آدم علیہ السلام کا وسیلہ

تحریر: ابو عبداللہ صارم

سیدنا آدم و حواء علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر دونوں نے وہ پھل کھا لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور انہیں جنت سے نکال دیا۔ دونوں اپنے اس کیے پر بہت نادم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان پر ترس آیا اور انہیں وہ کلمات سکھا دیے جنہیں پڑھنے پر ان کی توبہ قبول ہوئی۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (البقره:37:2)
’’آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ “ یہ کلمات کیا تھے؟ خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ان کو بیان فرما دیا ہے :
﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الاعراف:37:2)
’’ان دونوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے ہیں۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ “

یعنی آدم و حواء علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت مغفرت و رحمت کا واسطہ دیا یہ تو تھا قرآن کریم کا بیان۔ لیکن بعض لوگ اس قرآنی بیان کے خلاف جھوٹے، بدکردار، بدعقیدہ، بددین اور نامعلوم و مجہول لوگوں کی بیان کردہ نامعقول اور باہم متصادم داستانیں بیان کرتے اور ان پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے نظر آتے ہیں۔ کسی داستان میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیا، کسی میں ہے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کا واسطہ دیا اور کسی میں مذکور ہے کہ ان کو سیدنا علی و سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے طفیل معافی ملی۔

یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کی شان میں غلوّ ہے، جو کہ سخت منع ہے۔ یہی بات نصاریٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی غلطی عیسیٰ علیہ السلام کے طفیل معاف ہوئی۔

علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی (م : ۵۴۸ھ) نصاریٰ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والمسيح عليه السلام درجته فوق ذلك، لأنه الإبن الوحيد، فلا نظير له، ولا قياس له إلی غيره من الأنبياء، وھو الذي به غفرت زلة آدم عليه السلام.
’’مسیح علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے، کیونکہ وہ اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی کوئی مثال نہیں، نہ انہیں دیگر انبیائے کرام پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ انہی کی بدولت آدم علیہ السلام کی خطا معاف ہوئی تھی۔ “ (الملل والنحل:62/2، وفي نسخة:524/1)

ہماری سب لوگوں سے ناصحانہ اپیل ہے کہ وہ ان روایات کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا قرآن کریم کے خلاف ان پر اعتماد کرنا کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے؟

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱

 

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لما أذنب آدم صلى الله عليه وسلم الذنب الذي أذنبه، رفع رأسه إلى العرش، فقال : أسألك بحق محمد، إلاّ غفرت لي، فأوحى الله إليه، وما محمد، ومن محمد؟ قال : تبارك إسمك، لما خلقتني رفعت رأسي إلى عرشك، فإذا فيه مكتوب : لا إله الا الله محمد رسول الله، لا إله الا الله محمد رسول الله، فعلمت أنه ليس أحد أعظم عندك قدراً ممن جعلت إسمه مع إسمك، فأوحى الله عزوجل إليه: يا آدم ! إنه آخر النبيين من ذريتك، وإن أمته آخر الأمم من ذريتك، ولولاه يا آدم ما خلقتك.
’’جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (اے اللہ !) میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : محمد کون ہیں ؟ سیدنا آدم نے عرض کی : (اے اللہ !) تیرا نام پاک ہے۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تھا۔ وہاں میں نے لا إله الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اے آدم ! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ “ (المعجم الصغير للطبراني:182/2، ح:992، وفي نسخة:82/2، المعجم الأوسط للطبراني:6502)

تبصرہ: اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو واقعی نیک لوگوں کی ذات اور شخصیت کے وسیلے پر دلیل بنتی اور فوت شدگان اولیا و صالحین کا وسیلہ بالکل مشروع ہو جاتا لیکن کیا کریں کہ یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، اسی لیے بعض لوگوں کے حصے میں آ گئی ہے۔
(۱) اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف و متروک“ ہے،
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :

قال الذھبي: ضعفه الجمھور. ’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (البدرالمنير:449/1)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں۔ “ (مجمع الزوائد:21/2)

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (خلاصة البدر المنير:11/1)

اسے امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابن سعد، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہم نے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔

امام بزار رحمہ اللہ (م : ۲۹۲ھ) فرماتے ہیں :
وعبدالرحمن بن زيد قد أجمع أھل العلم بالنقل علي تضعيف أخباره التي رواھا…
’’فن حدیث کے ماہر ائمہ کا عبدالرحمٰن بن زید کی بیان کردہ روایات کو ضعیف قرار دینے پر اتفاق ہے۔ “ (مسند البزار:8763)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
أجمعوا على ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ “ (تھذيب التھذيب لابن حجر:178،179/6)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
ضعيف باتفاقھم، يغلط كثيرا. ’’باتفاقِ محدثین ضعیف ہے، بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ “ (التوسل والوسيلة:167)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
عبدالرحمن، متفق على تضعيفه. ’’عبدالرحمٰن بن زید کو ضعیف قرار دینے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ “ (اتحاف المھرة: 97/12، ح15163)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے منسوب کر کے موضوع (من گھڑت) احادیث روایت کی ہیں۔ (المدخل الي كتاب الا كليل:154)

امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن أبيه، لا شيىء. ’’اس نے اپنے والد سے روایات بیان کی ہیں۔ یہ چنداں قابل اعتبار نہیں۔ “ (الضعفاء:122)

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہ حدیث بھی چونکہ اپنے باپ ہی سے روایت کی ہے، لہٰذا یہ بھی موضوع (من گھڑت) ہے۔

(۲) امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داود بن عثمان صدفی مصری کی توثیق مطلوب ہے۔
(۳) اس کے راوی احمد بن سعید مدنی فہری کی بھی توثیق چاہیے۔

 آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۲

 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دعائیہ کلمات کے بارے میں پوچھا، جو سیدنا آدم علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سأل بحق محمد وعلي و فاطمة والحسن والحسين، إلا تبت علي، فتاب عليه.
’’آدم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے وسیلے سے دعا کر کے اللہ سے عرض کی کہ میری توبہ قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کر لی۔ “ (الموضوعات لابن الجوزي:398/1، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني، ص:395،394)

تبصره: یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے اور عمرو بن ثابت بن ہرمز ابوثابت کوفی راوی کی گھڑنت ہے۔ یہ راوی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ :

(۱) علی بن شقیق کہتے ہیں :
سمعت عبدالله بن المبارك، يقول على رؤوس الناس: دعوا حديث عمرو بن ثابت، فإنه كان يسب السلف.
’’میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرعام یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات کو چھوڑ دو، کیونکہ وہ اسلاف امت کو گالیاں بکتا تھا۔ “ (مقدمة صحيح مسلم، ص:11، طبع دارالسلام)

(۲) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ولا مأمون. ’’یہ قابل اعتبار راوی نہیں۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:223/6، وسنده حسن)

نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (تاريخ يحيی بن معين:1624)

(۳) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي عندھم. ’’یہ راوی محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء والمتروكين، ص:87)

(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف و متروک راویوں میں شمار کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:401)

(۵) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه، كان رديىء الرأي، شديد التشيع.
’’اس کی حدیث ضعیف ہے، اسے (متابعات و شواہد میں) لکھا جا سکتا ہے۔ یہ برے عقائد کا حامل کٹر شیعہ تھا۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:233/6)

(۶) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔ “ (الجرح و التعديل:323/6)

(۷) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:45)

(۸) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي الموضوعات، لا يحل ذكره إلا علي سبيل الاعتبار.
’’یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف (متابعات و شواہد) میں ذکر کرنا جائز ہے۔ “ (كتاب المجروحين:76/2)

(۹) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والضعف علي رواياته بين. ’’اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔ “ (الكامل في ضعفاء الرجال:132/5)

یہ جھوٹی روایت قرآن کریم کے بھی خلاف ہے۔ ديكھيں : (سورة الاعراف:23:7)

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۳

 

ایک اور جھوٹی روایت ملاحظہ فرمائیں :
وقد رواه أبو الحسين بن بشران، من طريق الشيخ أبى الفرج بن الجوزي في ( الوفا بفضائل المصطفى ) حدثنا أبو جعفر محمد بن عمرو، حدثنا احمد بن إسحاق بن صالح، ثنا محمد ابن صالح، ثنا محمد بن سنان العوفي، ثنا إبراهيم بن طهمان عن يزيد بن ميسرة، عن عبد الله بن سفيان، عن ميسرة، قال : قلت يا رسول الله ! متى كنت نبيا؟ قال : لما خلق الله الأرض واستوى إلى السماء فسواهن سبع سموات، وخلق العرش، كتب على ساق العرش: محمد رسول الله خاتم الأنبياء، وخلق الله الجنة التي أسكنها آدم وحواء، فكتب اسمي على الأبواب والأوراق والقباب والخيام، وآدم بين الروح والجسد، فلما أحياه الله تعالى، نظر إلى العرش، فرأى اسمى، فأخبره الله أنه سيد ولدك، فلما غرهما الشيطان تابا واستشفعا باسمي إليه.
’’میسرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ! آپ کب رسول بنے ؟ آپ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا، آسمانوں کا قصد کیا اور ان کو سات آسمان بنایا اور عرش کو پیدا کیا تو عرش کے ایک پائے پر یہ لکھ دیا : محمد رسول الله خاتم الأنبياء پھر جنت کو پیدا کیا جس میں آدم و حوا علیہا السلام کو ٹھہرایا جانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے دروازوں، پتوں، خیموں وغیرہ پر میرا نام لکھ دیا۔ اس وقت آدم علیہ السلام کے روح اور جسم کا ملاپ نہیں ہوا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو زندگی بخشی تو انہوں نے عرش پر میرا نام دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ میں ان کی اولاد کا سردار ہوں۔ جب شیطان نے آدم و حوا علیہا السلام کو ورغلایا تو انہوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کو میرے نام کا واسطہ دیا۔۔۔ “ (مصباح الظلام في المستغيثين بخير الأنام في اليقظة والمنامم، ص:26، مجموع الفتاوي لابن تيمية:150/2)

تبصرہ: یہ جھوٹی اور منکر روایت ہے۔
اس کے راوی محمد بن صالح کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ یہ اسی کی کارروائی ہے کیونکہ باقی سارے راوی ثقہ ہیں۔ جو شخص اس روایت کے صحیح ہونے کا دعویدار ہے، اس پر ضروری ہے کہ محمد بن صالح کی توثیق ثابت کرے۔ لہٰذا محمد بن یوسف صالحی شامی (م:
۹۴۲ھ) کا اس روایت کی سند کو ’’جید“ کہنا (سبل الھدي والرشاد في سيرة خير العباد:86/1) صحیح نہیں۔

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۴

 

اسی معنی و مفہوم کی ایک روایت درج ذیل ہے :
أنبأنا أبو أحمد هارون بن يوسف ( بن هارون ) بن زياد التاجر قال : حدثنا أبو مروان العثماني، قال : حدثني أبي عثمان بن خالد، عن عبد الرحمن بن أبي الزناد، عن أبيه، قال : من الكلمات التي تاب الله بها على آدم عليه السلام، قال: اللهم ! إني أسألك بحق محمد عليك، قال الله عز وجل : يا آدم! وما يدريك بمحمد ؟ قال : يا رب، رفعت رأسي، فرأيت مكتوباً على عرشك : لا إله إلا الله محمد رسول الله، فعلمت أنه أكرم خلق الله عليك.
’’عبدالرحمٰن بن ابی الزناد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جن کلمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی، ان میں سے یہ بھی ہیں : اے اللہ ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جو حق تجھ پر ہے، میں اس کے واسطے سے سوال کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کیا علم ؟ آدم علیہ السلام نے عرض کی : میرے رب ! میں نے اپنا سر اٹھایا تو تیرے عرش پر لا إله إلا الله محمد رسول الله لکھا تھا۔ یوں میں جان گیا کہ آپ تیرے نزدیک سب سے معزز مخلوق ہیں۔ “ (الشريعة للآجري:246/2، ح:1006)

تبصره: یہ ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان تابعی کی طرف جھوٹا منسوب کیا گیا قول ہے، کیونکہ :
(۱) اس کے راوی ابومروان محمد بن عثمان عثمانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثقه أبو حاتم، وله عن أبيه مناكير.
’’اسے امام ابوحاتم نے اگرچہ ثقہ قرار دیا ہے، لیکن اس کی اپنے والد سے روایات منکر ہیں۔ “ (المغني في الضعفاء:5808)
یہ قول بھی اس نے اپنے والد ہی سے بیان کیا ہے۔

(۲) اس کا والد عثمان بن خالد ’’متروک الحدیث“ راوی ہے۔ (تقريب التھذيب لا بن حجر:4464)

اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’منکرالحدیث“ ہے۔ (التاريخ اكبير:220/6)

نیز امام صاحب نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لا بن عدي :175/5، وسنده صحيح)

امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ بھی اسے ’’منکر الحدیث“ کہتے ہیں۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:149/6)

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولعثمان غير ما ذكرت، كلھا غير محفوظة.
’’میں نے جو روایات بیان کی ہیں، ان کے علاوہ بھی کچھ روایات عثمان نے بیان کی ہیں، لیکن یہ ساری کی ساری شاذ ہیں۔ “(الكامل في ضعفاء الرجال:176/5)

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
الغالب على حديثه الوھم. ’’اس کی بیان کردہ حدیثوں میں وہم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ “ (الضعفاء اكبير:198/3)

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي المقلوبات عن الثقات، ويروي عن الأثبات أسانيد ليس من مروياتھم، لأنه يقلب الأسانيد، لا يحل الا حتجاج بخبره.
’’یہ ان لوگوں میں سے ہے جو ثقہ راویوں سے نقل کرتے وقت روایات کو الٹ پلٹ کر دیتے ہیں اور معتبر ترین راویوں سے ایسی سندیں بیان کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی ذکر ہی نہیں کی ہوتیں۔ یہ سندوں کو خلط ملط کر دیتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایت سے دلیل لینا حرام ہے۔ “ (كتاب المجروحين:102/2)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن مالك وعيسى بن يونس وغيرھما أحاديث موضوعة.
’’اس نے امام مالک، عیسیٰ بن یونس اور دیگر راویوں سے منسوب کر کے من گھڑت روایات بیان کی ہیں۔ “ (المدخل إلي الصحيح، ص:166)

امام ابونعیم اصبہیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عن مالك وعيسي وغيرھا أحاديث موضوعة، لا شيء.
’’یہ امام مالک اور عیسیٰ وغیرہما کی طرف خود ساختہ روایات منسوب کرتا ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء:157)

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۵

 

امام محمد باقر بن علی بن حسین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لما أصاب آدم الخطيئة عظم كربه واشتد ندمه، فجاءه جبريل، فقال : يا آدم ! هل أدلك على باب توبتك الذي يتوب الله عليك منه ؟ قال : بلى يا جبريل ! قال : قم في مقامك الذي تناجي فيه ربك، فمجده وامدح، فليس شيء أحب إلى الله من المدح، قال : فأقول ماذا يا جبريل ؟ قال : فقل لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت وهو حي لا يموت، بيده الخير كله، وهو على كل شيء قدير، ثم تبوء بخطيئتك فتقول : سبحانك اللهم وبحمدك، لا إله إلا أنت، رب إني ظلمت نفسي وعملت السوء فاغفر لي، إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت الله، إني أسألك بجاه محمد عبدك، وكرامته عليك أن تغفر لي خطيئتي، قال : ففعل آدم، فقال الله : يا آدم ! من علمك هذا ؟ فقال : يا رب! إنك لما نفخت في الروح، فقمت بشرا سويا، أسمع وأبصر وأعقل وأنظر، رأيت على ساق عرشك مكتوبا : بسم الله الرحمن الرحيم، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، محمد رسول الله، فلما لم أر أثر اسمك اسم ملك مقرب، ولا نبي مرسل غير اسمه، علمت أنه أكرم خلقك عليك، قال : صدقت، وقد تبت عليك وغفرت لك خطيئتك، قال : فحمد آدم ربه وشكره، وانصرف بأعظم سرور، ولم ينصرف به عبد من عند ربه، وكان لباس آدم النور، قال الله : ﴿ينزع عنهما لباسهما ليريهما سوآتهما﴾ ثياب النور، قال : فجاءته الملائكة أفواجا تهنئه، يقولون : لتهنك توبة الله يا أبا محمد .
’’جب آدم علیہ السلام خطا کر بیٹھے تو انہیں سخت غم پہنچا اور بہت نادم ہوئے۔ ان کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا : آدم ! کیا میں آپ کو ایسا طریقہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرما دیں ؟ آدم علیہ السلام نے کہا : کیوں نہیں، ضرور بتائیے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا : اس جگہ کھڑے ہو جائیے جہاں پر آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ کی تعریف و ثنا کیجیے۔ تعریف سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز محبوب نہیں۔ آدم علیہ السلام کہنے لگے : میں کیا کہوں ؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ آپ یہ کلمات پڑھیں : لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت وهو حي لا يموت، بيده الخير كله، وهو على كل شيء قدير پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور کہیں : اے اللہ تو اپنی تعریف کے ساتھ پاک ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور گناہ کا ارتکاب کیا ہے، مجھے معاف فرما دے، تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں۔ میں تجھ سے تیرے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میرا گناہ معاف فرما دے۔ آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آدم ! تمہیں یہ طریقہ کس نے سکھایا؟ آدم علیہ السلام نے عرض کی : میرے رب ! جب تو نے مجھ میں روح پھونکی اور میں سننے، دیکھنے اور سوچنے، سمجھنے والا کامل انسان بن گیا تو میں نے تیرے عرش کے پائے پر یہ لکھا ہوا دیکھا : بسم الله الرحمن الرحيم، لا إله إلا الله وحده لا شريك له، محمد رسول الله میں نے تیرے نام کے ساتھ کسی مقرب فرشتے یا کسی نبی و رسول کا نام لکھا ہوا نہیں دیکھا سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ تیری مخلوق میں سے سب سے محبوب و معزز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو نے سچ کہا، میں نے تیرا گناہ معاف کر دیا۔ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور اس کا شکریہ ادا کیا، پھر بہت خوشی خوشی واپس پلٹ آئے۔ ان کلمات کے ساتھ دعا کر کے کوئی بندہ اپنے رب سے خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ آدم علیہ السلام کا لباس نور کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ شیطان نے ان کا لباس اتروا دیا، تو اس سے مراد نور کا لباس ہی ہے۔ پھر فرشتے گروہ در گروہ آدم علیہ السلام کو مبارک دینے آتے اور کہتے : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ! آپ کو توبہ مبارک ہو۔ “ (الدر المنثور للسيوطي:60/1)

تبصرہ: یہ قول بلاسند ہونے کی بنا پر باطل اور مردود ہے۔
جو لوگ اسے پیش کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس قول کی کوئی ایسی سند ڈھونڈ کر لائیں جو امام باقر تک پہنچتی ہو۔ ورنہ وہ بتائیں کہ ایسی بےسروپا روایات پیش کر کے وہ کس دین کی خدمت کرتے ہیں ؟

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۶

 

کعب احبار تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إن الله تعالى أنزل على آدم عصيا بعدد الأنبياء، والمرسلين، ثم أقبل على ابنه شيث، فقال: أي بني ! أنت خليفتي من بعدي، فخذها بعمارة التقوى أ والعروة الوثقى، وكلما ذكرت الله تعالى، فاذكر إلى جنبه اسم محمد، فإني رأيت اسمه مكتوبا على ساق العرش، وأنا بين الروح والطين، ثم إني طفت السموات، فلم أر في السماء موضعا إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، وإن ربي أسكنني الجنة، فلم أر في الجنة قصرا ولا غرفة إلا رأيت اسم محمد مكتوبا عليه، ولقد رأيت اسم محمد مكتوبا على نحور الحور العين، وعلى ورق قصب آجام الحنة، وعلى ورق شجرة طوبى، وعلى ورق سدرة المنتهى، وعلى أطراف الحجب، وبين أعين الملائكة، فأكثر ذكره، فإن الملائكة تذكره في كل ساعاتها صلى الله عليه وسلم
’’ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر تمام انبیاء مرسلین کی تعداد کے برابر لاٹھیاں نازل فرمائیں۔ پھر وہ اپنے بیٹے شیث کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میرے بیٹے ! میرے بعد تو میرا خلیفہ ہے۔ ان کو تقویٰ اور عروہ و ثقیہ کے ذریعے پکڑ لے۔ جب بھی تو اللہ تعالیٰ کو ذکر کرے تو ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی لینا۔ میں نے اس وقت عرش کے پائے پر ان کا نام لکھا دیکھا تھا جب میں روح اور مٹی کے درمیان تھا۔ پھر میں نے آسمانوں کا چکر لگایا تو ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میرے رب نے مجھے جنت میں بسایا تو میں نے جنت میں کوئی محل یا کوئی کمرہ نہیں دیکھا جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو۔ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جنت کی حوروں کے سینوں پر لکھا دیکھا، جنت کے محلات کی اینٹوں پر، طوبیٰ کے درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، نور کے پردوں کے اطراف پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسے لکھا دیکھا۔ تو ان کا ذکر کثرت سے کیا کر، کیونکہ فرشتے ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں۔ “ (الديباج للختلي:112، تاريخ دمشق لابن عساكر:281/23)

تبصرہ: یہ سفید جھوٹ ہے، کیونکہ :
(۱) محمد بن خالد دمشقی ہاشمی راوی کے بارے میں امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان يكذب. ’’یہ جھوٹ بولتا تھا۔ “ (الجرح و التعديل:244/7)

(۲) شریح بن عبید نے کعب احبار کا زمانہ نہیں پایا۔ حافظ مزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يدركه. ’’شریح نے کعب کا زمانہ نہیں پایا۔ “ (تھذيب الكمال:325،324/8)

(۳) محمد بن زفر اصبہانی کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔

(۴) زکریا بن یحییٰ مدائنی کے بارے میں حافظ ہیثمی فرماتے ہیں :
ولم أعرفه. ’’میں اسے پہچان نہیں پایا۔ “ (مجمع الزوائد:126،125/10)

(۵) صاحب کتاب اسحاق بن ابراہیم حتلی کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي. ’’یہ قوی نہیں۔ “ (سئوالات الحاكم:58)

امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (سئوالات الحاكم:58)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفي كتابه ( الديباج ) أشياء منكرة. ’’اس کی کتاب دیباج میں بہت سی منکر روایات موجود ہیں۔ “ (سیر اعلام النبلاء:343/13)

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۷

 

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا :
يا موسى ! إن من لقينى، وهو جاحد بمحمد صلى الله عليه وسلم أدخلته النار، فقال: من محمد؟ فقال: يا موسى ! وعزتى وجلالى، ما خلقت خلقاً أكرم على منه، كتبت اسمه مع اسمي في العرش قبل أن أخلق السماوات والأرض، والشمس والقمر، بألفى عام.
’’اے موسیٰ ! جو شخص میرے دربار میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر کے آئے گا، اسے میں جہنم میں ڈالوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : محمد کون ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : موسیٰ ! مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم ! میں نے ان سے زیادہ معزز کوئی مخلوق پیدا نہیں کی۔ میں نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ اپنے عرش پر زمین و آسمان اور سورج و چاند کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا۔“ (ميزان الاعتدال للذھبي:160/2، سبل الھدي والرشاد للصالحي:85/1)

تبصرہ: اس کی سند جھوٹی ہے، کیونکہ :
(۱) اس کے راوی سعید بن موسیٰ ازدی کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے متہم بالوضع قرار دیا ہے۔ (كتاب المجروحين:326/1)
اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔

(۲) ابوایوب سلیمان بن سلمہ خبائری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو ساقط. ’’یہ سخت ضعیف راوی ہے۔“ (ميزان الاعتدال:160/2)
یہ ’’متروک“ اور ”کذاب“ راوی ہے۔

(۳) اس میں امام زہری رحمہ اللہ کی ’’تدلیس“ بھی موجود ہے، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’موضوع“ یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔ (ميزان الاعتدال:160/2)

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۸

 

جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابوطالب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی :
رب! ظلمت نفسي، فاغفر لي وأرحمني، إنه لا يغفر الذنوب غيرك، فأوحى الله عز وجل إليه: يا آدم ! ومن أين عرفت ذلك النبي الأمي، ولم أخلقه بعد؟ فقال آدم عليه السلام: إني رأيت على العرش مكتوبا : لا إله إلا الله محمد رسول الله، فعلمت أن ذلك النبي من صلبي، فبحق ذلك النبي، إلا ما أطعمتني، فأوحى الله عز وجل إلى جبرئيل أن اهبط إلى عبدي، فھبط عليه جبرئيل صلى الله على نبينا وعليه وسلم، وھبط معه بسبع حبات من حنطة، فوضعھا على يدي آدم عليه السلام
’’میرے رب ! میں اپنی جان پر ظلم کر بیٹھا ہوں، تو مجھے معاف فرما دے اور میرے حال پر رحم کر، تیرے سوا تیرے بندے کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اے آدم ! تو نے اس اُمی نبی کو کیسے پہچانا، حالانکہ میں نے ابھی اسے پیدا ہی نہیں کیا ؟ اس پر آدم علیہ السلام نے عرض کیا : میں نے عرش پر یہ لکھا ہوا دیکھا : لا إله إلا الله محمد رسول الله چنانچہ مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ نبی میری اولاد میں سے ہو گا۔ اس نبی کے طفیل مجھے کھانا دے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندے کی طرف اترو۔ جبرئیل علیہ السلام اترے اور ان کے ساتھ گندم کے سات دانے تھے۔ انہوں نے وہ دانے آدم علیہ السلام کے ہاتھوں پر رکھ دئیے۔ “ (العظمة لأبي الشيخ الأصبھاني:1597،1598/5، ح:1063)

تبصره: یہ جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ :
(۱) ابویعقوب یوسف بن دودان کون ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا۔
(۲) محمد بن یوسف تمیمی کے حالات نہیں مل سکے۔
(۳) محمد بن جعفر بن محمد بن علی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
تكلم فيه. ’’اس کے بارے میں جرح کی گئی ہے۔ “ (ميزان الاعتدال:500/3)
حافظ موصوف نے اس کی ایک روایت کو باطل بھی کہا ہے۔ (تلخيص المستدرك:588/2)
لہٰذا یہ روایت قطعاً قابل حجت نہیں۔

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۹

 

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فرمان باری تعالیٰ :  ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ﴾ ”آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے“ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله أهبط آدم بالهند، وحواء بجدة، وإبليس ببيسان، والحية بأصبهان، وكان للحية قوائم كقوائم البعير، ومكث آدم بالهند مائة سنة باكيًا على خطيئته، حتى بعث الله إليه جبريل، وقال: يا آدم! ألم أزوجك حواء أمتي؟ قال: بلى، قال: فما هذا البكاء؟ قال: وما يمنعني من البكاء وقد أخرجت من جوار الرحمن، قال: فعليك بهذه الكلمات، فإن الله قابل توبتك وغافر ذنبك، قل: اللهم ! إني أسألك بحق محمد وآل محمد، سبحانك، لا إله إلا أنت، عملتُ سوءًا وظلمت نفسي، فتب علي؛ إنك أنت التواب الرحيم، اللهم ! إني أسألك بحق محمد وآل محمد، عملت سوءا و ظلمت نفسي، فتب علي، إنك أنت التواب الرحيم، فهؤلاء الكلمات التي تلقى آدم.
’’اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ہندوستان میں، حواء علیہا السلام کو جدہ میں، ابلیس کو میسان میں اور سانپ کو اصبہان میں اتارا سانپ کے چوپائیوں کی طرح پائے تھے۔ آدم علیہ السلام سو سال تک اپنی غلطی پر روتے رہے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس جبریل علیہ السلام کو بھیجا اور فرمایا : اے آدم ! کیا میں نے تجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟ کیا میں نے تجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی ؟ کیا میں نے فرشتوں سے تجھ کو سجدہ نہیں کرایا؟ کیا میں نے اپنی بندی حواء کے ساتھ تیری شادی نہیں کی ؟ آدم علیہ السلام نے عرض کی : بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر یہ رونا دھونا کیسا ہے؟ آدم علیہ السلام نے عرض کی : میں کیوں نہ روؤں کہ مجھے رحمٰن کے پڑوس سے نکال دیا گیا۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا : یہ کلمات پڑھو تو اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کر کے تمہارا گناہ معاف فرما دے گا : اللهم ! إني أسألك بحق محمد وآل محمد، سبحانك، لا إله إلا أنت، عملتُ سوءًا وظلمت نفسي، فتب علي؛ إنك أنت التواب الرحيم، اللهم ! إني أسألك بحق محمد وآل محمد، عملت سوءا و ظلمت نفسي، فتب علي، إنك أنت التواب الرحيم. ”اے اللہ ! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں۔ تو پاک ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے غلطی کی ہے اور اپنی جان پر ظلم کمایا ہے۔ تو میری توبہ قبول کر لے۔ یقینا تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“ یہی وہ کلمات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھائے تھے۔“ (فوائد أبي بكر الأبھري:17، مسند الديلمي بحواله كنز العمال:33457)

تبصرہ: یہ جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ :
(۱) اس میں حماد بن عمرو نصیبی راوی اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنے والا اور سخت جھوٹا ہے۔
(۲) سری بن خالد بن شداد عوفی راوی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ (ميزان الاعتدال:117/2)
حافظ سیوطی نے اس کی سند کو ’’ واہ “ (ضعیف ) قرار دیا ہے۔ (الدر المنثور في التفسير بالمأثور:147/1)
نیز یہ روایت قرآن کریم میں بیان کیے گئے کلمات کے خلاف بھی ہے۔

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۰

 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لما نزلت الخطيئة بآدم، وأخرج من جوار رب العالمين أتاه جبرئيل، فقال: يا آدم! ادع ربك، قال: يا حبيبي جبرئيل! وبما أدعو؟ قال: قل يا رب! أسألك بحق خمسة الذين تخرجهم من صلبي آخر الزمان، الا تبت علي ورحمتني، فقال : حبيبي جبريل! اسمحهم لي، قال: محمد النبي، فدعا بھم، فتاب الله عليه، وذلك قوله: ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ﴾ وما من عبد يدعو بها، إلا استحباب الله له.
’’جب آدم علیہ السلام سے غلطی ہو گئی اور انہیں رب العالمین کے پڑوس سے نکال دیا گیا تو ان کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہنے لگے : اے آدم ! اپنے رب سے دعا کرو۔ آدم علیہ السلام نے کہا : کیسے ؟ انہوں نے کہا : کہو کہ اے میرے رب ! میں تجھ سے ان پانچ لوگوں کے طفیل التجا کرتا ہوں جن کو تو میری نسل سے آخری زمانے میں پیدا کرنے والا ہے کہ تو میری توبہ قبول کر لے اور مجھ پر اپنی رحمت فرما۔ آدم علیہ السلام نے کہا : میرے دوست جبریل ! مجھے ان پانچوں لوگوں کے بارے میں بتا دے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ان کے وصیت یافتہ سیدنا علی، ان کی بیٹی سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ ان کلمات کے ساتھ آدم علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آدم علیہ السلام کو کلمے سکھانے کا جو ذکر کیا ہے، اس سے مراد یہی کلمات ہیں۔ جو بھی بندہ ان کلمات کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرمائے گا۔ “ (شواھد التنزيل لقواعد التفضيل للحسكاني:102/1)

تبصرہ: یہ سند بھی اندھیری ہے۔
احمد بن سلیمان کون ہے؟ اس کا تعین نہیں ہو سکا۔
اسی طرح ابوسہل واسطی کی تعیین بھی نہیں ہوئی۔
روایت کا متن دیکھنے سے یہ دونوں جھوٹے اور رافضی معلوم ہوتے ہیں۔

اہل سنت والجماعت کا اتفاقی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ سے چھپا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز عطا نہیں کی تھی، نہ ہی خلافت کے حوالے سے ان کے بارے میں وصیت کی تھی یہ رافضیوں کا من گھڑت عقیدہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس خاص علم تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خلافت کی وصیت کی تھی۔

نیز جن کلمات سے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، وہ قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ان میں کسی مخلوق کے واسطے یا وسیلے کا کوئی ذکر نہیں۔

 آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۱

 

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمان باری تعالیٰ :﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيهِ﴾ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سأله بحق محمد، وعلي، وفاطمة، والحسن، والحسين
’’آدم علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے واسطے سے دعا کی تھی۔“ (مناقب علي لابن المغازلي:89)

تبصره: یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
٭ اس کا راوی عمرو بن ابی المقدام بن ثابت ’’کذاب“ اور ’’متروک“ ہے۔
(1) علی بن شقیق کہتے ہیں :
سمعت عبدالله بن المبارك، يقول على رؤوس الناس : دعوا حديث عمرو بن ثابت فإنه كان يسب السلف.
’’میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرعام یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات کو چھوڑ دو، کیونکہ وہ اسلاف امت کو گالیاں بکتا تھا۔“ (مقدمة صحيح مسلم، ص:11، طبع دارالسلام)

(2) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ولا مأمون، لا يكتب حديثه.
’’یہ قابل اعتبار راوی نہیں، اس کی حدیث لکھی ہی نہ جائے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي:121/5، وسنده حسن)

نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (تاريخ يحيي بن معين:1624)

(3) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي عندھم. ’’یہ راوی محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔“ (كتاب الضعفا،ص:87)

(4) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف و متروک راویوں میں شمار کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:401)

(5) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه، كان ردبىء الرأي، شديد التشيع.
’’اس کی حدیث ضعیف ہے، اسے (متابعات و شواہد میں ) لکھا جا سکتا ہے۔ یہ برے عقائد کا حامل کٹر شیعہ تھا۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:233/6)

(6) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔“ (الجرح و التعديل:323/6)

(7) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:45)

(8) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي الوضوعات، لا يحل ذكره إلا على سبيل الاعتبار.
’’یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف (متابعات و شواہد) میں ذکر کرنا جائز ہے۔“ (كتاب المجروحين:76/2)

(9) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والضعف على رواياته بين. ’’اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:132/5)

٭ اس کا ایک راوی حسین یا حسن اشقر جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف“ ہے۔ اس کے بارے میں :
(1) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه نظر. ’’یہ منکرالحدیث راوی ہے۔“ (التاريخ الكبير :385/2)

نیز فرماتے ہیں :
عنده مناكير. ”اس کے پاس منکر روایات ہیں۔“ (التاريخ الصغير:291/2)

(2) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منكر الحديث، وكان صدوقا. ’’اس کی حدیث منکر ہے، اگرچہ خود سچا تھا۔“ (سؤالات ابن ھانئ:2358)

(3) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھو شيخ منكر الحديث. ’’یہ منکر احادیث بیان کرنے والا شیخ ہے۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:50/3)

(4) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ليس بقوي في الحديث. ’’حدیث بیان کرنے میں بہت کمزور تھا۔“ (الجرح و التعديل:49/3)

(5) علامہ جوزجانی لکھتے ہیں :
غال من الشتامين للخيرة. ’’یہ غالی رافضی تھا، صحابہ کرام کو سخت برا بھلا کہتا تھا۔“ (أحوال الرجال:90)

(6) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جماعة من ضعفاء الكوفيين يحيلون بالروايات على حسين الأشقر، على أن حسينا ھذا في حديثه بعض ما فيه.
’’ضعیف کوفی راویوں کی ایک جماعت حسین اشقر کی طرف روایات منسوب کرتی تھی۔ حالانکہ خود اس حسین کی حدیث میں بھی ضعف موجود ہے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:362/2)

(7) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”غیرقوی“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:195)

(8) امام نسائی، نے اسے ”غیرقوی“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:146)

(9) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وھو شيعي جلد، وضعفه غير واحد. ’’یہ کٹر شیعہ تھا اور اسے بہت سے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (البداية والنھاية:86/6)

مزید فرماتے ہیں :
وھو شيعي متروك. ’’یہ شیعہ اور متروک راوی ہے۔“ (تفسير ابن كثير:570/3)

(10) حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (مجمع الزوائد:102/9)

(11) حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شيعي مختلق. ’’یہ راوی شیعہ اور جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔“ (الفتح السماوي بتخريج أحاديث القاضي البيضاوي للمناوي:869)

(12) یہی بات علامہ زیلعی حنفی نے لکھی ہے۔ (تخريج أحاديث الكشاف:335/3)

(13) علامہ سیوطی لکھتے ہیں :
حسين الأشقر متھم. ’’حسین اشقر پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے۔“ (ذيل الأحاديث الموضوعة،ص:58)

لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقريب التھذيب: 1318) کا اسے غالی شیعہ اور وہمی کہنے کے ساتھ ساتھ سچا کہنا درست نہیں۔

(14) خود حافظ موصوف اسے ’’ضعیف“ بھی قرار دے چکے ہیں۔ (فتح الباري:28/6)

(15) حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اس روایت میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔ نیز مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے باسند صحیح یوں ثابت ہے :
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ قال : أي رب ! ألم تخلقني بيدك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تنفخ في من روحك ؟ قال : بلى , قال : أي رب ! ألم تسكني جنتك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تسبق رحمتك غضبك ؟ قال : بلى، قال : أرأيت إن أنا تبت وأصلحت، أراجعي أنت إلى الجنة ؟ قال : بلى، قال : فهو قوله : ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (سورة البقرة أية 37)
”آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی“۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تو نے مجھ میں اپنی طرف سے روح نہیں پھونکی ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اے رب ! کیا تو نے مجھے جنت میں نہیں بسایا تھا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تیری رحمت تیرے غضب پر غالب نہیں ہے ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اگر میں توبہ کروں اور نیک بن جاؤں تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں جگہ دے گا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔۔۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہی اس آیت کی تفسیر ہے۔“ . (المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 594/2، ح:4002 وسنده صحيح)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث صحيح الإسناد. ’’ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔

اس آیت کریمہ کی یہی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد، مشہور تابعی امام اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی (م : ۱۲۷ھ) نے بھی کی ہے۔ (التفسير من سنن سعيد بن منصور:186، وسنده صحيح)

صحابی رسول کی اس صحیح و ثابت تفسیر کو چھوڑ کر من گھڑت، باطل اور ضعیف روایات سے آیت کریمہ کی تفسیر کرنا قرآن کریم کی معنوی تحریف کے مترادف ہے۔

 

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۲

آدم علیہ السلام کے توسل کے بارے میں ایک روایت یوں ہے :
لمّا أصاب آدم الذّنب نودي: أن اخرج من جواري، فخرج يمشي بين شجرالجنّة، فبدت عورته، فجعل ينادي: العفو العفو، فاذا شجرة قد أخذت برأسه، فظنَّ أنّها قد أُمرتْ به، فنادى: بحقِّ مُحمّد، أَلا عفوتَ عنِّي، فَخُلِّيَ عنه، ثم قيل له: أتعرف محمدا؟ قال: نعم، قيل: وكيف؟ قال: لَمَّا نفختَ فيَّ يا ربِّ الرُّوحَ، رفعتُ رأسي الى العرش، فاذا فيه مكتوب: محمد رسول الله، فعلمت أنَّك لم تخلق خلقا أكرم عليك منه.
’’ جب آدم علیہ السلام سے غلطی سرزد ہوئی تو ان کو غیب سے آواز آئی : میرے پڑوس سے نکل جاؤ۔ آدم علیہ السلام جنت کے درختوں کے درمیان چلتے ہوئے نکل رہے تھے کہ ان کا ستر کھل گیا۔ انہوں نے معافی معافی پکارنا شروع کر دیا۔ اچانک ایک درخت نے ان کے سر کو پکڑ لیا۔ آدم علیہ السلام سمجھے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ہے۔ پھر انہوں نے یوں دعا کی : اے اللہ ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے طفیل مجھے معاف فرما دے۔ اس طرح ان کی خلاصی ہو گئی۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیسے جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : اے میرے رب ! جب تو نے مجھ میں روح پھونکی تو میں نے عرش کی طرف اپنا سر اٹھایا اور دیکھا کہ اس میں محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لکھا ہوا ہے، تب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ تجھے ساری مخلوق سے بڑھ کر محبوب ہیں۔ “ (الإشراف في منازل الإشراف لابن أبي الدنيا:24، تاريخ دمشق لابن عساكر:386/7)

تبصرہ: یہ جھوٹ کا پلندا ہے جو ان نامعلوم اور مبہم راویوں نے اکٹھا کیا ہے :
(۱) محمد بن مغیرہ مازنی راوی کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔
(۲) اس کے باپ کے متعلق بھی کوئی آگاہی نہیں ملی۔
(۳) رجل من اہل الکوفہ، مبہم اور مجہول ہے۔
(۴) عبدالرحمٰن بن عبدربہ مازنی کی واضح توثیق درکار ہے۔
(۵) شیخ من اہل المدینہ بھی مجہول ہے۔
اس سند میں مبہم اور مجہول راویوں نے بسیرا کر رکھا ہے۔ یہ روایت انہی نامعلوم راویوں کی گھڑنتل ہے۔

تنبیہ:

سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اختصم ولد آدم، فقال بعضهم: أيّ الخلق أكرم على الله؟ قال بعضهم: آدم، خلقه الله بيده، وأسجد له الملائكته، قال آخرون: الملائكة الذين لم يعصوا الله، فقالوا: بيننا وبينكم أبونا، فانتهوا إلى آدم، فذكروا له ما قالوا، فقال: يابني ! إنَّ أكرم الخلق، ما بدا إن نفخ فيَّ الرُّوح، فما بلغ قدميَّ حتى استويتُ جالسا، فبرق لي العرش، فنظرت فيه : محمد رسول الله، فذاك أكرم الخلق على الله.
’’ آدم علیہ السلام کی اولاد نے آپس میں بحث و تکرار کی کہ اللہ کے نزدیک سب معزز مخلوق کون سی ہے ؟ بعض نے کہا کہ وہ آدم علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اسے فرشتوں سے سجدہ کرایا۔ دوسروں نے کہا کہ فرشتے سب سے معزز مخلوق ہیں کیونکہ انہوں نے اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کی۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم اپنے والد سے فیصلہ کراتے ہیں۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس پہنچے اور ساری بات انہیں بتائی۔ آدم علیہ السلام نے فرمایا : میرے بیٹو ! اللہ کے ہاں سب سے معزز مخلوق وہ ہستی ہے جو مجھ میں روح پھونکے جانے کے وقت ظاہر ہوئی۔ ابھی روح میرے قدموں تک نہیں پہنچی تھی کہ میں سیدھا ہو کر بیٹھ سکتا۔ اس وقت عرش چمکا اور میں نے اس میں محمد رسول اللہ لکھا دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سب سے معزز مخلوق ہیں۔ “ (الإشراف في منازل الإشراف لابن أبي الدنيا:23، تاريخ دمشق لابن عساكر:386/7)

تبصرہ: یہ بےثبوت قول ہے، کیونکہ :
(۱) اس کا راوی محمد بن صالح بن مہران قرشی ’’مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (125/9) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

(۲) اس کا استاذ عون بن کہمس بھی ’’مجہول الحال“ ہے۔ اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا أعرفه. ’’ میں اسے نہیں جانتا۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:387/6، وسنده صحيح)

امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اسے ثقات (515/8) میں ذکر کرنا:

رہا امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اسے ثقات (515/8) میں ذکر کرنا، تو وہ مفید نہیں، کیونکہ انہوں نے کتنے ہی مجہول راویوں کو ثقات میں ذکر کر دیا ہے۔

رہی بات امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے قول کی کہ انہوں نے اس کے بارے میں فرمایا :
لم يبلغني إلا خير. ’’ مجھے اس کے متعلق خیر ہی پہنچی ہے۔ “ (سوالات الآجري:1063)

تو یہ قول ثابت نہیں، کیونکہ ابوعبید الآجری خود نامعلوم و مجہول ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ مقبول “ یعنی مجہول الحال کہا ہے۔ (تقريب التھذيب: 5225)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہی راجح ہے۔
یہی بات درست ہے کہ یہ مجہول راوی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ
(307/2) کا اسے ثقہ قرار دینا بے دلیل اور مرجوح ہے۔

(۳) سند میں مذکور ابوالاسود طفاوی نامی راوی کی توثیق کسی مجہول ہی کی طرف سے ہے۔
جو خود مجہول یا ضعیف ہو، اس کی توثیق کا کیا اعتبار ؟
پھر اس طفاوی کا امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے سماع ولقاء بھی درکار ہے۔

سیدنا آدم علیہ السلام کے بارے میں اس طرح کا اڑتا ہوا قول حجت نہیں ہو سکتا، جبکہ یہ قرآن مجید اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ثابت شدہ تفسیر کے بھی خلاف ہے۔ 

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۳

 

حفص بن سائب حنظلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد کورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی :
اللھم! بحق آدم و ذريته من الأنبياء، أن تشفي فلان بن فلان، وفلانة بنت فلان.
’’ اے اللہ ! آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد میں آنے والے انبیائے کرام کے طفیل فلاں بن فلاں اور فلانہ بنت فلاں کو شفا دے دے۔۔۔ “ (أخرجه المستغفري كا في الأجوبة المرضية للسخاوي:316/1)

تبصرہ : مستغفری کی کتاب مفقود ہے۔ چراغ لیے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
اس روایت کی سند کا علم نہیں ہو سکا۔
بےسند روایات دین نہیں بن سکتیں۔

 

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۴

 

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لما اقترف آدم الخطيئة، قال : يا رب! أسألك بحق محمد، لما غفرت لي، فقال الله عزوجل: يا آدم ! وكيف عرفت محمداً ولم أخلقه ؟ قال : يا رب، لأنك لما خلقتني بيدك، ونفخت في من روحك، رفعت رأسي، فرأيت على قوائم العرش مكتوبا : لا إله إلا الله، محمد رسول الله، فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك . فقال الله عزوجل: صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إلي، وإذ سألتني بحقه، فقد غفرت لك، ولولا محمد ما خلقتك.
’’ جب آدم علیہ السلام نے گناہ کا ارتکاب کیا تو انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب ! میں تجھ سے بحق محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم ! تو نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیسے پہچان لیا جبکہ میں نے ابھی تک اسے پیدا ہی نہیں کیا ؟ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اس لیے کہ جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں اپنی طرف سے روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا اور عرش کے پائیوں پر لا إله إلا الله، محمد رسول الله لکھا دیکھا۔ میں اسی وقت جان گیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اسی کا نام لکھا ہے جو مخلوق میں سے تجھے سب سے محبوب ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : آدم ! تو نے سچ کہا ہے۔ وہ ساری مخلوق میں سے مجھے زیادہ محبوب ہیں۔ چونکہ تو نے مجھ سے ان کے بحق مانگا ہے تو میں نے تجھے معاف کر دیا ہے۔ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔“ (المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 614/2، 615، ح 4228، دلائل النبوة للبيھقي:488/5، تاريخ دمشق لابن عساكر:437/7)

تبصرہ: یہ موضوع ( من گھڑت ) روایت ہے۔
جب امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’ صحیح الاسناد“ کہا تو ان کے ردّ میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا :

بل موضوع. ’’ بلکہ یہ روایت تو موضوع ( من گھڑت ) ہے۔“ (تلخيص المستدرك:615/2)

احمد رضا خان بریلوی صاحب، شاہ عبدالعزیز دہلوی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ اسی لیے محدثین نے یہ ضابطہ مقرر کر دیا ہے کہ مستدرک حاکم پر ذہبی کی تلخیص دیکھنے کے بعد اعتماد کیا جائے گا۔“
(فتاوي رضويه: 546/5)

اور جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل (ميزان الاعتدال:504/3، ت:4604) کہا تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے اس حکم کو برقرار رکھا۔ (لسان الميزان:359/3، 360)

امام بیہقی رحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
تفرد به عبدالرحمن بن زيد بن أسلم من ھذا الوجه عنه، وھو ضعيف.
’’ اس سند سے اس روایت کو بیان کرنے میں اپنے والد سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم اکیلا ہے اور وہ ضعیف راوی ہے۔“(دلائل النبوة:489/5)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے علامہ سبکی نقل کرتے ہیں :
وأما ما ذكره في قصة آدم، من توسله، فليس له أصل، ولا نقله أحد عن النبي صلي الله عليه وسلم بإسناد يصلخ للاعتماد عليه، ولا الاعتبار، ولا الاستشھاد.
’’ آدم علیہ السلام کے قصے میں ان کے توسل کا جو واقعہ بیان ہوا ہے، وہ بےاصل ہے۔ کسی نے بھی اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند کے ساتھ بیان نہیں کیا جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہو یا جسے اعتبار و استشہاد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہو۔“ (شفاء السقام،ص:361، طبع جديد)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ سے اس کے راوی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم پر ’’ ضعیف“ ہونے کی جرح ذکر کی ہے۔ (البداية والنھاية:393/2)

امام صاحب خود عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں فرماتے ہیں :
وھو ضعيف. ’’ یہ ضعیف راوی ہے۔“ (تفسير ابن كثير:12/3)

حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وإني لأتعجب منه، كيف قلد الحاكم في تصحيحه، مع أنه حديث غير صحيح ولا ثابت، بل ھو حديث ضعيف الإسناد جدا، وقد حكم عليه بعض الأئمة بالوضع.
’’ مجھے تو حیرانی ہے کہ سبکی نے اس حدیث کو صحیح قرار دینے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی بات کو آنکھیں بند کر کے کیوں مان لیا ؟ یہ حدیث صحیح و ثابت نہیں، بلکہ سخت ضعیف سند کے ساتھ مروی ہے۔ بعض ائمہ کرام نے تو اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي ص:32)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وفيه من لم أعرفھم. ’’ اس روایت میں کئی راوی ایسے ہیں جنہیں میں نہیں پہچانتا۔“ (مجمع الزوائد:353/8)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (مناھل الصفا في تخريج أحاديث الشفا:96)

ابن عراق کنانی (م : ۹۶۳ھ) نے اسے ’’ باطل“ قرار دیا ہے۔ (تنزيه الشريعة:76/1)

ملا علی قاری حنفی نے بھی اسے ’’ ضعیف“ کہا ہے۔ (شرح الشفا:224/2)

قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بھی اسے ’’ ضعیف“ کہا ہے۔ (خطبات حكيم الاسلام:125/2)

غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب نے بھی اسے ’’ ضعیف“ تسلیم کیا ہے۔ (شرح صحيح مسلم:59/7)

اس کا راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم جمہور کے نزدیک ’’ ضعیف و متروک“ ہے۔

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’ جمہورمحدثین کرام اس کو ضعیف کہتے ہیں۔“ (مجمع الزوائد:21/2)

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الكل. ’’ اسے سب نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (البدرالمنير:458/5)

اس کو امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابوزرعہ الرازی، امام دارقطنی، امام ابن سعد، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی وغیرہم نے ’’ ضعیف“ قرار دیا ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ”اس نے اپنے باپ سے موضوع ( من گھڑت ) احادیث بیان کی ہیں۔“(المدخل:154)

یہ حدیث بھی عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ زید بن اسلم سے روایت کی ہے، لہٰذا یہ بھی موضوع ( من گھڑت ) ہے۔

اس کے دوسرے راوی عبداللہ بن مسلم فہری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا أدري من ذا؟ ’’ میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے ؟“ (تلخيص المستدرك:615/2)

تنبیہ1:
یہی روایت اسی سند سے امام ابوبکر آجری نے اپنی کتاب
(الشریعۃ ص427) میں موقوفاً بھی ذکر ی ہے۔

تنبیہ2:
یہ روایت بعض الناس کو کوئی فائدہ نہیں دے گی کیونکہ یہی لوگ یہ من گھڑت روایت بھی پیش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا۔ اس روایت کو صحیح ثابت کرنے پر تو انہوں نے اپنا پورا زور صرف کر دیا لیکن انہیں اہل حق سے منہ کی کھانا پڑی۔

اگر اس نور والی روایت کو صحیح مانیں تو زیر بحث روایت باطل ہو جائے گی۔ دونوں میں سے کسی ایک کو تو جھوٹ ماننا ہی پڑے گا۔ زیر بحث جھوٹی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ ابھی میں نے محمد کو پیدا نہیں کیا تو تم نے انہیں کیسے پہچان لیا ؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا نہیں ہوئے تھے۔ جبکہ نور والی جھوٹی روایت میں ہے کہ ہر چیز سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا گیا۔ اب فیصلہ بعض الناس خود ہی کر لیں کہ وہ دونوں جھوٹوں کو چھوڑیں گے یا کسی ایک جھوٹ کو اپنا لیں گے۔ اگر وہ کسی ایک جھوٹ کو اپنانا چاہتے ہیں تو بتا دیں کہ وہ کس پر اعتماد کریں گے ؟

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۵

عبدالکریم قرشی کا بیان ہے کہ :
نبت اللبان من دموع آدم عليه السلام، والزعفران من دموع داود، على نبينا وعليهما الصلاة والسلام، قال: فلما اشتد جوع آدم عليه السلام رفع رأسه إلى السماء، فقال : يا سماء ! أطعميني، فأنا آدم صفي الله تعالى فأوحى الله عز وجل إلى السماء أن أجيبي عبدي، فقالت: يا آدم ! لسنا نطعم اليوم من عصى الله تعالى، فبكى آدم عليه السلام أيضا أربعين صباحا، فلما اشتد جوعه رفع رأسه إلى السماء، فقال: أسألك يا رب ! بحق النبي الأمي الذي تريد أن تخرجه من صلبي إلا تبت علي وأطعمتني.
’’ آدم علیہ السلام کے آنسوؤں سے کانٹے دار بوٹی پیدا ہوئی، جبکہ داؤد علیہ السلام کے آنسوؤں سے زعفران پیدا ہوئی۔ جب آدم علیہ السلام کو بھوک کی شدت محسوس ہوئی تو انہوں نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور کہا : اے آسمان ! مجھے کھانا کھلا، میں آدم صفی اللہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندے کو جواب دو۔ آسمان نے کہا : آدم ! ہم آج اس شخص کو کھانا نہیں کھلائیں گے جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ اس پر آدم علیہ السلام چالیس دن روتے رہے۔ جب ان کی بھوک مزید بڑھ گئی تو انہوں نے کہا : اے میرے رب ! میں تجھ سے اس اُمی نبی کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جسے تو میری نسل سے پیدا کرنا چاہتا ہے کہ تو میری توبہ قبول کر لے اور مجھے کھانا کھلا دے۔“ (العظمة لأبي الشيخ الأصبھاني:1597،1596/5، ح:1061)

تبصرہ: یہ کائنات کا بدترین جھوٹ ہے اور اس کی سند باطل ہے، کیونکہ :
(۱) ابویعقوب یوسف بن دودان کون ہے ؟ معلوم نہیں ہو سکا۔
(۲) محمد بن یوسف تمیمی کے حالات نہیں مل سکے۔
(۳) ابراہیم بن محمد سے مراد اگر ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ اسلمی ہے تو وہ جمہور کے نزدیک ’’ متروک“ اور کذاب تھا۔
(۴) عثمان بن عبدالرحمٰن قرشی سے مراد اگر وقاصی ہے تو وہ باتفاق محدثین ’’ متروک“ اور ’’ ضعیف“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

متروك، وكذبه ابن معين. ”یہ متروک ہے۔ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔“ (تقريب التھذيب:4493)
(۴) نہ جانے عبدالکریم قرشی کس مصیبت کا نام ہے ؟ اس روایت کو پیش کرنے والے اس راوی کا تعارف کرائیں۔ 

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل: تجزیہ دلیل نمبر ۱۶

 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
لما خلق الله آدم ونفخ فيه من روحه عطس، فقال: الحمد لله رب العالمين، فقال له ربه: يرحمك ربك، فلما اسجد له الملائكة تداخله العجب، فقال: يا رب! خلقت خلقا أحب إليك مني؟ فلم يجب، ثم قال الثانية، فلم يجب، ثم قال الثالثة، فلم يجب، ثم قال الله عزوجل له : نعم، ولو لا ھم ما خلقتك، فقال: يا رب! فأرنيھم، فأوحي الله عزوجل إلي ملائكة الحجب أن ارفعوا الحجب، فلما رفعت إذا آدم بخمسة أشباح قدام العرش، فقال: يا رب! من ھؤلاء؟ قال: يا آدم! ھذا محمد نبيي، وھذا علي أمير المؤمنين ابن عم نبيي ووصيه، وھذاه فاطمة ابنة نبيي وھذان الحسن والحسين ابنا علي وولدا نبيي، ثم قال: يا آدم! ھم ولدك، ففرح بذلك، فلما اقترف الخطيئة قال: يا رب! أسألك بمحمد وعلي وفاطمة والحسن والحسين لم غفرت لي، فغفر الله له بھٓٓذا.
’’ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں الہام کیا کہ وہ الحمد لله رب العالمين کہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تجھ پر تیرا رب رحم کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے انہیں سجدہ کرایا تو ان میں تکبر آیا اور انہوں نے کہا : اے میرے رب ! کیا تو نے کوئی ایسی مخلوق بھی پیدا کی ہے جو تجھے مجھ سے بڑھ کر محبوب ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے دوسری مرتبہ یہی سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے پھر جواب نہ دیا۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں، اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! میری ان سے ملاقات کرا دے۔ اللہ تعالیٰ نے حجاب کے فرشتوں کی طرف وحی کی کہ حجاب اٹھا دو۔ جب پردے اٹھ گئے تو آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ عرش کے سامنے پانچ مورتیاں نظر آئیں۔ انہوں نے عرض کیا : اے میرے رب ! یہ کون ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ ( پہلے ) میرے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، (دوسرے ) امیر المومنین اور میرے نبی کے چچازاد اور وصی علی ہیں، (تیسری ) میرے نبی کی بیٹی فاطمہ ہیں اور (چوتھے، پانچویں ) علی کے بیٹے اور میرے نبی کے نواسے حسن و حسین ہیں۔ پھر فرمایا : اے آدم ! یہ تیری اولاد ہیں۔ اس سے آدم علیہ السلام خوش ہو گئے۔ جب آدم علیہ السلام نے گناہ کا ارتکاب کیا تو کہا : اے میرے رب ! میں تجھ سے محمد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین کے واسطے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ “ (اليقين لعلي بن موسي بن طاوس الحسني:175،174)

تبصرہ: یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے اور کسی مجہول رافضی، شیعہ اور دشمن صحابہ کی کارستانی ہے۔ اس روایت میں علی بن ابراہیم قاضی اور اس کے باپ سمیت کئی راوی بالکل مجہول اور نامعلوم ہیں۔ نیز ابواحمد جرجانی قاضی راوی بھی موجود ہے۔ اگر اس سے مراد محمد بن علی بن عبدل ہے تو وہ ’’متہم بالکذب “ راوی ہے۔ (الموضوعات لابن الجوزي:349/1)

اگر یہ محمد بن محمد بن مکی ہے تو وہ بھی ’’ ضعیف “ راوی ہے۔ اسی طرح حجاج نامی راوی بھی اس میں موجود ہے۔ اگر اس سے مراد حجاج بن ارطاۃ ہے تو وہ بھی ’’ ضعیف و مدلس “ راوی ہے۔ اسی طرح اس سند میں ابن ابی نجیح ’’ مدلس “ بھی ہے۔ نیز علی بن موسیٰ بن طاؤوس حسنی راوی رافضی ہے۔ اس کی نقل کا کوئی اعتبار نہیں۔

قارئین کرام ہی فیصلہ فرمائیں کہ جس سند میں اس قدر جہالتیں اور قباحتیں موجود ہوں اور جس روایت میں رافضی عقائد جھلک رہے ہوں، اسے بطور دلیل ذکر کرنا بھلا کسی اہل سنت کو زیب دیتا ہے ؟

قارئین کرام ! ایک طرف قرآن کریم سے صراحتاً ثابت ہے کہ سیدنا و ابونا آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی بلند صفات کا واسطہ دیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف قرآن کریم کے خلاف بعض لوگ موضوع، من گھڑت اور ضعیف روایات پر اعتماد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل، سیدہ فاطمہ، سیدنا علی اور حسن و حسین، رضی اللہ عنہم کا واسطہ دیا تھا۔ فیصلہ خود کریں کہ آپ کو قرآن کریم میں فرمائی ہوئی اللہ تعالیٰ کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے یا جھوٹے، بدکردار، رافضی، بددین و بدعقیدہ اور نامعلوم ومجہول راویوں کی بیان کردہ نامعقول داستانوں پر ؟

ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما أولئك الضلال أشباه المشركين والنصارى، فعمدتهم إما أحاديث ضعيفة أو موضوعة أو منقولات عمن لا يحتج بقوله، إما أن يكون كذبا عليه، وإما أن يكون غلطا منه، إذ هي نقل غير مصدق عن قائل غير معصوم. وإن اعتصموا بشيء مما ثبت عن الرسول صلى الله عليه وسلم حرفوا الكلم عن مواضعه، وتمسكوا بمتشابھه، وتركوا محكمه كما يفعل النصاري.
’’ مشرک نصرانیوں سے مشابہت رکھنے والے یہ گمراہ لوگ یا تو من گھڑت و ضعیف روایات پر اعتماد کرتے ہیں یا ایسے لوگوں کے اقوال و مرویات پر جن کا قول حجت نہیں ہوتا۔ یہ اقوال یا تو قائل کی طرف جھوٹے منسوب کیے گئے ہوتے ہیں یا قائل کا علمی تسامح ہوتے ہیں۔ یوں یہ اقوال غیر معصوم اشخاص کی غیر مصدقہ مرویات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اگر کبھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث سے دلیل لیتے ہیں تو ان کے معانی و مفاہیم میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں اور محکم و صریح کو چھوڑ کر نصاریٰ کی طرح متشابہ الفاظ سے استدلال و استنباط کرتے ہیں۔ “ (تلخيص كتاب الاستغاثة المعروف بالرد علی البكري، ص:325)

نیز وہ ضعیف حدیث کے ناقابل اعتبار ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں :
لم يقل أحد من الأئمة: إنه يجوز أن يجعل الشيء واجبا أو مستحبا بحديث ضعيف، ومن قال ھذا، فقد خالف الإجماع.
’’ ائمہ دین میں سے کسی نے بھی شریعت کے کسی واجب و مستحب امر کو ضعیف حدیث سے ثابت کرنا جائز قرار نہیں دیا۔ جو شخص ایسی بات کرتا ہے، وہ اجماع کا مخالف ہے۔ “ (قاعدة جليلة في التوسل ص:162)

بریلوی بھائیوں کی خدمت میں ان کے امام جناب احمد رضا خان بریلوی کا یہ قول پیش کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ ضعیف حدیثیں کسی غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرتیں۔ “
(فتاوي رضويه: 726/29)

سیدنا آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماء و صفات کا واسطہ دینا قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ضعیف حدیثیں جو کسی غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرتیں، کیا اب بھی کوئی ان پراعتماد کرے گا ؟

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين

اس تحریر کو اب تک 87 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply