بے اختیار خلیفہ کی حقیقت

تحریر:ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی
جناب تنویر اختر صدیقی صاحب کی طرف سے ‘‘خلیفہ والی جماعت’’ کے متعلق ایک سوالنامہ موصول ہوا، چنانچہ اس سوالنامہ کے جوابات سے پہلے چند گزارشات پیش خدمت ہیں تاکہ اس وضاحت سے اس نو وارد فتنہ کو سمجھنے  میں مدد مل سکے۔

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

‘‘باد روابالا عمال فتنا کقطع اللیل المظلم یصبح الرجل مؤمنا و یمسی کافرا اویمسی مؤمنا و یصبح کافرا یبیع دینہ بعرض من الدنیا’’
(نیک)اعمال میں جلدی کرو ان فتنوں کے پیش آنے سے پہلے جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے (کہ اس وقت) آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر ہو جائے گا یا شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ وہ اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کی خاطر بیچ ڈالے گا۔(مسلم ترقیم دارالسلام ح۳۱۳کتاب الایمان، الترمذی ح ۲۱۹۵، مسند احمد ۲؍۳۰۴ ، ۵۲۳، مشکوۃ المصابیح ح ۵۸۸۳، ابو عوانہ ۱؍۵۰)

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فتنوں کے دور میں ایمان کو بچانا اور اسے محفوظ رکھنا ایک مشکل کام ہوگا۔ کیونکہ ایسے فتنے سرگرم عمل ہو جائیں گے جو اَھوَاء (نفسانی خواہشات) کے تابع ہوں گےاور اہواء کے مطابق قرآن و حدیث کا مطلب بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں عقل اور فلسفہ کا سہارا بھی لیں گے اور اس طرح وہ باطل فرقوں کی بھرپور ترجمانی کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے تہتر فرقوں کا ذکر فرمایا جن میں بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جتنی ، اور وہ جنتی (فرقہ) الجماعۃ (اہل حق کی جماعت) ہو گی، اس حدیث کے دوسرے الفاظ یہ ہیں:

‘‘وانہ سیخرج فی امتی اقوام تجاری بھم تلک الاھواء کما یتجاری الکلب لصاحبہ وقال عمر و : الکلب بصاحبہ لا یبقی منہ عرق ولا مفصل الا دخلہ’’میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن میں اہواء(نفسانی خواہشات کی پیروی) ایسے سما جائے گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹنے سے ہڑک کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ (اس حدیث کے راوی ) عمر و بن عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہڑک کی بیماری انسان کی ہر رگ اور جوڑ میں سما جاتی ہے یعنی کوئی رگ اور جوڑ اس سے محفوظ نہیں رہتا۔’’(ابو داؤد کتاب السنۃ ح ۴۵۹۷ ، الصحیحہ ح ۲۰۴، المستدرک ۱؍۱۲۸، مسند احمد ۴؍۱۰۲ ، الدارمی ۲؍۲۴۱)

اس حدیث سےثابت ہوا کہ اس امت میں ایسی جماعتیں اور فرقے پیدا ہو جائیں گے جو اہواء (نفسانی خواہشات ) کے غلام ہوں گے اور یہ خواہشات ان کے رگ و پے میں اس طرح داخل ہو جائیں گی جیسے ہڑک کی بیماری انسان کے رگ و ریشہ میں داخل ہو جاتی ہے ۔ یہ لوگ قران و حدیث کے وہ معنی و مطالب بیان کریں گے جن کا تقاضاان کی نفسانی خواہشات کریں گی، اسی طرح یہ فرقے قرآن و حدیث کے معنی و مطالب کو بگاڑ دیں گے اور اصل دین سے دور ہو جائیں گے اور لوگوں کو باور کروائیں گے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بس وہی قرآن و حدیث ہے اور جو لوگ ان کی آراء سے اختلاف کریں گے انہیں وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج (یا فاسق و فاجر) قرار دیں گے۔

ماضی میں اس کی مثالیں خوارج، روافض، جبریہ، قدریہ، مشبہہ ، معطلہ وغیرہ باطل فرقے ہیں اور موجودہ دور میں بہت سی جماعتیں اسی مشن پر رواں دواں ہیں، مثال کے طور پر منکرین حدیث کے مختلف فرقے، منکرین عذاب قبر، عثمانی برزخی فرقہ، جماعت المسلمین رجسٹرڈ وغیرہ، یہ فرقے بھی قرآن و حدیث میں تحریف کر رہے ہیں اور ان کے خود ساختہ معنی و مطالب بیان کرتے ہیں اور انسانی خواہشات کے بری طرح غلام بن چکے ہیں۔ نفسانی خواہشات کے متعلق قرآن کریم کی بعض آیا ملاحضہ فرمائیں۔

اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ  اِلٰـہَہٗ  ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ  اللّٰہُ  عَلٰی  عِلۡمٍ  وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ  غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ  مِنۡۢ  بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا  تَذَکَّرُوۡنَپھر کیا تم نے اس شخص (کا حال بھی) دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا اور اللہ نے، علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں  اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب کون اسے ہدایت دے گا؟ کیا تم لوگ کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتے۔’’(الجاثیۃ:۲۳)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی خواہشات نفس کا پیروکار بن جائے تو وہ علم کے باوجود گمراہ ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دے گا اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دے گا۔ ایسے شخص کو اللہ کے سوا اب کون ہدایت دے سکتا ہے؟

وَ لَئِنۡ اَتَیۡتَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوۡا قِبۡلَتَکَ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِتَابِعٍ قِبۡلَتَہُمۡ ۚ وَ مَا بَعۡضُہُمۡ  بِتَابِعٍ قِبۡلَۃَ بَعۡضٍ ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ  ۙ اِنَّکَ اِذًا  لَّمِنَ الظّٰلِمِیۡنَ
اور اگر تم نے اس ‘‘العلم’’ کے بعد بھی جو تمہارے پاس آچکا ہے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو تب تمہارا شمار یقیناً ظالموں میں ہو گا۔(البقرۃ:۱۴۵)

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ آپ صرف اس ‘‘العلم’’ یعنی قرآن و حدیث کی پیروی کریں جو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ان لوگوں کی نفسانی خواہشات پر عمل کیا تو اس وقت آپ کا شمار بھی ظالموں میں ہو گا۔ گویا پوری امت کو آگاہ کر دیا گیا کہ قرآن و حدیث کی پیروی ضروری ہے اور نفسانی خواہشات سے دور رہنا بھی ازحد ضروری ہے۔

وَ لَوِ اتَّبَعَ الۡحَقُّ اَہۡوَآءَہُمۡ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ بَلۡ اَتَیۡنٰہُمۡ بِذِکۡرِہِمۡ فَہُمۡ عَنۡ ذِکۡرِہِمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ

اور اگر حق ہی ان کی خواہشات کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز درہم برہم ہو جائے حق تو یہ ہے کہ ہم  نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑنےو الے ہیں۔ [المؤمنون:۷۱]

سیدنا عوف بن مالک ؓ (المتوفی ۸۳ھ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘ستفترق أمتی علی بضع و سبعین فرقۃ اعظمھا فرقۃ قوم یقیسون الأمور برأیھم فیحرمون الحلال و یحللون الحرام’’میری امت ستر سے کچھ اوپر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سب سے زیادہ افتراق کرنے والی وہ قوم ہو گی جو (دینی ) امور میں اپنی رائے کو داخل کرے گی پس حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دے گی۔(المستدرک۴؍۴۳۰ ، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۸؍۵۱، وقال حمدی عبدالمجید السلفی: ومن طریقہ رواہ الخطیب فی الفقیہ و المتفقہ ۱؍۱۷۹، ۱۸۰، ورواہ الخطیب ایضاً فی تاریخ بغداد ۱۳؍۳۱۱۳۰۷، من طرق متعددۃ و رواہ البیھقی فی المدخل ح۳۵۳۴ و ابن عبدالبرفی جامع بیان العلم ۲؍۱۶۳، و ابن حزم فی الرسالۃ الکبریٰ فی ابطال القیاس و البزار ۱۷۲ کشف الاستار وقال فی المجمع ۱؍۱۷۹:‘‘ورجالہ رجال الصحیح’’ و رواہ الحاکم ۴؍۴۳۰ ح ۸۳۲۵، و صححہ علی شرط الشیخین، حاشیہ المعجم الکبیر للطبرانی ۱۸؍۵۰)[وھو حدیث حسن]

اور ان پر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد بالکل صادق آتا ہے۔

‘‘عن عبداللہ بن عمر و بن العاص قال: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: إن اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤوسًا جھالاً فسٗلو فأفتو ا بغیر علم فضلو ا و أضلوا’’عبداللہ بن عمر و بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ علم کو آخری زمانہ میں اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے دل و دماغ سے اس کو نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھائے گا کہ علما(حق) کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے اور ان سے دین کی باتیں پوچھیں گے اور وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔’’(بخاری:۱۰۰، مسلم :۲۶۷ظ وترقیم دارالسلام : ۶۷۹۶)

باطل فرقوں کی ریشہ دوانیاں

اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ کو دین حق دے کر مبعوث فرمایا تاکہ اس دین حق یعنی اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُرِیۡدُوۡنَ  اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ  اِلَّاۤ  اَنۡ  یُّتِمَّ  نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ  کَرِہَ  الۡکٰفِرُوۡنَ﴿﴾ ہُوَ الَّذِیۡۤ  اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ  بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ  الۡمُشۡرِکُوۡنَ
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ کو یہ بات منظور نہیں۔ وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی بری لگے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کر دے خواہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔ (التوبۃ:۳۲ ، ۳۳)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کفار و مشرکیں ، اسلام کے نور کو بجھانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے لیکن وہ اللہ کے دین کو کبھی مٹا نہیں سکتے کیونکہ یہ دین دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے مغلوب ہونے کے لئے نہیں۔
کفار و مشرکین کے علاوہ  ایک تیسرا گروہ جسے منافقین کہا جاتا ہے اس نے بھی اسلام کو نقصان پہنچانے اور مٹانے کے لئے خفیہ پروگرام مرتب کئے اور اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، منافقین نے ہمیشہ آستین کے سانپ کا کردار ادا کیا اور انہوں نے اسلام کو کفار و مشرکین سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا۔ اور اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات تک کو بدلنے کی مکروہ کوششیں کیں اور اسلام کے خلاف ایسی سازشیں کیں کہ جس کی وجہ سے لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا گیا۔ اور ایسی ایسی باتیں مشہور کی گئیں جس کا حقیقت سے کچھ بھی تعلق نہ تھا۔ مثلاً یہ کہ خلافت سیدنا علی ؓ کا حق تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی خلافت کی وصیت فرمادی تھی ۔ لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے خلافت چھین لی تھی اور اسی طرح یہ بات کہ ‘‘ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین)رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے (نعوذ باللہ من ذلک) سوائے تین صحابہ کرام کے اور ظاہر بات ہے  کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی مسلمان نہ رہے تو پھر ان کا پیش کردہ قرآن و حدیث کب درست اور حق ہو سکتا ہے؟ اس طرح ان  منافقین نے شجر اسلام کی جڑیں کاٹنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس فرقہ کے علاوہ ایک دوسرا فرقہ بھی معرض وجود میں آیا جسے خوارج کہا جاتا ہے۔ اس فرقہ نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور قرآن کریم کو ماننے کا زبردست دعویٰ کیا لیکن احادیث رسول کا انکار کر دیا۔ اور توحید کا تو ایسا زبردست نعرہ لگایا کہ انہیں اپنے خود ساختہ نظریات کے علاوہ ہر چیز شرک نظر آنے لگی، اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا اللہ (حکم صرف اللہ کا چلے گا) کا نعرہ بلند کر کے انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی مقدس ہستیوں کو بھی کافر قرار دے ڈالا اور بالخصوص سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ؓ کو کھلم کھلا کافر کہا۔ سیدنا علی ؓ نے ان کے اس استدلال کے متعلق فرمایا: ‘‘ کلمۃ حق أرید بھا باطل’’ (یہ ) کلمہ حق ہے لیکن ان کا ارادہ اس سے باطل ہے۔ (مسلم: ۱۵۷؍۱۰۶۶و ترقیم دارالسلام: ۲۴۶۸)
یعنی انہوں نے اس کا مفہوم غلط اخذ کر لیا ہے اور اسی غلط مفہوم کو وہ دوسروں پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

تکفیری فرقہ خوارج کے خدوخال

اس تکفیری فرقہ کے متعلق نبی ﷺ نے یہ پیشن گوئی فرمائی:
۱:علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ اے لوگو!میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
‘‘یخرج قوم من أمتی یقرء و ن القرآن لیس قراء تکم إلی قراءتھم بشی ٗ ولا صلوٰ تکم إلی
صلوتھم بشیء ولا صیامکم إلی صیامھم بشیي یقرؤن القرآن یحسبون أنہ لھم وھو علیھم لا تجاوز صلوتھم تراقیھم یمرقون من الإسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ’’
میری امت سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن پڑھیں گے ایسا کہ تمہارا قرآن پڑھنا ان کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہ رکھے گا اور نہ تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے میں کچھ اہمیت رکھے گی اور نہ تمہارے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں کچھ حیثیت رکھیں گے وہ قرآن پڑھ کر یہ سمجھیں گے کہ قرآن ان کے لئے حجت ہے جبکہ قرآن ان کے خلاف حجت ہو گا۔ نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانے سے نکلا جاتا ہے۔(مسلم :۱۵۶ ؍۱۰۶۶و ترقیم دارالسلام:۲۴۶۷)

۲:صحیح بخاری کی ایک روایت میں سیدنا ابو سعید الخدری ؓ سے مروی ہے۔
(ذو الخویصرہ کے متعلق نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: )
اس کے جوڑے سے کچھ  لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں حقیر سمجھو گے اور تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے، وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیرہ) نظر نہ آئے گی اور تیر کے دیگر حصوں میں بھی کچھ نظر نہ آئے گا۔ بالکل اسی طرح ان لوگوں پر بھی دین کی کوئی علامت موجود نہ ہو گی۔(صحیح بخاری: ۳۶۱۰)

۳:ایک اور روایت میں ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اور اگر میں ان کو پالوں تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا۔ (صحیح بخاری: ۳۳۴۴)

۴:سیدنا ابوذر غفاری ؓ  کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:
‘‘ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار میں سے نکل جاتا ہے۔’’

‘‘ثم لا یعودون فیہ وھم شر الخلق و الخلیقۃ’’

اور پھر وہ دین میں واپس پلٹ کر نہیں آئیں گے اور وہ ساری مخلوق سے بدتر ہوں گے۔ (مسلم : ۲۴۶۹، ابن ماجہ: ۷۰)

۵: سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

‘‘سیخرج  قوم فی آخر الزمان أحداث الأسنان، سفھاء الأحلام یقولون من خیر قول البریۃ لا یجاوز إیمانھم حناجر ھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ فأینما لقیتموھم فاقتلو ھم فإن فی قتلھم أجراً لمن قتلھم یوم القیامۃ’’
آخری زمانے  میں ایسے لوگ نکلیں گے جو نو عمر، کم عقل(جاہل، بے وقوف) ہوں گے، بات تو سب مخلوق سے اچھی کریں گے (لوگوں کی خیر خواہی و بہتری کی بات کہیں گے)۔ لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانے سے نکل جاتا ہے۔ تم  ان کو جہاں بھی پاؤ قتل کر ڈالو بے شک انکے قتل کرنے والوں کے لئے قیامت کے دن اجر ہے۔(صحیح بخاری کتاب استابۃ المرتدین و المعاندین وقتالھم باب۶، قتل الخوارج و الملحدین ح ۲۹۳۰، کتاب المناقب باب ۲۵، علامات النبوۃ ح ۳۶۱۱، صحیح مسلم ح ۲۴۶۱، مشکاۃ المصابیح ح ۳۵۳۵)

سیدنا ابو برزہ ؓ کی روایت میں بھی یہ الفاظ ہیں:‘‘یخرج فی آخر الزمان قوم کأن ھذا منھم’’آخری زمانہ میں ایک قوم نکلے گی گویا کہ یہ اسی میں سے ہے (جس نے نبی ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا۔)یہ لوگ قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔(النسائی:۴۱۰۸ و إسنادہ حسن)

۶: سیدنا ابن ابی اوفیٰ ؓ کی حدیث میں ہے: ‘الخوارج کلاب النار’’

خوارج جہنم کے کتے ہیں۔(ابن ماجہ ۱۷۳وھو حدیث حسن)

اور ابو امامہ ؓ   کی  حدیث میں بھی اس طرح کے الفاظ مروی ہیں۔ (الترمذی:۳۰۰۰و سندہ حسن ، ابن ماجہ: ۱۷۶، المشکوٰۃ:۳۵۵۴)


تکفیری جماعتیں ہر دور میں پیدا ہوتی رہیں گی

۷:سیدنا ابوبرزہ ؓ  کی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں:

‘‘لا یزالون یخرجون حتی یخرج آخرھم مع المسیح الدجال’’یہ (خارجی، تکفیری) ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے آخری لوگ دجال کے ساتھ نکلیں گے۔(النسائی:۴۱۰۸، مسند احمد۴؍۴۲۱ ، ۴۲۵، المستدرک ۲؍۱۴۸، وقال الأستاذ حافظ زبیر علی زئی: إسنادہ حسن و أخرجہ ابن أبی شیبۃ ۱۰؍۳۲۰ ، ۳۲۱، و أحمد ۴؍۴۲۱، ۴۲۵، من حدیث حماد بن سلمۃ وھو فی السنن الکبریٰ للنسائی ح۳۵۶۶ و للحدیث شواھد؍عمدۃ المساعی فی تخریج أحادیث سنن النسائی رقم ح۴۱۰۸(

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں ان تکفیری جماعتوں کا دعویٰ کتاب اللہ کے ماننے کا ہو گا لیکن اہل اسلام کی دشمنی کی وجہ سے ان پر ایسا وقت بھی آ جائے گا کہ یہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کھلم کھلا کفر(و تکفیر) کے علمبردار بن جائیں گے۔

یہ باطل فرقے مدینہ کے مشرق سے نکلتے رہیں گے

۸:‘‘عن سھل بن حنیف : سمعت النبی ﷺ یذکر الخوارج فقال سمعتہ و أشار بیدہ نحو المشرق: قوم یقرءون القرآن بألسنتھم لا یعدو تراقیھم یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیۃ’’سیدنا سہل بن حنیف ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو خوارج کا ذکر کرتے ہوئے سنا، پس آپ ﷺ کو میں نے فرماتے ہوئے سنا اور آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا: (یعنی مشرق سے ) ایک قوم نکلے گی جو اپنی زبانوں سے قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار میں سے ہو کر نکل جاتا ہے۔(مسلم:۱۰۴۸ و ترقیم دارالسلام:۲۴۷۰)

۹: ‘‘عن سالم عن أبیہ عن النبی ﷺ أنہ قام إلی جنب المنبر فقال: الفتنۃ ھھنا، الفتنۃ ھھنا من حیث یطلع قرن الشیطان أوقال: قرن الشمس’’
سیدناعبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ منبر کے ایک طرف کھڑے ہوئے اور فرمایا فتنہ اس طرف(ادھر) ہے فتنہ اس طرف سے ہے جدھر شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے یا ‘‘ سورج کا سینگ’’ فرمایا۔(صحیح بخاری: ۷۰۹۲، مسلم: ۴۷؍۲۹۰۵و ترقیم دارالسلام: ۷۲۹۴، کتاب الفتن)

شیطان طلوع اور غروب کے وقت اپنا سر سورج کے پاس رکھ دیتا ہے  تاکہ سورج پرستوں کا سجدہ شیطان کے لئے ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ مشرق کی طرف رخ کئے ہوئے تھے۔(بخاری:۷۰۹۳)ایک روایت میں ہے: فتنہ اس طرف سے آئے گا اور آپ ﷺ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا: جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔(مسلم:۵۰ ؍۲۹۰۵و ترقیم دارالسلام: ۷۲۹۷)

مدینہ النبی ﷺ سے مشرق کی طرف عراق ، ایران، پاک و ہند (قادیان، دیوبند اور بریلی)وغیرہ کے علاقے ہیں، عراق سے خوارج ، روافض وغیرہ کے فتنے برآمد ہوئے، اسی طرح تاتاریوں کا فتنہ بھی مشرق سے نکلا، اور اس طرح کے مزید فتنے مشرق کی طرف سے برابر نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ دجال کا فتنہ اور یاجوج ماجوج کا فتنہ بھی یہیں سے برآمد ہوگا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے پندرہویں صدی میں عثمان برزخی اور جماعت المسلمین کے تکفیری فتنے یہیں پاکستان سے برآمد ہوئے اور عثمان برزخی فرقے سے مزین منکرین حدیث کے فرقے نکل رہے ہیں جو کھلم کھلا احادیث اور اسلامی تعلیمات کا انکار کر رہے ہیں اور ان عقائد کی باقاعدہ تبلیغ کر رہے ہیں۔

۱۰: سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ!ہمارے شام میں ہمیں برکت دے ، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: ہمارے نجد میں بھی؟ نبی ﷺ نے پھر فرمایا: اے اللہ ہمارے شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں برکت دے، صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اور ہمارے نجد  میں؟ (صحابی فرماتے ہیں) میرا مان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں (نجد میں) زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ(دجال ) طلوع ہو گا۔(بخاری:۷۰۹۴)

علامہ عینی حنفی شرح صحیح بخاری میں امام خطابی سے نقل کرتے ہیں کہ: ‘‘نجد من جھۃ المشرق، ومن کان بالمدینۃ کان نجدہ بادیۃ العراق و نواحیھا وھی مشرق أھل المدینۃ و أصل نجد ما ارتفع من الأرض’’ نجد سے مراد مشرق کی طرف والا نجد ہے، جو آدمی مدینہ میں ہو تو اس کے لئے عراق اور اس کے اردگرد کا علاقہ نجد ہے وہی مدینہ والوں کا مشرق ہے۔ اصل میں نجد اس زمین کو کہتے ہیں جو بلند ہو۔ (عمدۃ القاری۲۴؍۲۰۰ح۷۰۹۴)

لہذا اس حدیث میں نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ سے بلندی پر واقع ہے اور جیسا کہ اوپر کی احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں نجد سے حجاز کا نجد مراد نہیں ہے۔ کیونکہ فتنوں کی سرز مین کوفہ عراق ہی ہے۔ او رحدیث اور تاریخ کے طالب اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ خارجی و تکفیری فتنوں کا مقام ولادت مشرق کے علاقے ہوں گے اور نبی ﷺ نے ان  پر  فتن مقامات کے لئے دعا کرنے سے بھی اجتناب فرمایا اور وضاحت فرما دی کہ ان علاقوں میں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور سب سے بڑا فتنہ دجال بھی یہیں سے نکلے گا۔

گمراہ کرنے والے امام

۱۱: ‘‘عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ : إنما ّخاف علی ّمتی الّائمۃ المضلین’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی امت پر خوف ہے گمراہ کرنے والے ائمہ(اماموں ، پیشواؤں، راہنماؤں، قائدین) کا (کہ وہ میرے امتیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے) [ابو داؤد: ۴۲۵۴و سندہ صحیح]

۱۲:‘‘عن أبی ھریرۃ یقول: قال رسول اللہ ﷺ یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون، یأتونکم من الأحادیث بمالم تسمعو أنتم ولا آباؤ کم، فإیا کم وإیاھم، لا یضلونکم ولا یفتنونکم’’ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : آخری زمانہ میں دجال (دھوکا دینے والے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے )کذاب(جھوٹ بولنے والے، جان بوجھ کر غلط خبر دینے والے، حق و صحیح بات کو جھٹلانے والے، خلاف حقیقت بات کرنے والے) لوگ پیدا ہوں گے، وہ تمہارے پاس ایسی احادیث(نئی نئی باتیں) لائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے۔ پس تم خود کو ان سے اور ان کو اپنے سے دور رکھنا، تاکہ نہ تو وہ تمہیں گمراہ کر سکیں اور نہ ہی کسی فتنے میں مبتلا کر سکیں۔ (صحیح مسلم: المقدمۃ باب۴، ح ۷ص۱؍۷۸)

یہ حدیث وضاحت کرتی ہے  کہ جیسے جیسے قیامت قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی دنیا دجل و فریب کے ماہرین اور جھوٹے لوگوں سے بھرتی چلی جائے گی اور یہ لوگ اپنی فنکارانہ مہارتوں اور پر فریب اور خوش آئند باتوں سے لوگوں کو نہ صرف فتنے میں مبتلا کریں گے بلکہ گمراہ بھی کر دیں گے اور وہ لوگوں کو باور (ظاہر) کروائیں گے کہ اگر حق و صداقت کسی چیز کا نام ہے تو وہ انہیں کے پاس ہے اور وہی حقیقی مسلم ہیں اور ان کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی مسلم نہیں ہے۔

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (المتوفی ۱۱۰ھ) نے اس ضمن میں بہت ہی عمدہ بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں:‘‘إن ھذا العلم دین فانظرو اعمن تأخذون دینکم’’بے شک یہ (کتاب و سنت کا ) علم، دین ہے پس جب تم اس کو حاصل کرو تو دیکھ لو کہ کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو؟ (صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: ۲۶و سند صحیح)

۱۳:سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے شر(فتنہ) کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:‘‘دعاۃ علی أبواب جھنم من أجابھم إلیھا قذفوہ فیھا، قلت: یا رسول اللہ!صفھم لنا قال:ھم من جلد تنا و یتکلمون بألسنتنا’’کچھ لوگ اس طرح گمراہی پھیلائیں گے کہ گویا وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہیں، اور جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا اسے جہنم میں گرا دیں گے (حذیفہ ؓ  کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !ان لوگوں کی کچھ صفات بیان فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہماری قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں گفتگو کریں گے۔ (صحیح بخاری: ۷۰۸۴، صحیح مسلم: ۱۸۴۷)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہی کی طرف دعوت دینے والے اپنی ہی قوم کے لوگ ہوں گے لیکن تکفیری اور گمراہ فرقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے جہنم کے داعی بن جائیں گے اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی شاہراہ سے ہٹا کر انہیں نفس و شیطان کا بندہ بنا دیں گے۔
سید وقار علی شاہ صاحب جو ایک عرصہ تک جماعت المسلمین کی صف اول کے داعیوں میں سے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دینی شعور عطا فرمایا تو پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں اس جماعت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘ یہ اور اس طرح  کی بہت سی متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر دور میں دین کے نام پر گمراہ  کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور امت مسلمہ کے لئے فتنہ بنتے رہیں گے۔ یہ لوگ بظاہر تو بہت اچھی اور خیر خواہی کی باتیں کریں گے، اپنے عقائد قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن قرآن و حدیث کی غلط تاویلات کر کے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور اس طرح سے امت مسلمہ میں فتنہ ، فساد، انتشار، تعصب، نفرت اور گمراہی پھیال دیں گے۔ بظاہر بہت دین دار، دین کو سمجھنے  اور اس کا علم رکھنے والے نظر آئیں گے اور اسی بنیاد پر لوگوں کی کم علمی اور دین سے محبت و عقیدت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں مرعوب کر کے اپنے جال میں پھانس لیں گے، لیکن دین ان کے حلق سے نیچے بھی نہیں اترا ہو گا یعنی و صحیح طور پر نہ تو  دین ہی پر عمل کر رہے ہوں گے اور نہ ہی انہیں دین کی صحیح سمجھ، شعور، فہم اور معرفت ہو گی۔ ‘‘ (تحقیق مزید ص ۱۰)

تنبیہ: سید وقار علی شاہ صاحب ایک فرقے سے نکل کر دوسرے فرقے میں شامل ہو گئے ہیں۔

موجودہ دور میں دو نوزائدہ فرقے تکفیری میدان میں بہت ہی سرگرم ہیں جن میں سے ایک فرقہ ڈاکٹر مسعود الدین عثمان کا ہے جسے برزخی عثمان فرقہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ عذاب قبر کا سخت منکر ہے لیکن لوگوں کو دھوکا دینے  کے لئے اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ اس فرقہ کے بانی نے جہنم میں روح کے عذاب والی اور جنت میں روح کی راحت و آرام والی احادیث کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت و جہنم ہی اصل قبریں ہوتی ہیں اور احادیث میں قبروں میں عذاب کی جو روایات آئی ہیں ان کی انتہائی بھونڈی تاویلات کر کے ان کا انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق قبروں میں عذاب و ثواب کو مان لینے سے قبر پرستی کے نظریئے کو تقویت ملتی ہے، جس کی تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب‘‘ الدین الخالص’’ حصہ اول و الحمد للہ۔ دوسرا فرقہ جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) ہے جس کے بانی مسعود احمد بی ایس سی ہیں، اور اس کی تفصیل ہماری کتابوں ُُ الفرقۃ السجدیدۃ’’ اور ‘‘ خلاصۃ الفرقۃ الجدیدۃ ’’ میں موجود ہے اور تیسرا فرقہ خلیفہ والی جماعت المسلمین کا ہے۔ اس جماعت کے متعلق ہم یہاں زکر کریں گے۔

جیسے جیسے قیامت قریب آتی جا رہی ہے ویسے ویسے امت مسلمہ میں مختلف فتنوں اور فرقوں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے اور ہر فرقہ اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کو درست ثابت کرنے کے درپے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جماعت المسلمین کے نام سے مسعود احمد بی ایس سی نے ایک جدید فرقہ کی بنیاد رکھی اور اس فرقہ جدیدہ کا نام اس نے جماعت المسلمین  رکھا۔ موصوف کےنزدیک کوئی شخص چاہے کتنا ہی صحیح العقیدہ اور نیک اعمال کا پیکر کیوں نہ ہو نیز وہ کسی جماعت یا فرقہ میں بھی شامل نہ ہو اور صرف قرآن و حدیث ہی پر عامل ہو لیکن اگر اس نے موصوف کے ہاتھ پر بیعت کر کے جماعت المسلمین میں شمولیت اختیار نہیں کی تو وہ شخص موصوف کے نزدیک غیر مسلم ہے۔ مسلم اور جماعت المسلمین کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو کہ موصوف کی جماعت میں شامل ہیں ۔ موصوف نے بھی خلفا اور حکام کے سلسلہ میں آئی ہوئی احادیث کو (جن میں بیعت اور امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے) اپنی خود ساختہ امارت اور جماعت پر چسپاں کر دیا ہے۔ اور اس طرح وہ اپنے چاہنے والوں کے بے تاج بادشاہ بن بیٹھے ۔ ابھی امت مسلمہ اس فتنہ سے دو چار ہی تھی کہ اس نوعیت کا ایک دوسرا فتنہ ظہور پذیر ہوا۔ اس جدید فرقہ  نے بھی اپنے فرقہ کا نام جماعت المسلمین رکھا۔ البتہ انہوں نے اپنے امیر کو امیر یا امام کے بجائے خلیفہ قرار دیا اور خلافت کے سلسلہ کی تمام احادیث کو اس خود ساختہ خلیفہ پر چسپاں کر دیا۔ خلیفہ صاحب تو اب ٹونی بلیئر کے دیس میں مقیم ہیں اور وہاں سے وہ اپنی خلافت کا جال پاکستان میں پھیلا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح وہ تمام اہل اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیں گے اور سب کو متحد کر دیں گے اور اس طرح اختلاف و افتراق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اگرچہ مخلص مسلمانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان متحد و متفق ہو جائیں۔ ہر جماعت بھی یہ دعویٰ کرتی چلی آئی ہے کہ ووہ اپنے جھنڈے تلے تمام اہل اسلام کو متحد کریں گے۔ خلیفہ والی جماعت نے جس طریقہ سے اپنےخلیفہ کا انتخاب کیا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کا سلسلہ جاری کیا ہے یہ ایک انوکھی اور عجیب سی بات لگتی ہے کیونکہ دنیا کی تاریخ میں آج تک ایسا کوئی خلیفہ نہیں گزرا جو کہ مسند خلافت کے بغیر ہی خلیفہ بن گیا ہو اور اس کے لئے خلافت کی بیعت بھی لی جا رہی ہو۔ اس سلسلہ میں انہیں خلفائے راشدین کی طرف دیکھنا ہو گا اس لئے کہ جب خلفائے راشدین کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تو وہ فوری طور پر تخت خلاف پر بھی براجمان ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
‘‘أو صیکم بتقوی اللہ و السمع و الطاعۃ وإن کان عبداً حبشیاً فإنہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافاً کثیراً فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکو ابھا وعضو ا علیھا بالنواجذ و إیاکم و محدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ [رواہ أحمد ](۴ ؍۱۲۶ ، ۱۲۷) و أبوداود(۴۶۰۷) و الترمذی(۲۶۷۶)و ابن ماجۃ (۴۳) بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الإیمان باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ :۱۶۵ وقال الترمذٰ: حسن صحیح و صححہ ابن حبان: موارد ۱۰۲ و الحاکم ۱؍۹۵ ، ۹۶ ووافقہ الذھبی، وقال الألبانی و حافظ زبیر علی زئی: سندہ صحیح]’
 میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقویٰ کی اور (امیر کی بات) سننے ارو اطاعت کرنے کی اگرچہ تمہیں حبشی غلام کی بھی اطاعت کرنی پڑے، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا تو وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا تو ایسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرنا۔ اسی کے ساتھ وابستہ ہو جانا اور اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رہنا ار تم (دین میں) نئی نئی باتوں اور کاموں سے بچتے رہنا اس لئے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔

اس حدیث سے کئی چیزیں واضح ہو گئیں:

۱: رسول اللہ ﷺ کے بعد امت مسلمہ میں بہت زیادہ اختلافات پیدا ہو ں گے۔
۲: مسلمانوں کے لئے اختلاف کے دور میں بھی رسول اللہ ﷺ کی سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ ان اختلافات کا سد باب ہو سکے۔ اب جس طرح خلفائے راشدین کی بیعت لی گئی اور بیعت کے نتیجے میں وہ مسند خلافت پر براجمان ہوئے اسی طرح آج تمام مسلما نوں کوبھی خلفائے راشدین کی سنت کے مطابق ہی کسی خلیفہ کی بیعت کرنی ہو گی۔
۳: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دین میں نئے کاموں کا اختیار کرنے سے منع فرما دیا ہے کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ لہذا اب جس طرح کی بیعت اہل خلافت اپنے خلیفہ کے لئے لے رہے ہیں یہ بدعت اور نیا نرالا کام ہے اور لوگوں کو گمراہی (بدعت) کی طرف دعوت دینے کے مترادف ہے۔

اس جماعت کے امیر ابو عیسیٰ محمد الرفاعی صاحب اس وقت انگلینڈ میں عیسائیوں کی پناہ میں ہیں اور وہ لندن کے قوانین کے مطابق وہاں بود و باش اختیار کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں ان کے لئے بیعت خلافت کا فریضہ انجام دیا جار ہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کے لئے اولو الامر کے الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں۔ اولولامر کے معنی ہیں امر والا یعنی جس کا آرڈر اور فرمان مانا جاتا ہو اور یہاں معاملہ الٹ ہے یعنی خلیفہ صاحب خود مامور و محکوم ہے۔ اہل خلافت اپنے خود ساختہ خلیفہ کے لئے وہ تمام احادیث پیش کرتے ہیں کہ جس میں خلیفہ و امیر کی بیعت کرنے اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عربی کا ایک محاورہ ہے کہ پہلے عرش (تخت) ثابت کریں تو پھر اس پر نقش و نگار کی بات کریں۔ عرش کا کوئی ثبوت ہی نہیں اور آپ اس پر نقش و نگار بنانے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ پہلے آپ یہ تو ثابت کریں کہ یہ خلیفہ واقع اصلی خلیفہ ہے؟ اور جب اصلی ثابت ہو جائے گا تو پھر ان تمام احادیث کا اطلاق بھی اس کی ذات پر ہو سکے گا۔

ہم اہل خلافت سے دلیل مانگتے ہیں کہ ایسے خلیفہ کے کے لئے آپ کے پاس آخر ایسی کونسی دلیل ہے کہ  جس کی بنا پر آپ نے امت مسلمہ میں ا یک نیا فرقہ کھڑ اکر دیا ہے اگراس سلسلے میں کوئی واضح اور صریح دلیل موجود ہے تو اسے پیش کریں کیونکہ اصولی بات یہی ہے کہ جو شخص کسی بات کا دعویٰ کرتا ہے دلیل اس کے ذمے ہوتی ہے لیکن ان کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ خلیفہ کے لئے خلافت کی شرط لگانا ہی درست نہیں ہے اور یہ ایسی شرط ہے جو کتاب اللہ میں نہیں ہے اور حدیث میں ایسی شرط کو جو کتاب اللہ میں موجود نہ ہو باطل قرار دیا گیا ہے۔(بخاری:۲۷۳۵)لیکن ہماراسوال ہنوز جواب طلب ہے اور  وہ یہ کہ ہمیں قرآن و حدیث سے کسی ایسے خلیفہ کا اتا پتا بتایا جائے جو خلافت کے بغیر ہی خلیفہ ہو اور زمین کے کسی بھی ٹکڑے پر اس کی حکومت و خلافت قائم نہ ہو۔ بلکہ جو اپنے محلے میں بھی قائم شدہ کسی برائی کے اڈے کو مٹانے کی طاقت نہ رکھتاہو۔ کیا خلافت کی عدم موجودگی کے باوجود بھی کوئی خلیفہ بن سکتا ہے؟ اور اہل خلافت کا یہ کہنا کہ خلیفہ کے لئے خلافت کی شرط درست نہیں ہے۔ تو یہ بالکل ایسی بات ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ عالم کے لئے علم کی شرط لگانا درست نہیں ہے ، حالانکہ اس نا سمجھ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ عالم اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے پاس علم ہو۔ لوہار اسے کہتے ہیں  جو لوہے کا کام کرتا ہو۔ بڑھئی اسے کہتے ہیں جو لکڑی کا کام جانتا ہو۔ الغرض جو شخص جس کام پر مامور ہے اسی کی مناسبت سے اس کا نام لیا جاتا ہے۔ مثلاً جج، وکیل، ڈاکٹر، وزیر، صدر، ٹیچر، پروفیسر وغیرہ۔

لہذا خلیفہ بھی اس شخصیت کا نام ہے جو کہ حکومت  و خلافت رکھتا ہو۔ جو شخص ڈاکٹر نہ ہو اور لوگوں سے کہے کہ مجھے ڈاکٹر کہو تو ظاہر ہے کہ اس شخص کو بچے پتھر ماریں گے اور آوازیں بھی کسیں گے کہ پاگل ہے، پاگل ہے۔ خلیفہ بھی ایک خاص اصطلاح ہے اور اہل علم اس اصطلاح سے اچھی طرح واقف ہیں بلکہ خلیفہ ایک ایسا لفظ ہے کہ عوام الناس بھی اس کی حاقیقت سے آگاہ ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ نا سمجھ اور بھولے بھالے لوگوں کو خلیفہ صاحب نے اپنے پیچھے لگا لیا ہے اور وہ ان کے پیچھے نا سمجھی میں خلیفہ، خلیفہ کی صدائیں لگا رہے ہیں اور خلیفہ صاحب دل میں خوش ہو رہے ہوں گے کہ اب واقعی میں خلیفہ بن گیا۔

قاضی ابو یعلیٰ محمد بن الحسین الفراء (متوفی ۴۵۸ھ) فرماتے ہیں کہ:‘‘ و الثالث: أن یکون قیماً بأ مر الحرب و السیاسۃ و اقامۃ الحدود، لا تلحقہ رأفۃ فی ذلک، والذب عن الأمۃ’’ امام (خلیفہ) ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ وہ جہاد ، سیاست اور اقامت حدود پر سربراہ ہو۔ اس میں اور امت کے دفاع میں اسے نرمی لاحق نہ ہو(الاحکام السلطانیۃ ص ۲۲ دوسرا نسخہ ص ۲۰)

 قاضی ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی (متوفی ۴۵۰ھ) نے امامت (خلافت) کی چھٹی شرطیہ بیان فرمائی: ‘الشجاعۃ و النجدۃ المؤدیۃ إلی حمایۃ البیضۃ وجھاد العدو’’ شجاعت و دلیری جس سے ملک کی حفاظت اور دشمن سے جہاد کیا جائے (الاحکام السلطانیۃ ص ۶، اردو مترجم ص ۵) ان شرائط کی مخالفت کسی عالم سے ثابت نہیں لہذا معلوم ہوا کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے کہ خلیفہ کے لئے خلافت و اقتدار کا ہونا لازمی ہے۔]

بے اختیار اور خود ساختہ خلیفہ کے عالم وجود میں آنے کے لئے کچھ دلائل کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی شخص جب اپنے لئے کوئی کام ڈھونڈ نکالتا ہے تو اس کے کچھ نہ کچھ دلائل بھی اس کے پاس موجود ہوتے ہیں اور وقت آنے پر وہ ان دلائل کا ذکر بھی کرتا ہے تاکہ ان دلائل کے ذریعے اپنے پیرکاروں اور مریدوں کو مطمئن کر سکے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں کوئی واضح اور صریح دلیل تو اہل خلافت کے پاس نہیں ہے لیکن بقول شاعر

دل کے بہلانے کو۔۔۔ یہ خیال اچھا ہے۔

لہذا اہل خلافت کے ایک دو شبہات کا ذکر کر کے ہم اس کا جواب عرض کرتے ہیں تاکہ بعض لوگوں کو اس سلسلے میں جو شبہات ہوئے ہیں ان کا زالہ کیا جائے۔

پہلا شبہ:

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

‘‘کانت بنو إسرائیل تسو سھم الأنبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وإنہ لانبی بعدی و سیکون خلفاء فیکثرون، قالو۱: فما تأمرنا؟ قال: فواببیعہ الأول فالأول وأعطو ھم حقھم فإن اللہ سائلھم عما استر عاھم’’
بنی اسرائیل کے انبیا ان کی سیاست کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی اس کی جگہ پر آ جاتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور وہ بہت ہوں گے۔ لوگوں نے عرض کیا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا جس خلیفہ سے تم نے پہلے بیعت کر لی ہے اس سے وفاداری کرو۔ تم انہیں ان کا حق دو ۔ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوچھے گا۔(صحیح بخاری :۳۴۵۵ و صحیح مسلم: ۱۸۴۲)

اس حدیث سے کسی بے اختیار خلیفہ کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوتا اور ایسے کسی خلیفہ کا اس میں اشارہ تک موجود نہیں ہے، البتہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی امت میں لگاتار اور سلسلہ وار خلفاء آتے رہیں گے یعنی ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا۔ الغرض اس طرح خلفاء کا ایک سلسلہ قائم رہے گا۔ خلفائے راشدین۔ خلفائے بنو امیہ، خلفائے بنو عباس یہاں تک  کہ انتہائی کمزور اور لاغر خلافت جس نے ترکی میں اس وقت دم توڑ دیا کہ جب مصطفیٰ کمال ترکی( سیکولر) نے اقتدار میں آکر اس بچی کھچی خلافت کا صفایا کر دیا۔ اب دنیا میں خلافت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔ قرب قیامت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے ایک خلیفہ آئے گا جسے امام مہدی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے بعد خود عیسیٰ علیہ السلام  ہی امت مسلمہ کے خلیفہ بن جائیں گے۔

سیدنا معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

‘‘إن ھذا الأمر فی قریش لا یعادیھم أحد إلا کبہ اللہ علی وجھہ ما أقامو ا الدین’’
یہ امر خلافت قریش رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش ح ۳۵۰۰ ، کتاب الاحکام ح ۷۱۳۹)

سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سیدنا جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:‘‘(میرے بعد) بارہ امرا ہوں گے ۔’’(بخاری ح ۷۲۲۲)

اور ان صحابی ؓ سے دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

‘‘دین اسلام بارہ خلفاء تک غالب رہے گا اور یہ سب قریش میں سے ہوں گے’ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ ح۴۷۰۸ ، ۴۷۰۹)

ان احادیث سے واضح ہوا کہ امر خلافت قریش میں رہے گا چاہے وہ دو ہی آدمی باقی رہ جائیں جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے۔ دوسری حدیث  سے واضح ہوا کہ بارہ خلفاء تک دین اسلام غالب اور مستحکم رہے گا۔ ان خلفاء کے بعد پھر آہستہ آہستہ دین اسلام کمزور ہوتا چلا جائے گا اور مختلف فتنے، بدعات اور گروہ بندیاں اسے کمزور کرتی چلی جائیں گی۔

ایک حدیث میں ہے:‘‘اس امت کی عافیت پہلے حصہ میں رکھی گئی ہے۔’’ (مسلم کتاب الامارۃ ح ۴۷۷۶)

سیدنا نعمان بن بشیر ؓ سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘تکون النبوۃ فیکم ماشاء اللہ أن تکون ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ فتکون ماشا ء اللہ أن تکون ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا ثم تکون ملکاً عاضاً، فیکون ماشاء اللہ أن یکون ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا ثم تکون ملکاً جبریۃ فتکون ماشا ء اللہ أن تکون ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا ثم تکون خلافۃ علی منھاج نبوۃ ثم سکت’’تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی۔ پھر خلافت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی (یعنی جس میں بعض لوگ بعض پر زیادتی اور ظلم کریں گے) پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے قائم رکھے گا پھر اس کو بھی  اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا اور اس کے بعد (دوبارہ ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی (جب امام مہدی اور پھر عیسیٰ علیہ السلام کا دور آئے گا) اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد۴؍۲۷۳، و البیہقی فی دلائل النبوۃ ۶؍۴۹۱، الموسوعۃ ۳۰؍۳۵۵، مجمع الزوائد ۵؍۱۸۸، مشکوٰۃ ، ح ۵۳۷۸، صحیحۃ ۵، وقال الہیثمی: رجالہ ثقات و قال الالبانی و شعیب الارنووط وجماعۃ: ‘‘حسن’’ وقال الحافظ زبیر علی زئی:‘‘ صحیح’’)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ خلافت تک رخصت ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے اور اب غالباً تکبر اور غلبہ کی حکمرانی کا دور ہے۔ اہل ایمان عیسیٰ علیہ السلام کے اس دور کے آنے کے منتظر ہیں کہ جن کے دور میں خلافۃ علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ اگر خلیفہ صاحب امام مہدی بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ امام مہدی کی کچھ مخصوص علامات اور ان کے دور  کے  کچھ ایسے مخصوص حالات ہیں کہ جن سے ان کی شناخت بآسانی ہو جائے گی۔ مثلاً دجال کا ظہور ہو گا وغیرہ۔


ایک حدیث میں خلافت (خلافت علی منہاج النبوۃ) کو تیس سال میں محدود کیا گیا ہے۔

سیدنا سفینہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
‘‘الخلافۃ ثلٰثون سنۃً ثم یکون ملکا ثم یقول سفینۃ: امسک خلافۃ أبی بکر سنتین و خلافۃ عمر عشرۃ و عثمان اثنتی عشرۃ و علی ستۃ’’
نبوت کی خلافت تیس برس تک رہے گی، پھر اللہ جس کو چاہے گا، سلطنت دے گا، سفینہ نے بیان کیا کہ اب تم گن لو، ابو بکر کی خلافت دو برس اور عمر کی دس برس اور عثمان کی بارہ برس اور علی کی چھ برس۔
[مسند احمد(۵؍۲۲۰ ، ۲۲۱) ترمذی(۲۲۲۶وقال: ھذا حدیث حسن) ابو داؤد (۴۶۴۶ ، ۴۶۴۷)مشکوٰۃ (۵۳۹۵) وقال الالبانی و حافظ زبیر علی زئی: و إسنادہ حسن، مستدرک (۳؍۷۱ ، ۱۴۵) الطبرانی (۷؍۹۸) شرح السنۃ (۱۴؍۷۵)]

تسوسھم الانبیاء  کی حدیث کا یہ مطلب بیان کیا جا رہا ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی خلفا ہوں گے اور ان کی بیعت کی جائے گی۔ چنانچہ جماعت الخلیفۃ کے پاکستان میں نئے امیر وقار علی شاہ نے کراچی میں ایک مناظرہ کے دوران اس حدیث کی یوں وضاحت کی۔

‘‘خلفاء کثرت کے ساتھ ہوں گے اور ایک ہی وقت میں کئی خلفاء کی بیعت ہو سکتی ہے ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کس خلیفہ کو ہم نے ترجیح دینی ہے یہاں معاملہ طاقت و اقتدار کا نہیں ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی خلفاء کے ہاتھ پر بیعت ہو چکی ہے تو ہم نے کس خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرنی ہے۔’’

حالانکہ اس حدیث کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے شاید ان حضرات کو لفظ کثرت سے دھوکا لگا ہے۔ اس حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مسلسل اور یکے بعد دیگرے خلفاء آتے رہیں گے۔ اس لئے ایک ہی وقت میں کئی خلفاء نہیں ہو سکتے۔ اگر موصوف کی جماعت میں بھی کئی خلفاء کھڑے ہو جائیں تو ان کے لئے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ وقار صاحب کے سابق امیر جماعت المسلمین (مسعود احمد صاحب) نے اس حدیث کا ترجمہ یوں کیا ہے:

‘‘بنی اسرائیل میں سیاست کے فرائض انبیاء انجام دیا کرتے تھے (یعنی وہ نبی بھی ہوتے تھے اور حکمراں بھی) [حالانکہ تمام انبیائے کرام حکمران نہیں تھے۔ ابو جابر] جب کبھی کسی نبی کا انتقال ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی مبعوث ہو جاتا لیکن میرے بعد یقیناً کوئی نبی نہیں بنے گا البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔’’ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا‘‘ آپ ہمیں (اس سلسلہ میں) کیا حکم دیتے ہیں’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ پہلے (خلیفہ) کی بیعت کو پورا کرو پھر یکے بعد دیگرے ان کی بیعت پوری کرتے رہو ان کا حق ان کو ادا کرتے رہو(یعنی تم پر ان کی اطاعت فرض ہے لہذا ان کی اطاعت کرتے رہو) ان کا جو فریضہ ہے اللہ ان سے اس کی بابت باز پرس کرے گا’’ (یعنی تمہیں ان کی کسی کوتاہی کو بہانہ بنا کر اطاعت سے روگردانی نہیں کرنی چاہیئے’’)

آگے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں:

‘‘دوسری بات جس کی خبر اس حدیث میں دی گئی ہے یہ ہے کہ یہ خلفاء دو چار نہیں ہوں گے۔ بلکہ کثرت سے ہوں گے۔ ان خلفا کا سلسلہ درازایک عرصہ تک جاری رہا اور اقصائے عالم اسلام کو اسلام کے زریں اصول اور تابناک قوانین سے منور کرتا رہا۔ اس سلسلہ زریں کی درازی خلفاء بنو امیہ سے بھی بہت آگے تک چلی گئی ہے۔’’(صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۲۵۸ ، ۶۵۹)

اسلامی خلافت کا اصول  یہ ہے کہ ایک خلیفہ کی بیعت منعقد ہونے کے بعد (جسے اہل خلافت پہلی بیعت کا حامل خلیفہ قرار دیتے ہیں) اگر کوئی دوسرا شخص بھی خلافت کا دعویٰ کر لے تو اسے قتل کر دیا جائےگا۔ کیونکہ جب خلیفہ کا انعقاد ہو چکا تو کسی دوسرے شخص کا دعویٰ خلافت کرنا ہی غلط اور بغاوت کے زمرے میں شامل ہے۔ جس خلیفہ سے پہلے بیعت ہو چکی اسی کو قائم رکھنا چاہیے۔ اور یہی اس حدیث کا مطلب ہے۔

۱: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘ إذا ابو یع للخلیفتین فاقتلو الآخر منھما’’
جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے آخر والے کو قتل کردو۔ (مسلم: ۴۷۹۹، مشکوٰۃ۲؍۱۰۸۸)

۲:سیدنا عرفجہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ  میں  نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
‘‘ جو شخص تمہارے پاس آئے اور حالت یہ ہو کہ تم سب ایک شخص (خلیفہ) پر متحد ہو اور وہ تمہارے اتحاد کو توڑنے کا ارادہ رکھتا ہو یا تمہاری جماعت کو متفرق کر دینا چاہتا ہو تو تم اس کو قتل کر دو۔’’ (صحیح مسلم:۱۸۵۲)

۳: دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
‘‘عنقریب طرح طرح کے شر و فسادات رونما ہوں گے پس جو شخص اس امت کے اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرے جب کہ وہ (ایک خلیفہ پر ) مجتمع ہو  چکی ہو تو اسے تلوار سے قتل کر دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔’’ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ ح ۴۷۹۸ ، ۴۷۹۶)

سیدنا عبداللہ بن عمر و  بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘جس شخص نے امام سے خلوص نیت کے ساتھ بیعت کر لی حتی المقدور اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلے میں (خلافت کا دعویٰ لے کر ) آ جائے تو اس کی گردن ماردو ۔ ’’ (مسلم: ۴۷۷۶)

اہل خلافت نے خلیفہ کے لئے چھ شرائط کا ذکر بھی کیا ہے یعنی (۱)ایمان(۲)مرد ہونا(۳)قریشی ہونا (۴)عاقل و بالغ ہونا(۵)خلافت کی خواہش سے بے نیاز(۶) پہلی بیعت کا حامل ہونا۔

یہ تمام شرائط اپنی جگہ درست ہیں لیکن اصل بنیادی بات کو عبدالرزاق صاحب آف اہل  خلافت بھول ہی گئے۔ اصل چیز ہے مسند خلافت کہ جس پر خلیفہ صاحب کو براجمان ہونا ہے یہ خلافت کہاں ہے؟ خلیفہ صاحب نے کس ملک کا خلیفہ بننے کا ارادہ کر رکھا ہے؟ ملک نہیں تو کم از کم کچھ تھوڑا بہت علاقہ یا کوئی جگہ لے کر وہاں اپنی خلافت کا اعلان کر دیں۔ جب منزل مقصود ہی کا تعین نہیں ہوا تو سواری کیا فضائوں میں چکر کاٹتی رہے گی؟ اگر کوئی شخص کسی چیز کا مالک ہوئے بغیر ہی اس کی ملکیت کا دعویٰ کر دے تو یہ اس کی دروغ گوئی اور کذب بیانی ہو گی اور ایسے انسان کو کذاب سمجھا جائے گا۔

۱:نبی کو جب تک نبوت نہیں ملی اس نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا۔
۲:کوئی شخص نکاح سے پہلے  اپنے آپ کو شوہر نہیں کہتا۔
۳:کسی شخص نے کوئی مکان، کوٹھی یا جائیداد ہی نہیں خریدی تو وہ خریداری سے پہلے ان چیزوں کا مالک نہیں کہلائے گا۔ اسی طرح جس شخص کے پاس خلافت نہیں ہے تو وہ بھی ہرگز خلیفہ نہیں ہے۔ جس طرح ڈاکٹری کی ڈگری کے بغیر کوئی ڈاکٹر، انجینئرنگ کی سند کے بغیر کوئی انجینئر اور علم کے بغیر کوئی شخص عالم نہیں کہلا سکتا۔ خلافت کی عدم موجودگی میں خلیفہ ہونے کے دعویٰ کی دیوانے کی بڑ سے زیادہ حقیقت نہیں اور پھر اس نام نہاد خلافت کے لئے بیعت کا ڈراما رچانا ظلمات بعضھا فوق بعض کا مصداق لگتاہے۔  اس کے بجائے خلیفہ صاحب یہ اشتہار بنا لیں:‘‘خلافت کا امیدوار’’ تو یہ انتہائی مناسب قدم ہو گا لیکن اس کے لئے بھرپور تحریک چلانی ہو گی۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کریں کہ کس ملک یا کس علاقہ میں خلافت کے امیدوار ہیں؟ آج کل بہت سے علاقے متنازعہ ہیں وہاں بھی یہ تحریک چلائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک آسان صورت یہ بھی ہے کہ خلیفہ صاحب اپنا نام تبدیل کر کے خلیفہ رکھ لیں اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی بچ جائے گی۔ ایک دنیا آپ کو خلیفہ کے نام سے یاد کرنے لگے گی اور اس طرح خلیفہ ہونے کی کچھ نہ کچھ آرزو پوری ہو ہی جائے گی۔ کیونکہ آج کل لوگ نام ہی کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں جیسے مسعود احمد صاحب نے اپنی  جماعت کا نام جماعت المسلمین رکھا اور دوسرے تمام مسلمانوں کوغیر مسلم قرار دے ڈالا گویا اس طرح نام رکھ کر وہ بلاشرکت غیرے اسلام کے واحد(اکیلے) ٹھیکے دار بن گئے۔

خلیفہ طاقت و اقتدار کا مالک ہوتا ہے

یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ خلیفہ کے لئے طاقت و اقتدار کی شرط لگانا درست نہیں  ہے اس لئے کہ خلیفہ طاقت و اقتدار کے بغیر بھی خلیفہ ہو سکتا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ‘‘ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ’’ غور فرمائیے کہ کس قدر جہالت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ اگر کسی خانقاہ میں کسی گدی نشین خلیفہ کی بات آپ کر رہے ہیں تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اس خلیفہ کے لئے طاقت و اقتدار شرط نہیں ہے۔ لیکن جس خلیفہ نے  دنیا میں اسلام  کو نافذ کرنا ہے اور اللہ کی زمین میں حق کے پرچم کو بلند کرنا ہے وہ طاقت اور اقتدار کے بغیر آخر کیسے خلیفہ بن سکتا ہے۔ اس سلسلہ  کے بعض دلائل ملاحظہ فرمائیے:

۱: سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘إنما الإمام جنۃ یقاتل من ورائہ ویتقی بہ فإن أمر بتقوی اللہ وعدل فإن لہ بذلک أجراً وإن قال بغیرہ فإن علیہ منہ’’
امام (خلیفہ) ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے (یعنی سربراہی اور ماتحتی میں دشمنوں سے ) جنگ کی جاتی ہے اور جس کی نگرانی میں امن و عافیت حاصل کی جاتی ہے پس جو خلیفہ اللہ سے ڈر کر اس کے حکم کے مطابق حکمرانی کرے اور انصاف سے کام لے اس کو اس کے سبب اجر ملے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا گناہ اس پر ہو گا۔
[بخاری:۲۹۵۷ ، مسلم ۴۷۷۳]

یہ حدیث بالکل واضح کر رہی ہے کہ طاقت و اقتدار کے بغیر خلیفہ کا کوئی تصور ہی اسلام میں موجود نہیں ہے بلکہ خلیفہ کا مطلب ہی طاقت و اقتدار ہے۔ خلیفہ اور امام ڈھال کی مانن ہوتا ہے کہ جس کی پشت پناہی میں جہاد کیا جاتا ہے اور یہ چیز طاقت و اقتدار کے بغیر ناممکن ہے۔
‘‘وَعَدَ  اللّٰہُ  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ  الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ  اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا  یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ  کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡفٰسِقُوۡنَ’’
اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وعدہ کر لیا ہے کہ انہیں زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا کی تھی اور ان کے اس دین کو جس کو اللہ نے ان کے لئے پسند کر لیا ہے مستحکم کر دے گا اور خوف کے بعد ان کو امن نصیب فرمائے گا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو صرف میری ہی  عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو شخص اس (خوشخبری) کے بعد بھی کفر کرے تو  ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔[النور:۵۵]

اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو خلافت دینے کا وعدہ فرمایا اور اہل خلافت اللہ تعالیٰ کے قانون کو زمین پر نافذ کریں گے اور یہ طاقت و اقتدار کے بغیر نا ممکن ہے معلوم ہوا کہ طاقت و اقتدار کے بغیر خلافت کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس امت سے پہلے آئے ہوئے لوگوں کی خلافت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ پہلے لوگوں ہی سے سیدنا داؤد علیہ السلام کا ذکر ملاحظہ فرمائیں:

‘‘یٰدَاوٗدُ  اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ’’
اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا لیا لہذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو(یا ان پر حکومت کرو) اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔(ص:۲۶)

دوسرے مقام پر فرمایا:
‘‘وَ شَدَدۡنَا مُلۡکَہٗ  ’’
اور ہم نے اس کی سلطنت و حکومت مضبوط کر دی تھی۔۔۔۔(ص:۲۰)

تیسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

فَہَزَمُوۡہُمۡ  بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ  الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ
اور داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے بادشاہی اور حکمت عطا کی اور اس علم ہی سے اس کو سکھایا جس سے وہ چاہتا ہے۔(البقرۃ:۲۵۱)

داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے طالوت کے بعد بادشاہت و خلافت سے نوازا۔ جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ لیکن خلیفہ والی جماعت کے پاکستان میں مقرر کردہ امیر وقار علی شاہ صاحب نے مناظرہ کے دوران یہ عجیب نکتہ بیان کیا کہ جالوت کے قتل کے بعد طالوت کو بادشاہ بنایا گیا جس کا اعلان اس آیت میں کیا گیا ہے حالانکہ طالوت کی بادشاہت کا اعلان جہاد سے پہلے کر دیا گیا تھا اور انہیں بادشاہ بنا دیا گیا تھا:

وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ  اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ بَعَثَ لَکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِکًا ؕ
اور ان (بنی اسرائیل) کےک ن بی نے ان کو کہا  اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔(البقرہ: ۲۴۷)

معلوم نہیں کہ وقار صاحب نے اس مناظرہ کے دوران اس قدر جہالت کا مظاہرہ کیوں کیا؟ کیونکہ وہ اپنی اس بات پر مسلسل مصر رہے اور داؤد علیہ السلام کی خلافت کے ذکر کو طالوت پر چسپاں کرتے رہے۔ موصوف نے سابقہ جماعت المسلمین پر چند انتہائی اہم کتب تحریر کی ہیں۔ (۱)جماعت المسلمین یا جماعت التکفیر(۲)تحقیق مزید، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ اپنے اس مؤقف سے رجوع کر چکے ہیں اور فرقہ پرستی کی جس گندگی میں وہ پہلے لت پت ہو گئے تھے اب دوبارہ وہ اس میں جا پڑے ہیں۔
کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ’’کے سلسلہ میں بعض خلافتوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے لیکن میں اس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتا اور صرف حوالہ جات نقل کر نے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ سیدنا یوسف علیہ السلام (یوسف:۵۶)سیدنا سلیمان علیہ السلام (ص ۳۵، ۳۶، النمل: ۱۶،۱۵) سیدنا ذوالقرنین علیہ السلام(الکہف:۸۴)

امام مہدی

نزول عیسیٰ علیہ السلام کے وقت مسلمانوں کے جو خلیفہ ہوں گے انہیں امام مہدی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے حدیث میں خلیفہ ، امام اور امیر و غیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

۱:سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘لاتزال طائفۃ من أمتی یقاتلون علی الحق ظاھرین إلی یوم القیامۃ ، قال: فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول أمیر ھم تعال صل لنا فیقول لا إن بعضکم علی بعض أمر آءتکرمۃ اللہ ھذہ الأمۃ’’
میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق کے لئے لڑتی رہے گی اور قیامت تک اپنے مخالفین پر غالب رہے گی۔

پھر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نازل ہوں گے پس مسلمانوں کا امیران سے کہے گا آئیے اور ہمیں نماز پڑھائیے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ نہیں بے شک تم میں سے بعض  بعض پر امیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس امت کو بزرگ و برتر سمجھتا  ہے۔ (مسلم کتاب  الایمان ح۳۹۵)

۲:دوسری حدیث میں سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘یکون فی آخر الزمان خلیفۃ یقسم المال ولا یعدہٗ وفی روایۃ : یکون فی آخر أمتی خلیفۃ یحثی المال حثیاً ولا یعدہ عداً’’ وفی روایۃ: من خلفائکم خلیفۃ یحثو المال حثیاً ولا یعدہٗ عدداً’’
آخری زمانے میں ایک خلیفہ ہو گا جو (لوگوں میں ) مال تقسیم کرے گا اور اس مال کو شمار نہیں کرے گا، اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: میری امت کے آخر میں ایک خلیفہ ہو گا جو لپ بھر بھر کر مال دے گا اور اس کو شمار نہیں کرے گا۔ اور ایک روایت میں ہے: تمہارے خلفاء میں سے ایک خلیفہ ہو گا جو لپ بھر بھر کر مال تقسیم کرے گا اور اس کو شمار نہیں کرے گا۔ (مسلم کتاب الفتن۷۳۱۸ ، ۷۳۱۵، ۷۳۱۷۔ مشکوٰۃ:۵۴۴۱۔ مسند احمد ۳؍۳۱۷مستدرک۴؍۴۵۴)

۳: سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

‘‘کیف أنتم إذا نزل ابن مریم فیکم و إما مکم منکم’’تمہاری کیا حالت ہو گی جب عیسیٰ علیہ السلام تم میں نازل ہوں گے اور تمہارے امام تم میں سے ہوں گے۔(بخاری کتاب احادیث الانبیاء ح۳۴۴۹، مسلم کتاب الایمان ح ۳۹۳، ابو عوانہ ۱؍۱۰۶ ، شرح السۃ  ۱۵؍۸۲)


[امام مہدی کے سلسلہ میں مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمایئے صحیح ابن حبان ح ۲۷۸۴، صحیحہ ۴۰۱۴ ، قال الحافظ زبیر علی زئی: وھو کما قالو۱، یعنی قال الحاکم و الذہبی الالبانی صحیح، التحقیق علی کتاب الفتن و الملاحم لابن کثیر عن ابی سعید الخدریؓ ، سنن ابی داود کتاب المہدی]

دوسرا شبہ:

سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق سوالات کیا کرتے تھے اور میں ان سے شر کے بارے میں دریافت کیا کرتا تھا اس ڈر سے کہ میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے کہ اللہ نے ہمیں یہ خیر دکھائی تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ۔ میں نے عرض کیا: تو کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟ فرمایا: ہاں مگر اس میں دخن ہو گا۔ میں نے عرض کیا: دخن سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ایسے لوگ ہوں گے جو میرے طریقہ پر نہیں ہوں گے، ان کی کچھ باتیں معروف ہوں گی اور کچھ منکر ۔ میں نے پھر عرض کیا: اس خیر کے بعد کوئی شر ہو گا؟ فرمایا: ہاں جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے جو ان کی دعوت قبول کر لے گا وہ اس کو جہنم میں پہنچا دیں گے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ  ان لوگوں کے کچھ اوصاف بتائیے۔ فرمایا: وہ ہماری قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں باتیں کریں گے۔ میں نے عرض کیا: کہ اگر میں اس وقت کو پالوں تو آپ مجھے کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مسلمین کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر ان کی جماعت اور امام نہ ہو تو؟ فرمایا: ان سب فرقوں سے الگ ہو جانا چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑ جائیں یہاں تک کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے۔ (بخاری، کتاب الفتن ح ۷۰۸۴، ۳۶۰۶، صحیح مسلم کتاب الامارۃ ح ۴۷۸۴)

اس حدیث کے الفاظ تلزم جماعۃ المسلمین و امامھم(جس میں فتنوں کے دور میں جماعۃ المسلمین اور اس کے امیر کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے) سے استدلال کیا گیا ہے کہ خلیفہ صاحب اور اس کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جائے۔ان سے پہلے مسعود احمد (بی ایس سی) بھی اپنی جماعت المسلمین کے لئے اس روایت سے استدلال کر چکے ہیں اور ان سے متاثر ہو کر وقار علی شاہ صاحب بھی ایک عرصہ تک ان کی جماعت میں شام لرہے اور پھر اس جماعت سے خروج اختیار کر کے کچھ عرصہ بعد خلیفہ والی جماعت المسلمین میں شامل ہو کر اس کے امیر پاکستان بن چکے ہیں۔ اس روایت کے دوسرے طریق میں خلیفہ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔

إن کان للہ تعالیٰ خلیفۃ فی الأرض فضرب ظھرک وأخذ مالک فأطعہ
(ابو داود کتاب الفتن ۴۲۴۴، ۴۲۴۵وھو حدیث حسن، مسند احمد ۵؍۴۰۳، مستدرک۴؍۴۴۳، مشکوٰۃ ۳؍۱۴۸۴، مسند  ابی عوانہ ۴؍۴۷۰) امام ابو عوانہ نے حدیث تلزم جماعۃ المسلمین و امامھم کو نقل کر کے اس کے بعد اسی حدیث کو نقل کیا ہے۔
اس حدیث کا تعلق حکومت و خلافت سے ہے اگر مسلمانوں کی خلافت قائم ہو تو اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور اس کا ساتھ دینا ضروری ہے لیکن اگر خلافت موجود نہ ہو تو کسی فرقہ یا جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ تمام فتنوں سے الگ رہ کر قرآن و حدیث کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیئے۔

خلیفہ صاحب کے پاس اس وقت  چونکہ خلافت موجود نہیں ہے لہذا اس کے حواریوں کا اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ صرف نام رکھ لینے سے اور بیعت لینے سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ ورنہ ہر علاقے میں لوگ اس طرح کا عمل شروع کر دیں گے اور اس طرح بے شمار خلافتیں وجود میں آ جائیں گی۔ پھر خلیفہ موصوف کا یہ عمل دھوکا اور فراڈ کے ضمن میں بھی آتا ہے اور مومن کبھی دھوکا  باز اور فراڈی نہیں ہو سکتا۔

اس وضاحت کے بعد اب میں جناب تنویر اختر صدیقی صاحب کے سوالوں کی طرف آتا ہوں ، ان کے اکثر سوالوں کے جوابات میری وضاحت میں آ چکے ہیں۔

خط: ‘‘منجانب: تنویر اختر صدیقی بخدمت جناب محترم ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی صاحب السلام و علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
اما بعد۔۔ امید ہے بخریت ہوں گے۔ گزارش یہ ہے کہ جب میرا ذہن تحقیق اور دین کی طرف مائل ہوا تو جماعت المسلمین رجسٹرڈ کراچی میں شامل ہوا اور پھر جب دو سال بعد ان کے عقائد کھل کر سامنے آ گئے تو ان سے برات کی۔ پھر آج تک کسی جماعت میں شامل نہیں ہوا۔ سردست ایک مسئلہ میں آپ کی مدد درکار ہے کہ مجھے قرآن و سنت سے ان مسائل پر سمجھا کر اللہ سے ثواب کی امید پائیں جزاک اللہ خیراً۔
آپ کے علم میں ہو گا کہ 1994ء میں علاقہ غیر‘‘ تیراہ’’ میں عرب مجاہدین نے ایک شخص ابو عیسیٰ محمد الرفاعی کے ہاتھ پر بطور خلیفہ بیعت کی ۔ جب قبائلیوں سے لڑائی ہوئی تو یہ لوگ افغانستان چلے گئے۔ وہاں بھی لڑائی کے نتیجہ میں یہ لوگ پھر انگلینڈ چلے گئے اور آج تک یہ لوگ مسلمانوں سے درخواست کرر ہے ہیں کہ ہمارے خلیفہ کی بیعت کریں۔ مجھے بھی یہ دعوت ملی ہے لیکن سخت الجھن کا سامنا ہے کیونکہ ایسے شخص کو خلیفہ کیسے تسلیم کریں جو کفار کے زیر اثر اور قبضے میں ہے؟ بہر حال آپ مہربانی فرما کر میری یہ الجھن دور فرمائیں۔

سوال ۱: بخاری کی ایک حدیث ہے کہ ‘‘ میرے بعد خلفاء ہوں گے۔ تم پہلی بیعت کے حامل خلیفہ کی وفاداری کرو’’ جبکہ طبرانی کی صحیح حدیث ہے کہ ‘‘ نبوت کے بعد خلافت ہو گی جو رحمت ہو گی، پھر بادشاہت ہو گی، پھر امارت ہو گی جو رحمت ہو گی’’۔ گزارش یہ ہے کہ ان دونوں احادیث کی کس طرح تطبیق کریں؟

الجواب۱: [المعجم الاوسط للطبرانی میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إنکم فی نبوۃ ورحمۃ ، وستکون خلافۃ و رحمۃ، ثم یکون کذا و کذا ، ثم یکون ملکاً عضوضاً ’’ إلخ (۷؍۳۰۱ح۶۵۷۷ وسندہ حسن]

اس روایت اور صحیح بخاری کی روایت میں کوئی تعارض نہیں۔ خلفاء میں سے خلفائے راشدین بھی ہوں گے اور ان کے بعد ایسے خلفاء بھی آئیں گے جو ‘‘کذ او کذا’’ اور ملک عضوض سے متصف ہوں گے۔]

سوال۲: کیا‘‘ امارت ہو گی جو رحمت ہو گی’’ والی حدیث سے امت میں اکثر امارتوں کا ظہور نہیں ہوا جیسا کہ اب بے شمار جماعتوں کے امراء موجود ہیں؟

الجواب: امارت سے مراد خلافت و حکومت ہے نہ کہ کسی بے اختیار امیر کی امارت بعض امرا نے جو موجودہ وقت میں اپنی امارتیں قائم کر رکھی ہیں تو یہ صرف تنظیمی لحاظ سے اپنی جماعتوں کے امیر ہیں اور جماعت کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے انہوں نے یہ امارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ میرے خیال میں ان امارتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ علمائے کرام ان امارتوں کے بغیر بھی دعوت و تبلیغ کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تمام امرا اپنی اپنی امارتیں چھوڑ کر ایک امارت کے ماتحت ہو جائیں۔ لیکن چونکہ معاملہ کرسی کا ہے اور کوئی امیر اپنی کرسی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس سلسلہ میں بعض لوگوں نے کوشیں بھی کی ہیں  لیکن انہیں کامیابی کی کوئی صورت دکھائی نہ دی۔ ایک صاحب نے اس سلسلہ میں جو جواب دیا وہ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے وہ فرماتے ہیں کہ ‘‘ جب سب جماعتیں متحد اور ایک ہو جائیں گی تو پھر ہم بھی ان کے ساتھ شامل  ہو جائیں گے۔’’ ان جماعتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ تعصب او رنفرت کو ہوا دیتی ہیں بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
‘‘کُلُّ حِزْبٍ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ’’ ہر جماعت کے پاس جو کچھ ہے اس پر وہ خوش ہے۔ (الروم : ۳۲)

سوال ۳: کیا موجودہ مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی جماعتیں ، ساری شرعی ہیں یا غیر شرعی ؟ اگر شرعی ہیں تو ‘‘ ولا تفرقوا’’ پر عمل کیسے ہو گا؟


الجواب: مسلمانوں کا مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو جانا تفرقہ کی ایک صورت ہے اور تفرقہ کی یہ شکل و صورت غیر شرعی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡاص
تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (اٰل عمران:۱۰۳)

[یعنی تمام موجودہ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے علیحدہ ہو جاؤ، کسی ایک کی بھی رکنیت و غیر اختیار نہ کرو]

سوال ۴: فرقہ پرستی کے اس دور میں ایک مسلم کیا کرے؟ نیز خلافت کا قیام کس طرح ہو گا؟

الجواب: مسلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع و پیروی اختیار کرے۔ قرآن و حدیث پر عمل پیرا رہے۔ اور اللہ کی نافرمانی سے بچتا رہے۔ اگر ایسا دور آ جائے کہ اس میں اللہ کی عبادت کرنا مشکل ہو جائے تو جنگل کی طرف نکل جائے وہاں بکریاں چرائے اور اللہ کی عبادت کرے اور اپنے دین کو فتنوں سے بچائے یا پھر اپنے گھر یا کسی مقام میں گوشہ نشین ہو جائے۔ اس سلسلہ میں احادیث میں جو تفصیل آئی ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:

سیدنا ابو سعید الخدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘یوشک أن یکون خیر مال المسلم غنم یتبع بھا شعف الجبال و مواقع القطر، یفر بدینہ من الفتن’’وہ زمانہ قریب ہے جبکہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی  وہ ان کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر یا بارش کے گرنے کی جگہ (جنگل کے نالوں پر ) چلا جائے گا اور فتنوں سے بھاگ کر اپنے دین کو بچالے گا۔(بخاری کتاب الایمان: ۱۹ ، ۳۳۰۰ ، ۳۶۰۰ ، ۶۴۹۵، ۷۰۸۸)

سیدنا ابو بکر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ عنقریب فتنوں کا ظہور ہو گا اور یاد رکھو کہ پھر ان فتنوں میں سے ایک بڑا فتنہ پیش آئے گا اس بڑے فتنہ میں بیٹھا ہوا شخص چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا بہتر ہو گا فتنہ کی طرف دوڑنے والے سے ۔ خبردار!جب یہ فتنہ وقوع میں آئے تو وہ شخص جس کے پاس اونٹ ہو اپنے اونٹ کے ساتھ ہو جائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں میں مل جائے اور جس کے پاس زمین ہو وہ اپنی زمین میں جا پڑے (یعنی تمام مصروفیتوں کو چھوڑ کر گوشہ تنہائی اختیار کرے اور ان چیزوں میں مشغول و منہمک ہو جائے) ایک شخص نے عرص کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! جس کے پاس اونٹ، بکریاں اور زمین نہ ہو وہ کیا کرے؟فرمایا: وہ اپنی تلوار کی طرف متوجہ ہو اور اس کو پتھر پر مار کر توڑ ڈالے(یعنی اس کی دھار کو بیکار کر دے تاکہ جنگ و جدل کا خیال اس کے دل میں پیدا نہ ہو۔) اور پھر اس کو چاہیئے کہ ان فتنو ں سے نجات پانے کے لئے بھاگ نکلے اگر وہ جلد ایسا کر سکے (تو اس میں دیر نہ کرے) اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ !میں نے تیرے احکام تیرے بندوں تک پہنچا دیئے۔ تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!اگر مجھ پر جبر کیا جائے یہاں تک کہ مجھ کو دونوں فریقوں میں سے کسی ایک فریق کی صف میں لے جایا جائے اور مجھ کو ایک شخص تلوار سے مارے یا کوئی تیر آ کر لگے اور مجھ کو مار ڈالے تو میری نسبت آپ کا کیا خیال ہے ؟ فرمایا: تیرے قاتل پر اپنا اور تیرا دونوں کا گناہ ہو گا اور یہ شخص جہنمیوں میں سے شمار ہو گا۔(صحیح مسلم کتاب الفتن :۷۲۵۰)

سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘بادرو ا بالأ عمال فتناً کقطع اللیل المظلم یصبح الرجل مؤمناً و یمسی کافراً و یمسی مؤمناً و یصبح کافراً یبیع دینہ بعرض من الدنیا’’اعمال (نیک) میں جلدی کرو ان فتنوں کے پیش آنے سے پہلے جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے (اس وقت) آدمی صبح کو اگر مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو مومن ہو گا تو صبح کافر ہو جائے گا کیونکہ وہ اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کی خاطر بیچ ڈالے گا۔ (مسلم کتاب الایمان ح ۳۱۳)

سیدنا ابو موسیٰ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قیامت آنےسے پہلے فتنے وقوع میں آئیں گے جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے(یعنی ہر ساعت میں انقلاب پیدا ہوتا رہے گا) اس وقت آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو جائے گا اور شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر ہو جائے  گا۔(ان فتنوں میں) بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ اس وقت تو اپنی کمانوں کو توڑ ڈال  اور کمانوں کے چلوں کو کاٹ دے۔ اور تلواروں کو پتھر پر مار دے (یعنی ان کی دھار کو بیکار کر دے) پھر اگر کوئی شخص تم میں سے کسی کو مارنے آئے تو اس کو چاہیئے کہ وہ آدم کے دو بیٹوں میں بہترین بیٹے کی مانند ہو جائے (یعنی مانند ہابیل کے) (ابو داؤد: ۴۲۵۹و إسنادہ حسن)

ابو داؤد(۴۲۶۲وھو حسن) کی ایک اور روایت میں ‘‘ چلنے والا بہتر ہو گا دوڑنے والے سے ’’ کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ پھر صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ (یعنی گھروں میں پڑے رہو)

اور ترمذی (۲۲۰۴وھو حسن) کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:

‘‘ تم اس میں اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو اور ان کے چلے کاٹ دو اور گھروں میں پڑے رہو اور آدم علیہ السلام کے بیٹے (ہابیل) کی مانند بن جاؤ۔’’(ترمذی : ۲۲۰۴ وھو حسن)

سیدنا معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فتنہ کے دور میں عبادت کرنے کا ثواب میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہو گا۔ (مسلم: ۲۹۴۸دارالسلام:۷۴۰۰)

سیدنا ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اپنی امت کے لئے میں جن چیزو ں سے زیادہ ڈرتا  ہوں وہ گمراہ کرنے والے امام (پیشوار ) ہیں اور جب میری امت میں تلوار چل جائے گی تو پھر قیامت تک نہ رکے گی۔ (یعنی قتال کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ) [ابو داود:۴۲۵۴ و سندہ صحیح]

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
‘‘میری امت کی ہلاکت قریش کے چند نوجوانوں کے ہاتھ سے ہوگی۔’(البخاری:۷۰۵۸)

المختصر یہ کہ پر فتن دور میں ہر مسلم کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرتا رہے اور ایمان کو بچانے کے لئے جس طرح بھی ممکن ہو اس کی حفاظت میں لگ جائے۔ چاہے اس کے لئے اسے گوشہ نشین ہو جانا پڑے اور جنگل بیابان کی طرف نکل جانا پڑے۔ بعض صحابہ کرام اس بہترین دور میں بھی جب کہ وہ خیر کا زمانہ تھا لیکن مسلمانوں کی جنگ و جدال کی وجہ سے وہ گاؤں، صحرا اور جنگل وغیرہ میں گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ جیسے سلمہ بن اکوع  ؓ ، سعد بن ابی وقاص ؓ، عبداللہ بن مسعود ؓ وغیرہ۔ مسلمانوں کی آپس کی جنگ و جدال کی وجہ سے بعض صحابہ کرام نے دونوں جماعتوں سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور وہ دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکتے تھے جیسے ابو بکر ؓ، عبداللہ بن عمرؓ وغیرہما۔

پر فتن دور  میں مسلمانوں کے آپس میں جنگ و جدال میں کسی مسلمان کو حصہ لینے کے بجائے اس سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیئے۔ البتہ تکفیری جماعتیں جو تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتی ہیں انہیں مٹانے کے لئے علمائے کرام اور اسلامی حکومت سے تعاون کرنا چاہیئے۔ جس طرح خارجیوں کو قتل کرنے کی ترغیب نبی ﷺ نے دی ہے۔ گمراہ کرنے والے اماموں اور فتنہ پرور قائدین سے دور رہے۔

جہاں تک خلافت کے قیام کا معاملہ ہے تو اس سلسلہ میں تمام عالم اسلام کو قرآن و حدیث کے مطابق اپنے اعمال کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا پڑے گا۔ اور جب ہمارے اعمال درست ہو گئے اور ہم مکمل اخلاص کے ساتھ اسلام پر عمل پیرا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت عطا فرما دے گا۔ خلافت کے لئے ایمان اور اعمال صالحہ ضروری ہیں۔ اور جب ایسی حالت میں تمام اہل ایمان متحد و متفق ہو کر خلافت کے لئے کوشاں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا اور انہیں خلافت عنایت فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ

سوال ۵: کیا ابو عیسیٰ محمد الرفاعی کا پاکستان کے ایک گاؤں میں خلافت قائم کرنا صحیح تھا؟ کیونکہ بعض علماء کہتے ہیں کہ خلافت تو آزاد علاقے میں قائم کی جاتی ہے نہ کہ کسی دوسرے طاغوت یا کافر کی سرزمین پر؟

الجواب: خلافت کے لئے ضروری ہے کہ کسی ملک یا علاقہ کا کنٹرول خلیفہ کے پاس ہو اگر وہ علاقہ کسی ملک کی ملکیت ہو تو ظاہر سی بات ہے کہ وہاں خلافت کا قیام نا ممکن ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ملک کافروں کے کنٹرول میں ہو اور وہاں کے مسلمان وہ ملک خلیفہ کے حوالہ کر دیں تو ایسی صورت میں بھی وہاں خلافت قائم ہو جائے گی۔

سوال ۶: کیا خلیفہ کے ساتھ مملکت ، فوج اور طاقت کا ہونا لازمی ہے؟

الجواب: امارت، خلافت اور سلطنت مترادف الفاظ ہیں اور ان سے مراد خلافت و حکومت ہی ہے اور خلیفہ کے لئے طاقت و اقتدار ضروری چیز ہے ورنہ وہ خلیفہ برائے نام ہی خلیفہ ہو گا۔

سوال ۸:کیا خلیفہ کے لئے آزاد ہونا بھی لازمی ہے کہ کفار کے تسلط میں نہ ہو؟

الجواب: خلیفہ کے لئے آزاد ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ کسی کافر ملک کا محکوم اور برٹش حکومت کو وظیفہ خوار ہو تو ایسا شخص خلیفہ نہیں ہو سکتا۔


سوال ۹: ابو عیسیٰ محمد الرفاعی سے بقول ان کے مملکت جب چھین لی گئی اور انہوں نے برطانیہ میں پناہ لی تو کیا اس طرح ان کی خلاف ختم نہیں  ہوگی؟

الجواب ۹:ابو عیسیٰ محمد الرفاعی کی خلافت ہی کب قائم ہوئی تھی کہ ان سے چھین بھی لی گئی ہو۔ خلیفہ صاحب تو اس وقت برٹش حکومت کی پناہ میں ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق ان کے ملک میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ وہ تو خود پناہ گزین ہیں۔ لہذا خلافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سوال ۱۰: کیا نبی ﷺ نے نبوت ملنے سے پہلے اپنے آپ کو نبی کہا یا کہلوایا یا خلفاء نے خلافت ملنے سے قبل اپنے آپ کو خلیفہ کہا یا کہلوایا جیسے ابو عیسیٰ محمد الرفاعی  کو ابھی خلافت یعنی سلطنت نہیں ملی لیکن اپنے آپ کو خلیفہ کہتے ہیں؟

الجواب: نبی ﷺ نے نبوت ملنے سے قبل کبھی بھی اپنے آپ کو نبی نہیں کہا۔ اسی طرح خلفاء نے بھی خلافت ملنے سے پہلے اپنے آپ کو خلیفہ نہیں کہا۔ اسی طرح خلیفہ صاحب کو بھی ابھی تک خلافت نہیں ملی ہے لہذا ان کا اپنے آپ کو خلیفہ کہنا یا کہلوانا درست نہیں ہے۔ بلی کو خواب میں چھچھڑے دکھائی دیتے ہیں اور ساوت کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا  ہے ، ممکن ہے کہ خلیفہ صاحب بھی اپنی خیالی خلافت ہی میں رہتے ہوں اور اپنے آپ کو خلیفہ کہتے اور کہلواتے ہوں۔

سوال ۱۱: کیا خلافت بغیر ریاست و سلطنت لغت یا اصطلاح شرع میں معروف ہے؟

الجواب: خلافت کا تصور حکومت و ریاست کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

سوال ۱۲: کیا قرآن و حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں ان کا معنی ہم لغت میں نہیں دیکھیں گے؟ یا ہر زبان کے با محاورہ جملے و الفاظ بھی ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں اگر گوشت کہا جائے تو اس سے مراد بڑا گوشت ہوتا ہے اگرچہ لغت میں گوشت چھوٹے جانور اور مچھلی کے گوشت کو بھی کہتے ہیں لیکن  مستعمل بڑے گوشت کا مفہوم ہے تو کیا عرب لغت یا اصطلاح میں خلیفہ کو طاقت اور اقتدار کا حامل نہیں سمجھا جاتا؟

الجواب: خلیفہ قرآن و حدیث اور لغت ہر جگہ بادشاہ اور سلطان ہی کے معنوں میں آتا ہے۔ لیکن جس نے نہ ماننا ہو اور ‘‘میں نہ مانوں’’ والے محاورے پر وہ عمل پیرا ہو تو ایسے شخص کا کوئی کیا کر سکتا ہے؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

سوال ۱۳: خلیفہ پر کتنے مسلمانوں کا اجماع ہونا شرط ہے؟

الجواب: امت کے اہل حل و عقد اور مجلس شوریٰ کے اراکین کسی خلیفہ پر متفق ہو جاتے ہیں تو ایسا شخص خلافت کا حق دار ہے اور تمام لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔

[فائدہ: ایک روایت میں آیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں امام کی بیعت نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اس حدیث کی تشریح میں امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘‘ الإمام الذی یجمع المسلمون علیہ، کلھم یقول: ھذا إمام، فھذا معناہ’’اس سے وہ امام مراد ہے جس پر مسلمانوں  کا اجماع ہو۔ ہر مسلمان یہی کہے  کہ یہ امام (خلیفہ) ہے۔ پس اس حدیث کا یہی مفہوم ہے (المسند من مسائل الامام احمد للخلال قلمی : ۱بحوالہ الامامۃ العظمیٰ عند أ ھل السنۃ و الجماعۃ ص ۲۱۷)]

سوال۱۴: کیا آپ ﷺ یا کسی خلیفہ سے ثابت ہو سکتا ہے کہ کسی شہر جیسے کراچی پر اس کی حکومت اور سلطنت نہ ہو لیکن اس نے اپنے لئے امیر کراچی کا لقب اختیار کیا ہو۔ جیسا کہ تمام مذہبی وغیر اقتدار  سیاسی جماعتوں کے امرا ہیں۔ حتیٰ کہ ابو عیسیٰ خلیفہ جو کہ لندن میں پناہ لئے ہوئے ہیں اس کے بھی مختلف شہروں اور ممالک پر امراء موجود ہیں اگرچہ ان ممالک اور شہروں  میں اس کی سلطنت نہیں؟

الجواب: اس طرح کی کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ یہ لوگ امیر اور حاکم نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اپنے آپ کو امیر پشاور، امیر ملتان اور امیر المؤ منین تک لکھتے ہیں: دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔

سوال ۱۵: صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق ‘‘ اگر خلیفہ نہ ہو تو تمام فرقوں سے الگ ہو جاؤ’’  کیا فرقوں سے نماز ، جنازہ، نکاح میں علیحدگی مقصود ہے یا خلیفہ نہ ہو اور مسلمین آپ (آپس) میں خلافت کے لئے جنگ کریں تو صرف اس کشمکش میں فرقوں سے علیحدگی ہے؟ خلیفہ نہ ہو اور تمام فرقے دندناتے پھر رہے ہوں تو علیحدگی کی کیا صورت مقصود ہے؟

الجواب: تمام فرقوں سے الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تنظیم میں شامل نہ ہوا جائے البتہ بر اور تقویٰ کے امور میں ان کے ساتھ تعاون ہونا چاہیئے اور اثم و عدوان میں ان سے علیحدگی ضروری ہے۔ یہ بھی اس صورت میں کہ جب ان کے عقائد و نظریات درست ہوں۔ اور سنت نبوی ﷺ پر وہ عمل پیرا ہوں۔ نیز سیاسی جماعتوں سے بھی علیحدگی ضروری ہے اور پرفتن دور میں گوشہ نشینی اختیار کرنی چاہیئے جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔

سوال ۱۶: سورۃ انعام آیت ۱۲۱ کی رو سے کیا  کسی کافر یا طاغوت کی شرک و کفر کی ملازمت، شرک نہ ہوگا؟

الجواب: ملازمت کسی کافر اور مشرک کی بھی جائز ہے جب تک کہ اس ملازمت میں اسلام کو نقصان پہنچانے والا کوئی عمل شامل نہ ہو۔ نیز اس ملازمت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی کوئی نافرمانی نہ ہوتی ہو۔ سورۃ الانعام کی آیت ۱۲۱ میں یہ مضمون ذکر ہوا ہے کہ ‘‘شیاطین اپنے دوستوں کی طرف ایسی باتیں القا کرتے ہیں کہ وہ تم سے لڑائی اور جدال کریں ۔ لہذا ایسی صورت میں اگر تم ان مشرکوں کی اطاعت کرو گے تو تم بھی مشرک بن جاؤ گے’’
ھذا ماعندی واللہ أعلم
یہ تحریر اب تک 30 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 3 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply