اہل السنت والجماعت کے 35 عقائد

◈ امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی327 ھ) نے فرمایا کہ : میں نے اپنے والد (ابوحاتم الرازی) اور ابوزرعہ (الرازی) رحمہا اللہ سے اصول دین میں مذاہب اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور یہ کہ انہوں نے تمام شہروں میں علماء کو کس عقیدے پر پایا اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج ذیل) مذہب پر پایا کہ :
(1) بے شک ایمان قول و عمل کا نام ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
(2) قرآن ہر لحاظ سے اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔
(3) اچھی اور بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے۔
(4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں، بھر عمر بن خطاب، پھر عثمان بن عفان اور پھر علی ابن طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مھدین ہیں۔
(5) عشرہ مبشرہ جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے وہ ہمارے نزدیک جنتی ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ علیہ وسلم) کی بات حق ہے۔
(6) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت کی دعا مانگنی چاہئیے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت (خاموشی) اختیار کرنا چاہئے۔
(7) اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر (بغیر سوال کیفیت مستوی) ہے، اپنی مخلوق سے (بلحاظ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر بیان فرمایا ہے، اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
(8) اللہ تعالیٰ آخرت میں نظر آئے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے (اسی کا) کلام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔
(9) جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنا نہ ہوں گی، اللہ کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے اور اس کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ (اللہ) رحم فرمائے۔
(10) پل صراط حق ہے۔
(11) میزان (ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور برے اعمال تولے جائیں گے۔
(12) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض کوثر حق ہے اور شفاعت حق ہے۔
(13) اہل توحید (مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ) شفاعت کے ذریعے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔
(14) عذاب قبر حق ہے۔
(15) منکر و نکیر (قبر میں سوال و جواب والے فرشتے ) حق ہیں۔
(16) کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے ) حق ہیں۔
(17) موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔
(18) کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ کی مشئیت (اور ارادے ) پر ہے (چاہے تو عذاب دے چاہے تو بخش دے ) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
(19) ہر زمانے (اور علاقے ) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔
(20) ہم مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے (کے دور) میں (ایک دوسرے سے ) قتال کے قائل ہیں۔
(21) اللہ نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں نکالتے۔
(22) ہم اہل سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شذوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔
(23) جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نبی و رسول بنا کر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر (کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی (یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)۔
(24) اور یہی معاملہ حج کا (بھی) ہے۔
(25) مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں (اور دیگر اموال) کے صدقات (زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔
(26) لوگ اپنے احکامات اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقیناً مومن ہے تو وہ شخص یقیناً بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں (بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے، اور جو کہتا ہے کہ : میں اللہ کے ساتھ مومن (یعنی اللہ پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح اور ) مصیب ہے۔
(27) مرجئہ (فرقے کے لوگ) بدعتی گمراہ ہیں۔
(28) قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے ) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔
(29) جہمیہ کفار ہیں۔
(30) رافضیوں (شعیوں) نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔
(31) خوارج (دین سے ) نکلے ہوئے ہیں۔
(32) جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت و حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ (بھی) کافر ہے۔
(33) جو شخص اللہ کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ : مجھے پتہ نہیں کہ (قرآن) مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی (فرقے سے تعلق رکھتا) ہے۔
(34) جو جاہل شخص قرآن کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا۔
(35) جو شخص لفظی بالقرآن (میرے الفاظ جن سے میں قرآن پڑھتا ہوں) یا القرآن بلفظی (قرآن میرے الفاظ کے ساتھ) مخلوق کہے تو وہ جہمی (گمراہ) ہے۔
◈ امام ابوحاتم الرازی نے فرمایا : اہل بدعت کی یہ علامت ہے کہ وہ اہل اثر (اہل حدیث) پر حملہ کرتے ہیں۔ زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو حشویہ (ظاہر پرست فرقہ) کہتے ہیں، ان کا اس سے مقصد احادیث کا انکار ہوتا ہے۔ جہمیہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہہ کہتے ہیں۔ قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مجبرہ کہتے ہیں۔ مرجئہ کی (ایک) علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مخالفہ اور نقصانیہ کہتے ہیں۔ رافضہ (شعیوں) کی یہ علامت ہے کہ وہ اہل سنت کو ثانیہ (نابتہ، ناصبیہ یعنی علی رضی اللہ عنہ کا دشمن) کہتے ہیں۔ ان تمام برے ناموں کی بنیاد (بدعات پر) تعصب اور معصیت ہے، اہل سنت کا ایک ہی نام ہے اور یہ محال ہے کہ ان کے بہت سے (خود ساختہ) نام اکٹھے ہو جائیں۔
ابوحاتم اور ابوزرعہ دونوں گمراہوں اور بدعتیوں سے ھجر (لا تعلقی) کرتے تھے اور ان (غلط) آراء کا شدید رد کیا کرتے تھے۔ احادیث کے بغیر رائے والی کتابیں لکھنے پر سختی سے انکار کرتے تھے، اہل کلام ( منطق و فلسفے والوں) کی مجلس اور متکلمین کی کتابیں دیکھنے سے منع کرتے تھے اور کہتے کہ : صاحب کلام کبھی فلاح نہیں پاتا (الا یہ کہ مرنے سے پہلے توبہ کر لے )۔
یہ مضمون امام ابومحمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ کی کتاب اصل السنة و اعتقاد الدين سے لیا گیا ہے۔ آپ کا شمار حدیث کے عظیم اماموں میں ہوتا ہے اور آپ کی ثقاہت اور بزرگی کے بارے میں اہل سنت کے تمام گروہوں کا ہر دور میں اتفاق رہا ہے، آپ نے 327 ہجری میں وفات پائی۔

 

یہ تحریر اب تک 80 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply