تعدد ازواج سے متعلقہ آیات میں کوئی تعارض نہیں

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : قرآن مجید میں تعدد ازواج کے ضمن میں ایک آیت یہ کہتی ہے :
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً [4-النساء:3 ]
”اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔“
جبکہ دوسری جگہ یوں ارشاد ہے :
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ [4-النساء:129]
”اور تم سے یہ تو بھی نہیں ہو سکے گا کہ تم بیویوں کے درمیان پورا پورا انصاف کرو خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہش کرو۔“
پہلی آیت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کے لئے انصاف کرنے کو شرط قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری آیت میں اس امر کی وضاحت ہے کہ قیام عدل غیر ممکن ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہےکہ پہلی آیت منسوخ ہے اور نتیجتًا صرف ایک عورت سے ہی شادی ہو سکتی ہے ؟ کیونکہ عدل کی شرط پورا ہونا نا ممکن ہے، وضاحت درکار ہے ؟
جواب : دونوں آیتوں میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ایک آیت دوسری کے لئے ناسخ ہے، اس لئے کہ عدل سے مراد وہ عدل ہے جو انسانی بس میں ہو، اور وہ ہے باری مقرر کرنے اور نان و نفقہ میں عدل۔ جہاں تک محبت اور ازدواجی تعلقات وغیرہ میں عدل و انصاف کا تعلق ہے تو یہ انسانی بس سے باہر ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ [4-النساء:129]
میں مذکورہ عدل سے یہی عدل مراد ہے۔ یہ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات میں ان کی باری تقسیم فرماتے اور عدل سے کام لیتے پھر فرماتے :
اللهم هذا قسمي فيما املك فلا تلمني فيما تملك ولا املك [سنن ابي داؤد، سنن ترمذي، سنن نسائي و سنن ابن ماجة ]
”اےاللہ ! جو امور میرے بس میں ہیں ان میں میری تقسیم یہ ہے، اور جن امور کا مالک میں نہیں بلکہ تو ہے تو ان کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ “ والله ولي التوفيق

 

یہ تحریر اب تک 13 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply