روایت: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پہچانا نہیں جاتا تھا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : بعض صوفیا یہ حدیث ذکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا كنت كنزا مخفيا لا اعرف فاحببت ان اعرف فخلقت خلقا فعرقته بي فعرفوني ’’ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، پہچانا نہیں جاتا تھا۔ میں نے پسند کیا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے مخلوق پیدا کی، میں نے انھیں اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے مجھے پہچان لیا “۔ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من يقل علي الم أقل فليتبوأ مقعده من النار
’’ جس نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ آ گ میں بنا لے “
[بخاري، كتاب العلم : باب اثم من كذب على النبى صلى الله و عليه وسلم 107]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض لوگوں نے روایتیں گھڑ کر جر م عظیم کا ارتکاب کیا اور روایات وضع کرنے والے مختلف اقسام اور مختلف اغراض پر مبنی لوگ ہیں ان میں سے بعض نام نہاد صوفی منش لوگ بھی ہیں اور یہ روایت بھی انہیں متصوفین کا شاخسانہ ہے۔

اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ليس من كلام النبي صلي الله عليه وسلم ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف .
’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں سے نہیں ہے اور اس کی صحیح یا ضیعف کوئی سند معروف نہیں۔ “ [مجموع الفتاوي : 18/ 122، 376]

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول کی متابعت امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بدر الدین الزرکشی نے ’’ [التذکرہ فی الاحادیث المشتهره 136، الباب الثالث فی الزھد، الحدیث العشرون] میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے کی ہے۔
دیکهیں ! [المقاصد الحسنة للسخاوي (838) (327)، كشف الخفاء ومزيل الالباس از اسماعيل العحلوني (2019) (132/2)، الاسرار المرفوعة فى الاخبار الموضوعة از ملا علي قاري (353)، احاديث القصاص (3)، اسني المطالب (1110)، تمييز الطيب من الخبيث (4510)، الدرر المنتشرة 330، تذكرۃ الموضوعات]
معلوم ہو ا کہ یہ روایت من گھڑت ہے اور متصوفین کی وضع کردہ معلوم ہوتی ہے۔

ملا علی قاری نے اس کے مفہوم کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے اور سورۂ ذاریات کی آ یت [56] وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون میں ليعبدون کا معنی ليعرفون کیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدار کیا کہ وہ مجھے پہچان لیں اور اس تفسیر کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا ہے۔
[الاسرا المرفوعة : 269 تحت رقم 303 ]

ملا علی قاری کا قول درست نہیں ہے۔ اس قول کی نسبت جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف کی گئی ہے اس کی پختہ سند کی حاجت ہے۔ پھر قرآن و سنت میں جو صفات باری تعالیٰ ہم پڑھتے ہیں یہ روایت اس کے معارض ہے، اللہ عزوجل مجہول خزانہ کیسے ہو سکتے ہیں : وہ عزت و جلال والا کیسے نہ پہنچانا جائے۔

ایسی روایات وضع کر کے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے اجزائے خاملہ اور اقوال سخیفہ سے محفوظ فرمائے۔ آمين !

 

اس تحریر کو اب تک 84 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply