہ کہہ: اللہ کی یہی تقدیر ہے ، اس نے جو چاہا ہوا کیونکہ لَوْ (اگر مگر) شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۶۴)
طاوس (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرامؓ کویہ فرماتے ہوئے پایا کہ ہر چیز تقدیر سے ہے اور میں نے عبداللہ بن عمرؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ (دماغی) عاجزی اور ذہانت بھی تقدیر سے ہے۔ (صحیح مسلم : ۲۶۵۵)
عاجز ی اور ذہانت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ترو تازہ کی تروتازگی، سُست کی سُستی اور عاجزی سب تقدیر سے ہے ۔ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ “اس کا معنی یہ ہے کہ عاجز کا عاجزی اور ذہین کا ذہانت تقدیر میں لکھی ہوئی ہے” (شرح صحیح مسلم  ۲۰۵/۱۶)
آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر آدمی کا جنت و دوزخ میں ٹھکانا لکھا ہوا ہے (جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں جائے گا ) تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! ہم اسی پر توکل کر کے بیٹھ جائیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: اعمال کرو، جو میسر ہیں (جنتی کے لئے جنت کے اعمال میسر کئے گئےہیں لہذا اسے چاہئے کہ وہ جنتیوں کے اعمال کرے) پھر آپ ﷺ نے یہ آیتیں پڑھیں ﴿فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾﴾سے لے کر﴿لِلۡعُسۡرٰی﴾(سورہ الّیل :۵،۱۰) تک۔ (صحیح بخاری : ۴۹۴۵ وصحیح مسلم: ۲۶۴۷ عن علی رضی اللہ عنہ)
یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ بندوں کے نیک اعمال تقدیر میں ہیں اور انہی سے خوش قسمتی حاصل ہوگی اور یہ بھی تقدیر میں ہے اور بندوں کے برے اعمال تقدیر میں ہیں  اور ان سے بدبختی حاصل ہوگی اور یہ بھی تقدیر میں ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی نے اسباب بنائے ۔ کوئی چیز بھی اللہ کی تقدیر، فیصلے، تخلیق اور ایجاد سے باہر نہیں ہے ۔
(سیدنا) عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (بیٹھا ہوا) تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے لڑکے ! میں تجھے کچھ باتیں سکھاتا ہوں، اللہ کو یاد رکھ  وہ تجھے یاد رکھے گا، اللہ کو یاد رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ جب (مافوق الاسباب) سوال کرے تو اللہ سے سوال کر، اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ ، اور جان لے کہ اگر سب لوگ  تجھے فائدہ پہنچانا چاہیں تو تجھے صرف وہی فائدہ پہنچے گا جو اللہ نے  تیرے لئے لکھ رکھا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھے صرف وہی نقصان پہنچ سکتا ہے جو اللہ نے تیرے لئے لکھ رکھا ہے ۔ قلم اُٹھالئے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔ (سنن الترمذی: ۲۵۱۶ و قال: “ھذا حدیث حسن صحیح”)

تقدیر پر ایمان کے چار درجے ہیں ،جن پر عقیدہ رکھنا ضروری ہے :
پہلا درجہ:         جو کچھ ہونے والا ہے اس کے بارے میں اللہ کا علم ازلی و ابدی ہے ۔ ہر چیز جو ہونے والی ہے ، ازل سے اللہ کے علم میں ہے ، اللہ کو کسی چیز کے بارے میں قطعاً جدید علم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پہلے سے ہی اسے ہر چیز کا پورا علم ہے ۔
دوسرا درجہ:        ہر چیز جو واقع ہونے والی ہے اس کے بارے میں زمین اور آسمانوں کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے، سب کچھ لوح محفوظ میں درج ہے ۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں، زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی ہیں۔ اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۳ من حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ)
تیسرا درجہ :        اللہ کی مشیٔت  اور اس کا ارادہ ، جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کی مشیٔت سے ہو رہا ہے ۔ اللہ کے ملک میں صرف وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے ۔ جو اللہ نے چاہا تو ہوا اور جو نہیں چاہا تو نہیں ہوا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾ ﴾اللہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا حکم صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ فرماتا ہے :کُنْ (ہوجا) تو ہوجا تا ہے (یٰسٓ: ۸۲) اور فرمایا ﴿وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾ ﴾ اور تم جو چاہتے ہو وہ نہیں ہوسکتا الا یہ کہ اللہ رب العالمین چاہے ۔(التکویر : ۲۹)
چوتھا درجہ:        جو کچھ ہونے والا ہے اس کا وجود اور تخلیق اللہ کی مشیٔت پر ہے ، اس کے ازلی علم کے مطابق اور جو اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے کیونکہ جو کچھ ہونے والا ہے ، وہ اشیاء اور ان کے افعال اللہ ہی کے پیداکردہ ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ ﴾ اللہ ہر چیز کا خالق  ہے (الزمر : ۶۲) اور فرمایا ﴿وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾ ﴾ اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہےاور تم جو اعمال کرتے ہو انہیں (بھی) پیدا کیا  ہے ۔ (الصّٰفّٰت: ۹۶)
تقدیر پر ایمان،  اس غیب پر ایمان ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے  ۔ تقدیر میں جو کچھ ہے اس کا واقع ہونا لوگوں کو دو طرح سے معلوم ہوسکتا ہے :
۱:        کسی چیز کا واقع ہوجانا، جب کوئی چیز واقع ہوجاتی ہے تو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تقدیر میں یہی تھا، اگر یہ تقدیر میں نہ ہوتا تو واقع ہی نہ ہوتا۔ کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور وہ جو نہیں چاہتا تو نہیں ہوتا۔
۲:        مستقبل میں ہونے والے واقعات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیاں مثلاً دجال ، یاجوج و ماجوج  اور نزولِ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) وغیرہ امور کے بارے میں آپ کی پیش گوئیاں، جو کہ آخری زمانے میں وقوع پذیر ہوں گی۔
(دجال ایک کانے شخص کا لقب ہے ، جس کا ظہور قیامت سے پہلے ہوگا اور سیدنا عیسیٰ بن مریم  الناصری علیہما السلام اسے اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے ۔ دیکھئے صحیح مسلم (ح۲۸۹۷ و ترقیم دارالسلام: ۷۲۷۸))
(تنبیہ:   سیدنا حسن بصریؒ (تابعی) فرماتے ہیں :”قبل موت عیسیٰ، واللہ إنہ الآن لحيّ عنداللہ ولکن إذا نزل آمنوا بہ أجمعون” عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے (سب اہل کتاب آپ پر ایمان لے آئیں گے ) اللہ کی قسم اب آپ (عیسیٰ علیہ السلام) اللہ کے پاس زندہ ہیں جب وہ نازل ہوں گے تو سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے (تفسیر طبری ۱۴/۶ و سندہ صحیح) اسی پر خیر القرون کا اجماع ہے ۔ یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ            آسمان سے نازل ہوں گے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ دیکھئے کشف الاستار عن زوائد البزار (۱۴۲/۴ ح ۳۳۹۶ و سندہ صحیح))
یہ پیش گوئیاں اس کی دلیل ہیں کہ ان امور کا واقع ہونا ضروری ہے ۔ یہی اللہ کی تقدیر اور فیصلے میں لکھا ہوا ہے ۔ اسی طرح آپﷺ کی وہ پیش گوئیاں جو آپ نے اپنے زمانے کے قریب واقع ہونے والے امور کے بارے میں فرمائی ہیں۔ انہی میں سے وہ حدیث ہے جسے (سیدنا) ابوبکرہ (نفیع بن الحارث) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ، حسن(بن علیؓ) آپ کے پاس تھے۔ آپ ایک دفعہ ان کی طرف اور ایک دفعہ لوگوں کی طرف دیکھتے تھے اور فرماتے تھے “میرا یہ بیٹا سید (سردار) ہے اور ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے ” (صحیح بخاری : ۳۷۲۶)
رسول ﷺ نے جو پیش گوئیاں فرمائی تھی وہ (آپ کی وفات کے بہت بعد ) اکتالیس ہجری (۴۱؁ھ) میں واقع ہوئی جب مسلمانوں میں اتفاق ہوگیا ۔ اسے “عام الجماعۃ” (اتفاق کا سال) بھی کہتے ہیں ۔ صحابہؓ نے اس حدیث سے یہ سمجھا تھا کہ (سیدنا و محبوبنا ) حسن (بن علیؓ) بچپن میں نہیں مریں گے اور وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک صلح کے بارے میں رسول ﷺ کی بیان کردہ پیش گوئی واقع نہ ہوجائے ۔ یہ چیز تقدیر میں تھی جس کے وقوع سے پہلے صحابہ کرام کو اس کا علم تھا۔          ہر چیز کا خالق اور اس کی تقدیر بنانے والا اللہ ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ﴾ اللہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ (الزمر: ۶۲) اور فرمایا ﴿وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقۡدِیۡرًا ﴾ اور اس اللہ نے ہر چیز پیدا کی ، پس اس نے ہر چیز کی تقدیر مقرر کی یعنی مقداریں بنائیں۔(الفرقان: ۲)
پس خیر و شر کی ہر چیز جو ہونے والی ہے اللہ کے فیصلے، تقدیر ، مشیٔت اور ارادے سے ہوتی ہے ۔ (سیدنا) علیؓ کی بیان کردہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے لمبی دعا میں یہ الفاظ فرمائے : ((والخیر کلہ في یدیک و الشر لیس إلیک)) ساری خیر تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر تیری طرف (لے جانے والا ) نہیں ہے  (صحیح مسلم: ۷۷۱) اس حدیث کا  یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کے فیصلے اور تخلیق کے مطابق شر واقع نہیں ہوتا ۔ اس کا معنی صرف یہ ہے کہ اللہ نے بغیر کسی حکمت اور فائدے کے محض شر پیدا نہیں کیا اور دوسرے یہ کہ مطلق شر کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ (دلائل عامہ کے تحت) عموم میں داخل ہے ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ﴾ اللہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ (الزمر: ۶۲) اور فرمایا ﴿اِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ﴾ بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے ۔ (القمر: ۴۹)
صرف اکیلے شر کے ساتھ اللہ کی طرف نسبت سے ادب سیکھنا چاہئے۔ اسی لئے جنوں نے اللہ کی طرف خیر نسبت کرکے ادب کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے شر کو مجہول کے صیغے سے بیان کیا تھا۔
   اللہ تعالیٰ (جنوں کا قول نقل) فرمایا ﴿وَّ اَنَّا لَا نَدۡرِیۡۤ اَشَرٌّ اُرِیۡدَ بِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ اَرَادَ بِہِمۡ رَبُّہُمۡ رَشَدًا ﴿ۙ۱۰﴾ ﴾ اور ہمیں پتا نہیں کہ زمین والوں کے ساتھ شر کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب ان کی ہدایت چاہتا ہے  ۔ (الجن : ۱۰)
تقدیر کے ساتھ چاروں درجوں میں اللہ کی مشیٔت اور ارادہ بھی ہے ۔ مشیٔت اور ارادے میں فرق یہ ہے کہ کتاب و سنت میں مشیٔت کا ذکر تکوینی و تقدیری طور پر ہی آیا ہے ۔ اور ارادے کا معنی کبھی تکوینی معنی اور کبھی شرعی معنی پر آتا ہے ۔ تکوینی و تقدیری معنی کے لئے یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَ لَا یَنۡفَعُکُمۡ نُصۡحِیۡۤ اِنۡ اَرَدۡتُّ اَنۡ اَنۡصَحَ لَکُمۡ اِنۡ کَانَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یُّغۡوِیَکُمۡ ؕ﴾ اور تمہیں میری نصیحت فائدہ نہیں دے سکتی اگر چہ میں تمہیں نصیحت کرنا چاہوں اگر تمہیں اللہ تعالیٰ گمراہ کرنا چاہتا ہے  (ھود: ۳۴)
اور فرمایا ﴿فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ اَنۡ یُّضِلَّہٗ یَجۡعَلۡ صَدۡرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا ﴾ پس اللہ جس کو ہدایت دینے کا ارادہ کرے تو اس کے دل کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے دل کو تنگ (حق کو نہ ماننے والا) کردیتا ہے ۔ (الانعام : ۱۲۵)
شرعی ارادے کے لئے ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ﴾ اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں کرتا ۔ (البقرۃ: ۱۸۵)
اور فرمایا ﴿مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴾ اللہ اس کا ارادہ نہیں کرتا کہ تمہیں حرج میں ڈال دے لیکن وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردے تا کہ تم شکر کرو۔ (المآئدۃ:۶)
ان دونوں ارادوں میں یہ فرق ہے کہ تکوینی ارادہ عام ہے چاہے اللہ تعالیٰ خوش ہو یا ناراض ہو۔ شرعی ارادہ صرف اسی کے بارے میں ہوتا ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے ۔
تکوینی ارادہ واقع ہوکر ہی رہتا ہے اور دینی ارادہ اس آدمی کے حق میں واقع ہوتا ہے جسے اللہ توفیق دے۔ اور جسے وہ توفیق نہ دے تو وہ شخص اس سے محروم رہتا ہے ۔ کچھ اور بھی کلمات ہیں جو تکوینی و شرعی معنوں میں آتے ہیں ، انہی میں سے فیصلہ، تحریم ، اذن ، کلمات اور امر وغیرہ ہیں۔
ابن القیم نے اپنی کتاب “شفاء العلیل” کے انتیسویں (۲۹) باب میں ان کو ذکر کیا ہے  اور قرآن و سنت سے ان کے دلائل لکھے ہیں۔

ہر چیز جسے اللہ نے لوح محفوظ میں لکھا ہے ، اس کی تقدیر مقرر کی ہے  اور اس کے وقوع کا فیصلہ کیا ہے تو اس چیز میں ضرور بالضرور ہو کر رہنا ہے۔ نہ اس میں تغیر ہوتاہے اور نہ تبدیلی، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ﴾ زمین اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ واقع ہونے سے پہلے ہم نے کتاب میں درج کردی ہے ۔ (الحدید : ۲۲) اور اس میں سے حدیث ہے “قلم اٹھا لئے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے ” (دیکھئے ص ۶۱/ الاصل)          اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ﴿یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ ﴿۳۹﴾﴾اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے ۔ (الرعد: ۳۹)          اس کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ آیت کریمہ شریعتوں سے متعلق ہے ۔ اللہ شریعتوں میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے حتیٰ کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رسولوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ، آپ ﷺ کی شریعت نے سابقہ ساری شریعتوں کو منسوخ کردیا ۔ اس کی دلیل  اس آیت میں ہے جو اس سے پہلے ہے﴿وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ﴾ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی رسول بھی کوئی نشانی نہیں لا سکتا ، ہر وقت کے لئے ایک کتاب ہے یعنی ہر چیز کا وقت مقرر ہے ۔ (الرعد: ۳۸) اور اس کی یہ تفسیر بھی بیان کی گئی ہے کہ اس سے وہ مقداریں مراد ہیں جو لوح محفوظ میں نہیں ہے ۔ جیساکہ بعض کام فرشتوں کے ذریعے سے سر انجام دیئے جاتے ہیں ۔ابن القیم کی کتاب شفاء العلیل کے ابواب (۲،۴،۵،۶) دیکھیں۔ ہر باب کے تحت انہوں نے لوح محفوظ کے علاوہ ایک ایک خاص تقدیر بیان کی ہے ۔ آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ “قضاء (تقدیر) کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے اور عمر میں صرف نیکی ہی کے ذریعے اضافہ ہوتا ہے” (سنن الترمذی: ۲۱۳۹، اسے امام ترمذی نے حسن قرار دیا ہے نیز دیکھئے السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی : ۱۵۴)

آپﷺ کی حدیث “اللہ جسے پسند کرتا ہے تو اس کا رزق کشادہ کر دیتا ہے  ۔ یا اس کی عمر دراز کر دیتا ہے ، پس صلہ رحمی کرو” (صحیح بخاری: ۲۰۶۷ و صحیح مسلم : ۲۵۵۷) کا بھی یہی مطلب ہے ۔ ہر انسان کا وقت لوح محفوظ میں مقرر ہے ۔ نہ آگے ہوسکتا ہے اور نہ پیچھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَ لَنۡ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفۡسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُہَا ؕ ﴾ اور جب کسی نفس کا وقت آجائے تو اللہ اسے مؤخر نہیں کرتا ۔(المنٰفقون : ۱۱)
اور فرمایا ﴿لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴾ ہر امت کے لئے ایک وقت ہے ۔ جب ان کا وقت آجاتا ہے تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہوتا ہے اور نہ آگے ہوتا ہے ۔ (یونس: ۴۹)
اور جو آدمی مرتا یا قتل ہوتا ہے تو وہ اپنی اجل کی وجہ سے مرتا یا قتل ہوتا ہے ۔ معتزلہ کی طرح یہ نہیں کہنا چاہئے کہ مقتول کی اجل کاٹ دی گئی اور اگر وہ قتل نہ ہوتا تو دوسری اجل تک زندہ رہتا ۔ کیونکہ ہرانسان (کے مرنے) کا ایک ہی وقت مقرر ہے ۔ اس وقت کے لئے اسباب مقرر ہیں، یہ بیماری میں مرے گا اور یہ ڈوبنے سے مرے گا اور یہ قتل ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔
تقدیر کے بہانے نیکی کے نہ کرنے اور گناہوں کے کرنے پر استدلال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جس نے گناہ کیا تو شریعت میں اس کی ایک سزا مقرر ہے ۔ اگر اس نے اپنے گناہ کا یہ عذر پیش کیا کہ یہ اس کی قسمت میں تھا تو اسے شرعی سزا دی جائے گی اور کہا جائے گا کہ اس گناہ کی یہ سزا تیری قسمت میں تھی۔
حدیث میں جو آیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقدیر پر بحث و مباحثہ ہوا تھا۔ یہ گناہ کرنے پر تقدیر سے استدلال والا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ تو اس مصیبت کا ذکر ہے جو معصیت کے سبب واقع ہوئی ۔
(سیدنا) ابوہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم اور موسیٰ نے بحث و مباحثہ کیاتو موسیٰ نے آدم سے کہا : تو وہ آدم ہے جسے اس کی خطا (لغزش) نے جنت سے نکال دیا تھا۔ تو آدم نے جواب دیا: تو وہ موسیٰ ہے جسے اللہ نے رسالت اور کلام کرنے سے نوازا ۔ پھر تو مجھے اس چیز پر ملامت کرتا ہے جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دی تھی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے دودفعہ فرمایا : پس آدم موسیٰ (علیہما السلام ) پر غالب آگئے۔ (صحیح بخاری ۳۴۰۹ و صحیح مسلم: ۲۶۵۲)
ابن القیم نے اپنی کتاب “شفاء العلیل” میں اس حدیث پر بحث کے لئے تیسرا باب قائم کیا ہے۔ انہوں نے اس حدیث کی تشریح میں باطل اقوال کا (بطورِ رد) ذکر کیا اور وہ آیات ذکر کیں جن میں آیا ہے کہ مشرکین اپنے شرک پر تقدیر سے استدلال کرتے تھے۔ اللہ نے ان مشرکین کو جھوٹا قرار دیا کیونکہ وہ اپنے شرک و کفر پر قائم (اور ڈٹے ہوئے) تھے ۔ انہوں نے جو بات کہی وہ حق ہے لیکن اس کے ساتھ باطل پر استدلال کیا گیا ہے ۔ پھر انہوں نے اس حدیث کے معنی پر دو توجیہات ذکر کیں ، پہلی توجیہ اُن کے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی ہے اور دوسری ان کے اپنے فہم و استنباط سے ہے ۔
ابن القیم فرماتے ہیں کہ “جب آپ نے اسے پہچان لیا تو موسیٰ علیہ السلام اللہ ﷻ اور اس کے اسماء و صفات کے بارے میں سب سے زیادہ باخبر تھے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اس خطا پر ملامت کریں جس سے خطا کرنے والے نے توبہ کر رکھی ہے ۔ اس کے بعد اللہ ﷻ نے اسے (اپنے لئے) چن لیا ، راہنمائی کی اور خاص منتخب کرلیا۔
آدم        اپنے رب کے بارے میں سب سے زیادہ پہچان رکھتے تھے کہ وہ معصیت پر قضا و قدر سے استدلال کریں۔

بات یہ ہے کہ موسیٰ        نے آدم       کو  اس مصیبت پر ملامت کی تھی جس کے سبب سے اولادِ آدم کے باپ (سیدنا آدم      ) کی لغزش ہے ۔ پس انہوں نے لغزش کا ذکر بطورِ تنبیہ کیا، اس مصیبت اور آزمائش پر جو آدم       کی ذریت و اولاد کو حاصل ہوئی ۔

اسی لئے موسیٰ        نے آدم        سے فرمایا : “آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو جنت سے نکال دیا” بعض روایات میں “خیبتنا” (آپ نے ہمیں محروم کردیا) کا لفظ آیا ہے ۔

پس آدم                   نےمصیبت پر تقدیر سے استدلال کیا اور فرمایا : بے شک یہ مصیبت جو میری لغزش کی وجہ سے میری اولاد کو پہنچی میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی ۔ تقدیر سے مصیبتوں میں استدلال کیا جاسکتا ہے لیکن عیوب (اور گناہوں کے جواز) میں اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔ یعنی آپ مجھے اس مصیبت پر کیوں ملامت کرتے ہیں جو میری  پیدائش سے اتنے سال پہلے ، میرے اور آپ کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی ، یہ جواب ہمارے شیخ (ابن تیمیہ) رحمہ اللہ کا ہے اس کا دوسرا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گناہ پر تقدیر سے استدلال بعض جگہ فائدہ دے سکتا ہے اور بعض جگہ نقصان دہ ہے ۔ اگر گناہ کے واقع ہونے کے بعد آدمی توبہ کرے اور دوبارہ یہ گناہ نہ کرے تو تقدیر سے استدلال کرسکتا ہے ۔ جیسا کہ آدم       نے (اپنی لغزش کے بعد) کیا۔

اس طریقے سے تقدیر کے ذکر میں توحید اور رب تعالیٰ کے اسماء و صفات کی معرفت ہے ۔ اس کے ذکر سے بیان کرنے والے اور سننے والے کو نفع ہوتا ہے کیونکہ تقدیر (کے ذکر) سے کسی امر و نہی کی مخالفت نہیں ہوتی اور نہ شریعت کا ابطال ہوتا ہے ۔ بلکہ محض حق کو توحید اور تبدیلی و قوت سے براءت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ اس کی توضیح اس سے (بھی) ہوتی ہے کہ آدم                 نے موسیٰ       ٰ        سے فرمایا :”کیا آپ میرے اس عمل پر ملامت کرتے ہیں جو میری پیدائش سے پہلے میرے مقدر میں لکھا ہواتھا ؟ ” جب آدمی گناہ کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو وہ معاملہ اس طرح زائل اور ختم ہوجاتا ہے گویا یہ کام ہوا ہی نہیں تھا۔ پس اب اگر کسی ملامت کرنے والے نے اسے اس گناہ پر ملامت کیا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ تقدیر سے استدلال کرے اور کہے : “یہ کا م میری پیدائش سے پہلے میرے مقدر میں تھا” اس آدمی نے تقدیر کے ذریعے سے حق کا انکار نہیں کیا اور نہ باطل پر دلیل قائم کی ہے اور نہ ممنوع بات کے جواز پر حجت بازی کی ہے ۔

رہا وہ مقام جس پر تقدیر سے استدلال نقصان دہ ہے وہ حال اور مستقبل سے تعلق رکھتا ہے  ۔یعنی کوئی آدمی فعلِ حرام کا ارتکاب کرے یا کسی واجب (فرض) کو ترک کر دے ،پھر کوئی آدمی اسے اس پر ملامت کرے تو پھر وہ گناہ پر قائم رہنے اور اصرار کرنے میں تقدیر سے استدلال کرے ۔ یہ شخص اپنے استدلال سے حق کو باطل کرنا اور باطل کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے جیسا کہ شرک اور غیر اللہ کی عبادت پر اصرار کرنے والے کہتے تھے ﴿لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَاۤ اَشۡرَکۡنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا ﴾اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے (الانعام : ۱۴۸) ﴿لَوۡ شَآءَ الرَّحۡمٰنُ مَا عَبَدۡنٰہُمۡ ؕ ﴾ اگر رحمٰن چاہتا تو ہم ان (معبودانِ باطلہ) کی عبادت نہ کرتے ۔ (الزخرف:۲۰)

انہوں نے اپنے باطل عقائد کو صحیح سمجھتے ہوئے تقدیر سے استدلال کیا ۔ انہوں نے اپنے (شرکیہ و کفریہ) فعل پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا نہ ا س کے ترک کا ارادہ کیا اور نہ اس کے فاسد ہونے کا اقرار کیا۔
یہ اس آدمی کے استدلال کے سراسر مخالف ہے جس پر اس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے ، وہ نادم (پشیمان) ہوجاتا ہے اور پکاا رادہ کرتا ہے کہ وہ آئندہ غلطی نہیں کرے گا۔ پھر اس (توبہ) کے بعد اگر کوئی اسے ملامت کرے تو کہتا ہے : “جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ کی تقدیر کی وجہ سے ہوا ہے ” اس مسئلے کا (بنیادی) نکتہ یہ ہے کہ اگر وجۂ ملامت دور ہوجاتے تو تقدیر سے استدلال صحیح ہے اور اگر وجۂ ملامت باقی رہے تو تقدیر سے استدلال باطل ہے …..” (شفاء العلیل ص ۳۶،۳۵)
تقدیر کے بارے میں قدریہ و جبریہ دونوں فرقے گمراہ ہوئے ہیں ۔ قدریہ کہتے ہیں کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں ، اللہ نے یہ افعال ان کی تقدیر میں نہیں لکھے ہیں۔ ان کے قول کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی حکومت میں بندوں کے جو افعال واقع ہوتے ہیں وہ  اس کا مقدر (مقرر شدہ ) نہیں ہیں۔ یہ بندے اپنے افعال پیدا کرنے میں اللہ سے بے نیاز ہیں اور یہ کہ اللہ ہر چیز کا خالق نہیں ہے بلکہ بندے اپنے افعال کے خالق ہیں ۔ یہ عقیدہ بہت ہی باطل عقیدہ ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بندوں کا خالق ہے اور بندوں کے افعال کا (بھی) خالق ہے ۔ اللہ تعالیٰ ذاتوں اور صفتوں سب کا خالق ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ﴿قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ﴾ کہہ دو کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ اکیلا قہار (سب پر غالب ) ہے ۔ (الرعد: ۱۶)
اور فرمایا ﴿اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۫ وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ وَّکِیۡلٌ ﴿۶۲﴾ ﴾ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز پر وکیل (محافظ و نگران ) ہے ۔ (الزمر: ۶۲)
اور فرمایا ﴿وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾ ﴾ اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تم جو اعمال کرتے ہو انہیں (بھی) پیدا کیا ہے ۔ (الصّٰفّٰت: ۹۶)
جبریہ (فرقے) نے بندوں سے اختیار چھین لیا ہے ، وہ اس کے لئے کسی مشیٔت اور ارادے کے قائل نہیں ہیں۔انہوں نے اختیاری حرکات اور اضطراری حرکات کو برابر کردیا ہے ۔ ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کی ساری حرکات اس طرح ہیں جس طرح کہ درختوں کی حرکات ہیں۔ کھانے والے، پینے والے ، نماز ی اور روزہ دار کی حرکات اس طرح ہیں جیسے رعشہ والے کی حرکات ہوتی ہیں ، ان میں انسان کے کسب اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔
اس طرح تو پھر رسولوں کو بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے کا کیا فائدہ  ہے؟ یہ قطعی طور پر معلوم ہے کہ بندے کے پاس مشیٔت اور ارادے کی طاقت ہے ۔ اچھے اعمال پر اس کی تعریف کی جاتی ہے اور برے اعمال پر اس کی مذمت کی جاتی ہے اور اسے سزا ملتی ہے۔ بندے کے اختیاری افعال اسی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں (نیکی و بدی کا مرتکب وہی ہوتا ہے ) رہی اضطراری حرکات جیسے رعشہ والے کی حرکت تو یہاں یہ نہیں کہا جاتا  کہ  یہ اس کا فعل ہے ۔ یہ تو اس کی ایک صفت ہوتی ہے ۔

اسی لئے تو فاعل کی تعریف میں نحوی حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ اسم مرفوع ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے جس سے کوئی حَدَث (فعل) صادر ہوتا ہے یا جس کا وہ قام بہ ہوتا ہے یعنی اس کا صدور اس سے ہوتا ہے ۔ حدث سے ان کی مراد وہ اختیاری افعال ہیں جو بندے کی مشیٔت اور ارادے سے واقع ہوتے ہیں ۔ قیامِ حدث سے ان کی مراد وہ امور ہیں جو مشیٔت کے تحت نہیں آتے جیسے موت، مرض اور ارتعاش (رعشہ) وغیرہ ۔ پس اگر کہا جائے کہ زید بیمار ہوا ،زید مر گیا یا اس کے ہاتھوں میں رعشہ ہوا تو یہ حدث زید کے (ارادی) فعل سے نہیں ہے بلکہ یہ اس کی صفت ہے جس کا صدور اس سے ہوا ہے ۔

اہل السنت والجماعت اثبات تقدیر میں غالی جبریوں اور انکار کرنے والے قدریوں کے درمیان ہیں۔ انہوں نے بندے کیلئے مشیٔت کا اثبات کیا ہے اور رب کے لئے مشیٔت عام کا اثبات کرتے ہیں ۔انہوں نے بندے کی مشیٔت کو اللہ کی مشیٔت کے تابع قرار دیا ہے کہ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾ وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾ ﴾ اس کے لئے جو تم میں سے سیدھا ہونا چاہے اور تم نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ اللہ رب العالمین چاہے ۔(التکویر : ۲۹،۲۸)
اللہ کی حکومت میں جو وہ نہ چاہے ہو ہی نہیں سکتا ۔
اس کے برخلاف قدریہ کہتے ہیں کہ “بندے اپنے افعال پیدا کرتے ہیں” بندوں کو ان چیزوں پر عذاب نہیں ہوسکتا جن میں ان کا کوئی ارادہ ہے اور نہ مشیٔت جیساکہ جبریہ کا قول ہے ۔ اسی میں اس سوال کا جواب ہے جو کہ باربار کیا جاتا ہے کہ کیا بندہ مجبور محض ہے یا وہ (کُلی) بااختیار ہے ؟ تو (عرض ہےکہ) نہ وہ مطلقاً مجبور محض ہے اور نہ مطلقاً بااختیار ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اعتبار سے با اختیار ہے کہ اسے مشیٔت اور ارادہ حاصل ہے ۔ اور اس کے اعمال اسی کا کسب (کمائی) ہیں۔ نیک اعمال پراسے ثواب ملے گا اور برے اعمال پر اسے سزا ملے گی۔ وہ ایک اعتبار سے مُسَیَّر (مجبور) ہے ۔ اس سے ایسی کوئی چیز صادر نہیں ہوتی جو اللہ کی مشیٔت ، ارادے ، تخلیق اور ایجاد سے خارج ہو ۔
جو بھی ہدایت اور گمراہی (بندے کو ) حاصل ہوتی ہے تو وہ اللہ کی مشیٔت اور ارادے سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ نے بندوں کے لئے خوش بختی کا راستہ اور گمراہی کا راستہ، دونوں واضح کردیئے ہیں۔ اللہ نے بندوں کو عقل دی ہے جس سے وہ نفع اور نقصان کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ جو شخص خوش بختی کا راستہ اختیار کرکے اس پر چلا تو اسے یہ خوش بختی (جنت) کی طرف لے جائے گا۔ یہ کام بندے کی مشیٔت اور ارادے سے واقع ہوا ہے جو کہ اللہ کی مشیٔت اور ارادے کے تابع ہے ۔ اور یہ اللہ کا فضل و احسان ہے ۔ جس شخص نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا اور اس پر چلا تو  یہ اسے بدبختی (جہنم) کی طرف لے جائے گا۔ یہ کام بندے کی مشیٔت اور ارادے سے ہوا ہے جو کہ اللہ کی مشیٔت اور ارادے کے تابع ہے ۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عدل و انصاف ہے ۔ اللہ فرماتا ہے﴿اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿۹﴾ وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ ﴿ۚ۱۰﴾ ﴾ کیا ہم نے اسے دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے اور اس کی دو راستوں (شر اور خیر) کی طرف راہنمائی نہیں کی؟ (البلد: ۸۔۱۰)
اور فرمایا ﴿اِنَّا ہَدَیۡنٰہُ السَّبِیۡلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا ﴿۳﴾ ﴾ ہم نے اسے راستہ دکھایا تا کہ وہ شکر کرنے والا بنے اور نا شکرا بنے۔ (الدھر: ۳)
اور فرمایا ﴿مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا﴾ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کردے تو آپ اس (شخص) کا ولی (مددگار) مرشد و ہدایت دینے والا نہیں پائیں گے (الکھف: ۱۷)
ہدایتیں دو طرح کی ہیں (۱) ہدایتِ دلالت و ارشاد ،یہ ہر انسان کو حاصل ہے یعنی ہر انسان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ ہدایتِ اسلام پر چلے  (۲) ہدایتِ توفیق ، یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے ۔
پہلی ہدایت کی دلیلوں میں سے یہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے﴿وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْ آِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾اور بے شک آپ صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ دوسری ہدایت کی دلیلوں میں سے یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ﴾ آپ جسے (ہدایت دینا) چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے ۔ (القصص : ۵۶)
اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں ہدایتیں اس ارشاد میں اکٹھی کردی ہیں ﴿وَ اللّٰہُ یَدۡعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ؕ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۵﴾﴾ اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف بُلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے ۔(یونس:۲۵)
“اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ” یعنی ہر ایک کو (بلاتا ہے ) ۔ مفعول کو عموم کے لئے حذف کیا  گیا ہے اور یہ ہدایت دلالت و ارشاد ہے۔ “اور جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے ” اس میں خصوصیت قائم کرنے کے لئے مفعول کو ظاہر کردیا گیا ہے اور ہدایت توفیق ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 53 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply