تبرکات کی شرعی حیثیت

تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

یہ نہایت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ بسا اوقات اس کی وجہ سے توحید کے منافی اقوال و افعال سرزد ہو جاتے ہیں، اولیاء و صلحاء کی عبادت کا بنیادی سبب ان کی ذات، آثار اور قبور کو متبرک سمجھنا تھا، شروع میں انہوں نے ان کے جسموں کو تبرک کی نیت سے چھوا، پھر ان کو پکارنے لگے، ان سے مدد مانگنے لگے، پھر ان اولیاء سے کام آگے بڑھا تو مختلف جگہیں، جمادات اور اوقات کو متبرک سمجھنے جانے لگے۔
دراصل تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجر و ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا۔
محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں:
مشروع تبرک:
جسے اللہ و رسول نے جائز قرار دیا ہو۔
ممنوع تبرک:
جو جائز تبرک میں شامل نہ ہو یا شارع نے اس سے منع فرما دیا ہو۔
ممنوع تبرک
ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے:
سیدنا ابوواقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ایک بیری تھی، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے ) اپنا اسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے، اسے ”ذات انواط“ کہا: جاتا تھا، ہم نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! جس طرح مشرکین کا ”ذات انواط“ ہے، ہمارے لیے بھی کوئی ذات انواط مقرر کر دیجئیے: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الله اكبر انها السنن قلتم والذي نفسي بيده كما قالت بنو اسرائيل لموسيٰ . ﴿اجعل لنا إلـها كما لهم آلهة﴾ [ 7-الأعراف: 138] لتركبن سنن من كان قبلكم… الله اكبر !
”اللہ اکبر ! اللہ کی قسم، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا: ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تھا ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ [الاعراف ؛ 138] “ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجئیے، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں) ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔ “
[مسند الامام احمد: 218/25، جامع الترمذي: 2180، مسند الحميدي ؛ 868، المعجم الكبير للطبراني 274/3، صحيح]
امام ترمذی نے اس حدیث کو ”حسن صحیح“ اور امام ابن حبان (6702 ) نے ”صحیح“ کہا ہے۔
مشروع تبرک
آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں:
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں:
اخرج الينا انس رضى الله عنه نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البناني بعد عن انس انهما نعلا النبى صلى الله عليه وسلم
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے، ان کے دو تسمے تھے، اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔ “ [صحيح بخاري: 438/1، ح 3107 ]
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبہ نکالا اور فرمایا:
هذه كانت عند عائشة حتيٰ قبضت، فلما قبضت قبضتها، وكان النبى كريم صلى الله عليه وسلم يلبسها، فنحن نغسلها للمرضيٰ يستشفيٰ بها
”یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اسے بیماروں کے لیے شفاء کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں۔ “ [ صحيح مسلم: 190/2، ح 2049 ]
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا، ابوحازم کہتے ہیں کہ ”سہل نے اسے نکالا اور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔ “ [صحيح بخاري 842/2 ح 5437 ]
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے، جنہیں ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا، کہتے ہیں، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔ “ [صحيح بخاري: 29/1، ح: 170 ]
تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا
یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
حافظ شاطبی فرماتے ہیں:
ان الصحابة بعد موته لم يقع من أحد منهم شيء من ذلك بالنسبة الي من خلفه اذ لم يترك النبى كريم صلى الله عليه وسلم بعده فى الأمة أفضل من أبى بكر الصديق رضى الله عنه فهو كان خليفته ولم يفعل به شيء من ذلك ولا عمر رضى الله عنه وهو كان أفضل الأمة بعده ثم كذلك عثمان ثم على ثم سائر الصحابة الذين لا أحد أفضل منهم فى الأمة ثم لم يثبت لوأحد منهم من طريق صحيح معروف أن متبركا تبرك به على أحد تلك الوجوه أو نحوها بل اقتصروا فيهم على الاقتداء بالٔافعال والٔاقوال والسير التى اتبعوا فيها النبى كريم صلى الله عليه وسلم فهو اذا اجماع منهم على ترك تلك الأشيائ
”صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ) کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک تبرکات پر اجماع ہے۔ “ [الاعتصام 9-2/8 ]
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشد الرحل الا الي ثلاثة مساجد، المسجدالحرام، ومسجدي هذا، والمسجد الأقصيٰ
”سامان صرف (تبرک کی نیت سے) ان تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد الحرام، میری مسجد (مسجد نبوی ) اور مسجد اقصیٰ۔ ۔ “
[صحيح بخاري: 159/1، ح 1189، صحيح مسلم 247/1، ح 1397 ]
حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
”اگر کوئی ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سامان باندھ کر جانے کی نذر مان لے تو اس پر نذر کا پورا کرنا ضروری نہ ہو گا، اس بات پر ائمہ دین کا اتفاق ہے۔ “ [مجموع الفتاوٰي: 184/27 مختصرا ]
حصول برکت کی خاطر انبیاء و صلحاء کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر بدعت ہے، صحابہ کرام و تابعین عظام نے ایسا نہیں کیا، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
امام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں:
لا تشد الرحال الا الي ثلاثة مساجد، المسجدالحرام، مسجد الرسول، وبيت المقدس
”رخت سفر (برکت حاصل کرنے کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کی طرف باندھا جائے گا، مسجد الحرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس۔ “
[مصنف ابن ابي شيبة ؛ 2/45، وسنده صحيح]

اس تحریر کو اب تک 33 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply