بے سند جرح و تعدیل اور اوکاڑوی کلچر

تحریر : حافظ زبیر علی زئی

سوال : امین اوکاڑوی لکھتے ہیں :
”آج کل راویوں کے حالات کا دارومدار تقریب التہذیب ، تہذیب التہذیب ، خلاصۃ التہذیب ، تذکرۃ الحفاظ ، میزان الاعتدال وغیرہ کی کتابوں پر ہے اور یہ سب کتابیں بے سند ہیں ۔ آٹھویں صدی کا آدمی پہلی صدی کے آدمی کو ثقہ اور ضعیف کہہ رہا ہے اور درمیان میں سات سو سال کی کوئی سند نہیں کیا ان کتابوں کا بھی انکار کردو گے ؟“
[مجموعه رسائل جديد ايڈيشن ۴۴۷/۲ ، اداره خدام احناف لاهور]
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کتابیں بے سند ہیں اور آٹھویں صدی کے آدمی پہلے صدی کے آدمی پر بغیر کسی سند کے جرح کرتے ہیں ؟ وضاحت فرمائیں ۔ اللہ آپ کی زندگی میں برکت دے ۔ آمین ۔
[ ابوجواد شيرزاده همدرد ، ڈو گدره ۔ دير بالا ۔ ۲۴جنوري ۲۰۰۷؁ء]
الجواب :
: مذکورہ مشہور و متواتر اور ثابت شدہ کتابوں میں بعض اقوال بے سند ہیں اور بعض اقوال باسند ہیں ۔ باسند اقوال کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں

➊ احمد بن خلیل بن حرب القومسی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
نسبه أبو حاتم إلى الكذب
”ابوحاتم نے اسے کذب (جھوٹ) کی طرف منسو ب کیا ہے ۔“
[ تقريب التهذيب : ۳۴]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی پیدائش سے صدیوں پہلے امام ابوحاتم رحمہ اللہ الرازی نے فرمایا :
أحمد بن خليل القومسي كذاب
[الجرح و التعديل ج ۲ ص ۵۰ ت ۴۹]

➋ تہذیب التہذیب کے پہلے راوی احمد بن ابراہیم بن خالد الموصلی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقال إبراهيم بن الجنيد عن ابن معين : ثقة صدوق
[ج۱ ص ۹]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ولادت سے صدیوں پہلی والی کتاب سوالات ابن الجنید میں لکھا ہوا ہے کہ یحییٰ بن معین سے حارث النقال اور احمد بن ابراہیم الموصلی کے بارے میں پوچھا: گیا تو انہوں نے فرمایا : ثقتين صدوقين ”دونوں ثقہ صدوق ہیں ۔“
[سوالات ابن الجنيد : ۱۱۴]

➌ خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی کے پہلے راوی احمد بن ابراہیم بن خالد الموصلی کے بارے میں خزرجی (متوفی ۹۲۳؁ھ) نے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ليس بن بأس يه قول بعينهٖ کتاب الجرح و التعدیل میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے ۔
[ج۲ ص ۳۹ ت ۱]

➍ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب تذکرۃ الحفاظ کے شروع میں انہوں نے ایک روایت لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے احادیث کا ایک مجموعہ لکھا تھا جسے بعد میں انہوں نے جلا دیا تھا ۔
[ج ۱ ص ۵ ت ۱]
یہ روایت حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے حاکم نیشاپوری سے مکمل سند و متن کے ساتھ نقل کر کے لکھا ہے :
فهذا لا يصح پس یہ صحیح نہیں ہے ۔
[ تذكرة الحفاظ ج ۱ ص ۵]
تنبیہ :
محمد ذکریا تبلیغی دیو بندی نے اپنی کتاب حکایاتِ صحابہ میں یہی روایت حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی جرح ذکر کئے بغیر نقل کر رکھی ہے ۔
[ص۹۸ ، آٹهواں باب !]

حافظ ذہبی رحمہ اللہ رحمہ الله نے تو سند نقل کر کے جرح کر رکھی ہے اور ذکریا صاحب اس جرح کے ذکر کے بغیر ہی اردو عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں ! ۔

➎ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال کے پہلے راوی ابان بن اسحاق المدنی کے بارے میں ابوالفتح الازدی (مجروح) کی جرح نقل کر کے اسے رد کر دیا اور کہا: اسے عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔
[ج۱ ص ۵ ت ۱]
احمد العجلی رحمہ الله کا قول ثقة تاریخ العجلی میں مذکور ہے ۔
[ص ۵۰ ت ۱۲]

تنبیہ :
میزان الاعتدال میں غلطی کی وجہ سے وثقة أحمد والعجلي چھپ گیا ہے جب کہ صحیح وثقة أحمد العجلي ہے ۔ نیز دیکھئے :
[حاشيه تهذيب الكمال ، تحقيق بشار عواد معروف ج ۲ ص ۶]
معلوم ہوا کہ اوکاڑوی صاحب کا یہ کہنا”اور سب کتابیں بے سند ہیں“غلط اور مردود ہے ۔

تنبیہ بلیغ :
ان مذکورہ کتابوں اور دوسری کتابوں میں جو اقوال و افعال مروی ہیں ان کی تحقیق کرنے کے بعد ہی انہیں بطورِ حجت پیش کرنا چاہئے ۔ ثابت شدہ گواہیوں کو جمع کر کے جمہور قابلِ اعتماد محدثین کی تحقیق کو ہی ترجیح دینی چاہئے ۔

بعض اوقات کسی راوی پر ان کتابوں میں جرح منقول تو ہوتی ہے لیکن اپنے قائل سے باسند صحیح ثابت نہین ہوتی مثلاًً مؤمل بن اسماعیل پر تہذیب الکمال ، تہذیب التہذیب اور میزان الاعتدال میں امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله کی جرح”منکر الحدیث“مروی ہے حالانکہ یہ جرح امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله سے ثابت ہی نہیں ہے ۔ دیکھئے :
[ماهنامه الحديث : ۲۱ ص ۱۹ و اثبات التعديل فى توثيق مؤمل بن اسماعيل]

➏ اقوالِ جرح
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ امین اوکاڑوی کلچر والے لوگ دن رات یہ بے سند جرح مؤمل بن اسماعیل پر فٹ کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں :” اور یہ سب کتابیں بے سند ہیں“! ! ان لوگوں کی یہ حرکت ظلمِ عظیم نہیں تو کیا ہے ؟
(۸ فروری ۱۴۲۷)

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply