اور سوئی مل گئی

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منسوب ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ :
استعرت من حفصة بنت رواحة إبره، كنت أخيط بها ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسقطت مني الإبرة، فطلبتها، فلم أقدر عليها، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتبينت الإبرة من شعاع نور وجهه، فضحكت، فقال : يا حميراء ! لم ضحكت؟ قلت : كان كيت وكيت، فنادٰي بأعلٰي صوته : يا عائشة ! الويل ثم الويل، ثلاثا، لمن حرم النظر إلٰي هٰذا الوجه، ما من مؤمن ولا كافر، إلا ويشتهي أن ينظر إلٰي وجهي
’’ میں نے حفصہ بنت رواحہ سے ایک سوئی ادھار لی، جس کے ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سی رہی تھی۔ وہ سوئی گر گئی، میں نے تلاش کیا، لیکن نہ مل سکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرے کے نور سے وہ سوئی چمک اٹھی۔ میں ہنس دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حمیرا ! آپ کیوں ہنسی ہیں ؟ میں نے واقعہ کہہ سنایا۔ آپ نے بلند آواز سے پکار کر تین مرتبہ فرمایا : عائشہ ! اس شخص کے لیے ویل ہے، جو اس چہرے کو دیکھنے سے محروم رہا۔ ہر مؤمن اور ہر کافر میرے چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے۔“

لیکن یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
➊ مسعدہ بن بکر فرغانی کی اس روایت کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ [ميزان الاعتدال : 98/4، ت : 8464] اور ابن عراق کنانی [تنزيه الشريعه : 117/1، الرقم : 327] نے جھوٹ کہا ہے۔
اس کی ایک اور روایت کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے باطل (جھوٹی ) قرار دیا ہے۔ [لسان الميزان : 22/6]
➋ اس میں محمد بن اسحاق کی ’’ تدلیس“ بھی ہے، سماع کی تصریح نہیں ملی۔
لہٰذا یہ جھوٹی روایت ہے۔

 

یہ تحریر اب تک 82 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply