امام ابن تیمیہ اور تقلید

سوال : محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو قرآن و سنت کا پابند بنائے رکھے اور ہم سے اپنے دین کی خدمت لے ہماری طاقت کے مطابق۔ محترم حافظ صاحب چند سوالات ہیں مہربانی فرما کر ان کے جوابات مفصل دیئے جائیں۔ جوابات دینے میں تھوڑی دیر ہو جائے تو کوئی بات نہیں جواب مفصل ہونے چاہئیں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)
➊ حافظ ابن تیمیہ رحمه الله، حافظ ابن قیم رحمه الله، ان کا مسلک ان کی کتابوں سے باحوالہ نقل فرمائیں۔ یہ مقلد تھے یا غیر مقلد۔
➋ نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا ان کتابوں میں شرک وغیرہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ بریلوی (حضرات) کتاب الروح وغیرہ سے ان کا یہ عقیدہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ مردوں کے سننے اور مدد مانگنے کے قائل تھے۔ کیا ان کی مزید (دوسری) کتابوں میں، مردے اور غائب سے مدد مانگنا، ناجائز یا شرک لکھا ہوا موجود ہے۔ اگر ہے تو باحوالہ لکھیں۔ ایک بریلوی دوست کہتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ابن تیمیہ اور ابن قیم سے ملتا ہے۔ کیا واقعی یہ بات درست ہے اگر نہیں تو وضاحت فرمائیں۔ اگر ان میں سے کوئی سوال الحدیث کیلئے موزوں ہو تو ضرور شائع کیجئے۔ جزاک اللہ خیراً
➌ بریلوی دوست کہتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب سے پہلے کسی نے قبروں سے اور غائب سے مدد مانگنا شرک نہیں لکھا۔ کیا یہ بات درست ہے اگر نہیں تو اللہ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔ کم از کم دس قدیم مفسرینِ قرآن و حدیث کے حوالہ جات لکھیں جنہوں نے غائب یا فوت شدہ سے مانگنا شرک لکھا ہو۔ یاد رہے کہ اہم مفسرین کے اقوال ہوں۔
➍ حدیث کہ جب تم کسی ویران جگہ پر ہو اور تمہاری سواری گم ہو جائے تو پکارو (اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔ ) اس کی سند اگر ضعیف ہے (تو) ثابت کریں، تمام طرق کے بارے میں بتائیں۔ جن محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان کے اقوال باحوالہ بتائیں نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا کسی اہم مفسر نے (سوائے غلام رسول سعیدی بریلوی کے ) شارح مسلم، کسی نے اس حدیث سے قبروں یا غائب سے مدد مانگنا ثابت کیا ہے ؟
فضیلۃ الشیخ یہ سوال بہت اہم ہے مفصل جواب دیجئے گا۔ اللہ آپ کو علم و عمل میں برکت دے اور دنیا اور آخرت میں آپ کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ والسلام خادم العلم و العلماء ابوعلی اسد ندیم

الجواب :
➊ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ، حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مشہور عالم بلکہ شیخ الاسلام تھے۔ ان کا مقلد ہونا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ :
◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
ولقد أنكر بعض المقلدين على شيخ الاسلام فى تدريسه بمدرسة ابن الحنبلي وهى وقف على الحنابلة، والمجتهد ليس منهم، فقال : إنما أتناول ما أتناوله منها على معرفتي بمذهب أحمد، لا عليٰ تقليدي له
”اور بعض مقلدین نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) پر اعتراض کیا کہ وہ مدرسہ ابن الحنبلی میں پڑھاتے ہیں حالانکہ یہ مدرسہ حنابلہ پر وقف ہے اور مجتہدان (حنبلیوں و مقلدین) میں نہیں ہوتا، تو انہوں نے فرمایا : میں اسے احمد (بن حنبل) کے مذہب کی معرفت پر استعمال کرتا ہوں، میں اس (احمد) کی تقلید نہیں کرتا۔“ [اعلام الموقتين 242، 241/2 مطبوعه دارالجيل بيروت لبنان، الرد على من أخلد إلى الأرض للسيوطي ص 166]

دلیل دوم :
◈ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
الشيخ الإمام العلامة الحافظ الناقد (الفقيه) المجتهد المفسر البارع شيخ الإسلام عَلم الزهاد نادرة العصر…. [تذکرۃ الحفاظ 1496/4 ت 1175]
↰ معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ حافظ ذہبی کے نزدیک مجتہد تھے۔ یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ مجتہد تقلید نہیں کرتا۔
◈ طحطاوی حنفی نے طبقة المجتهدين فى الشرع كا لأربعة وأمثالهم کے بارے میں لکھا ہے کہ :
وهم غير مقلدين اور وہ غیر مقلد ہیں [حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار 51/1]
◈ ماسٹر محمد امین اوکاڑوی دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں کہ :
”جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد شرعیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گا۔“ [تحقيق مسئله تقليد ص 5 مجموعه رسائل 21/1 مطبوعه، اكتوبر 1991ء گوجرانواله]

دلیل سوم :
کچھ لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ عوام پر فلاں (مثلاً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) یا فلاں کی تقلید واجب ہے۔ ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے :
◈ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ :
وأما أن يقول قائل : إنه يجب على العامة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم
”اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے، تو ایسی بات کوئی مسلم نہیں کہتا۔“ [مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 249/22]
↰ معلوم ہوا کہ حافظ ابن تیمیہ کے نزدیک کوئی مسلمان بھی وجوب تقلیدِ فلاں کا قائل نہیں ہے۔

دلیل چہارم :
جو شخص (تقلید کرتے ہوئے ) کسی ایک امام کے لئے تعصب کرتا ہے (جیسا کہ آلِ دیوبند وغیرہ کا طریقہ کار ہے ) تو ایسے شخص کو امام ابن تیمیہ كالر افضي…. جاهلاً ظالماً قرار دیتے ہیں دیکھئے : [مجموع فتاويٰ 252/22] یعنی ان کے نزدیک ایسا شخص جاہل، ظالم اور رافضیوں کی طرح ہے۔
↰ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مقلد نہیں تھے بلکہ متبع کتاب و سنت تھے۔ والحمدلله

➋ حافظ ابن القیم نے ایک مستقل کتاب ”اعلام الموقعین“ تقلید کے رد پر لکھی ہے جو یہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہے۔ اس کتاب کا نام جلال الدین سیوطی (متوفی 911؁ھ) ”ذم التقلید“ بتاتے ہیں دیکھئے : [الرد علی من أخلد إلی الأرض ص 166]

دلیل پنجم :
◈ حافظ ابن القیم الجوزیہ تقلید کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
وإنما حدثت هذه البدعة فى القرن الرابع المذموم على لسان رسول الله صلى الله عليه وسلم
اور یہ بدعت تو چوتھی صدی (ہجری) میں پیدا ہوئی، جس کی مذمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (مبارک) زبان سے بیان فرمائی ہے۔ [اعلام الموقعین 208/2]
↰ معلوم ہوا کہ مروجہ تقلید امام بن القیم کے نزدیک بدعت مذمومہ ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ وہ بذاتِ خود حنبلی مقلد ہرگز نہیں تھے بلکہ مجتہد و متبع کتاب و سنت تھے، والحمدلله

فائدہ : دیوبندیوں اور بریلویوں کے بزرگ ملا علی قاری حنفی (متوفی 1014؁ھ) لکھتے ہیں کہ :
ومن طالع شرح منازل السائرين تبين له أنهما كانا من أكابر أهل السنة و الجماعة ومن أولياء هذه الأمة
”اور جو شخص شرح منازل السائرین کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے واضح ہو جائے گا کہ وہ دونوں (ابن تیمیہ اور ابن القیم) اہل سنت و الجماعت کے اکابر اور اس امت کے اولیاء میں سے تھے۔“ [جمع الوسائل فی شرح الشمائل 207/1]

➌ میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی کتابوں میں شرک اکابر کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تاہم ابن القیم کی ثابت شدہ ”کتاب الروح“ اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔ یہ دونوں حضرات مردوں سے مدد مانگنے کے قائل نہیں تھے، رہا مسئلہ سماع موتیٰ کا تو یہ سلف صالحین کے درمیان مختلف فیہا مسئلہ ہے، اسے کفر و شرک سمجھنا غلط ہے۔ صحیح اور راجح یہی ہے کہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ بعض مواقع مخصوصہ کے علاوہ مُردہ کچھ بھی نہیں سنتا۔
آپ کے بریلوی دوست کا یہ دعویٰ کہ ”ہمارا عقیدہ، ابن تیمیہ اور ابن قیم سے ملتا ہے“ محتاج دلیل ہے۔ اس سے کہیں وہ اپنے مشہور عقائد مثلاً وجوب تقلید ابی حنیفہ، حاضر ناظر، نور من نور اللہ اور علم الغیب وغیرہ مسائل کا مدلل و باحوالہ ثبوت ابن تیمیہ و ابن القیم سے پیش کریں تاکہ مزید بحث و تحقیق جاری رکھی جا سکے۔

➍ بریلوی دوست کو کہیں کہ وہ کسی ایک ثقہ و مستند امام، جو کہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے پہلے گزرا ہے، سے صرف ایک حوالہ ثابت کر دے کہ قبروں سے مدد مانگنا صحیح ہے یا شرک نہیں ہے۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی پیدائش سے صدیوں پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی 728؁ھ) نے ایک کتاب الجواب الباهرفي زوار المقابر لکھی ہے جس میں قبر پرستوں کا زبردست رد کیا ہے۔
جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرف رخ کرکے سلام (السلام علیک) کی اونچی آوازیں بلند کرتے ہیں ان کے بارے میں :
◈ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
بل هذه بدعة لم يستحبها أحد من العلماء
”بلکہ یہ بدعت ہے، علماء میں سے کسی ایک نے بھی اسے مستحب قرار نہیں دیا۔“ [الجواب الباھر ص 9، مطبوعہ : الریاض، جزیرۃ العرب/ السعودیہ]
جو لوگ قبروں پر جا کر انہیں پکارتے ہیں ( ويدعونه ويحبونه مثل ما يحبون الخالق ) انہیں ابن تیمیہ نے أهل الشرك “ قرار دیا ہے [الجواب الباھر ص 21]
یہ ساری کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قبر پرستی کو پہلا سبب شرک ( هو أول أسباب الشرك فى قوم نوح ) قرار دیا ہے۔ [الجواب الباھر ص 12]
شیخ الاسلام سے صدیوں پہلے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔ أن ابن عمر كان يكره مس قبر النبى صلى الله عليه وسلم [جزء محمد بن عاصم الثقفي الاصبهاني : 27 و سنده صحيح، أبو أسامة برئي من التدليس]

فائدہ : ابن قدامہ الحنبلی (متوفی 620؁ھ) نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
وافراطاً فى تعظيم القبور أشبه تعظيم الأصنام..…
”اور قبروں کی تعظیم میں یہ افراط ہے، یہ بتوں کی تعظیم سے مشابہ ہے۔“ [المغنی 193/2 مسئلہ : 1594]
سورت یونس کی ایک آیت (101) کی تشریح میں مفسر ابن جریر طبری (متوفی 310؁ھ) فرماتے ہیں :
يقول تعالىٰ ذكره ولا تدع يا محمد من دون معبودك و خالقك شيئاً فى الدنيا ولا فى الآخرة…. إلخ
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے معبود اور خالق (اللہ) کے علاوہ دنیا و آخرت میں کسی چیز کو بھی (مافوق الاسباب) نہ پکارو إلخ“ [تفسیر طبری 122/11]
↰ قدیم مفسرین میں سے صرف اسی ایک ثقہ مفسر کا حوالہ کافی ہے۔ جو لوگ قبر پرستی کو جائز سمجھتے ہیں ان سے مطالبہ کریں کہ صرف ایک قدیم ثقہ مفسر سے قبر پرستی کا جواز ثابت کریں۔
ابن تیمیہ نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا ہے جو قبر والوں کو (مدد کے لئے ) پکارتے ہیں، دیکھئے : [کتاب الرد علی الاخنائی ص 52] اور [مجموع فتاویٰ 256/27]

➎ آپ کی بیان کردہ روایت اپنی مختلف سندوں کے ساتھ مسند ابی یعلیٰ، المعجم الکبیر للطبرانی اور مسند البزار وغیرہ میں موجو دہے۔ اس کی تمام سندیں ضعیف ہیں دیکھئے : [السلسلة الضعيفة للالباني 108/2۔ 112 ح 655، 656]
↰ مسند بزار والی سند شیخ البانی کے نزدیک شاذ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ حافظ بذاتِ خود متکلم فیہ ہیں۔
◈ حافظ دارقطنی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں فرمایا : ثقة يخطئ كثيراً ويتكل على حفظه [سؤالات حمزۃ بن یوسف الھمی للدارقطنی : 116]
◈ اور فرمایا : يخطئ فى الاسناد و المتن، حدث بالمسند بمصر حفظاً، ينظر فى كتب الناس و يحدث من حفظه، ولم تكن معه كتب فأخطأ فى أحاديث كثيرة، يتكلمون فيه، جرحه أبوعبدالرحمٰن النسائي [سوالات الحاكم للدارقطني : 23]
◈ ابواحمد الحاکم سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : يخطئ فى الإسناد و المتن دیکھئے : [لسان المیزان 237/1]
◈ بزار کو خطیب بغدادی، ابوعوانہ صاحب المسند، وغیرہما نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔
بزار کی معلول روایت کے مقابلے میں بیہقی نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :
إن لله عزوجل ملائكة فى الأرض سوي الحفظة يكتبون ما يسقط من ورق الشجر فإذا أصاب أحدكم عرجة فى الأرض لا يقدر فيها على الأعوان فليصح فليقل : عباد الله أغيثونا أو أعينونا رحمكم الله، فإنه سيعان[شعب الایمان 128/6 ح 7697 و سندہ حسن موقوف، 183/1 ح 167]
↰ صحابی کے اس قول میں زندہ فرشتوں کو پکارنے کا جواز ہے لہٰذا یہ پکارنا ماتحت الاسباب ہوا۔ اس قول میں مردہ روحوں کو پکارنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لہٖذا اسے مافوق الاسباب پکارنے کی دلیل بنا لینا غلط ہے۔

لطیفہ : مسند البزار اور بیہقی والی روایت کا ایک اسامہ بن زید اللیثی ہے جو بقول راجح حسن الحدیث ہے۔ یہ راوی اگر حنفیوں کے مخالف کسی حدیث میں آ جائے تو یہ لوگ فوراً اس پر جرح کر دیتے ہیں مثلاً دیکھئے : [ آثار السنن للنیموی] [باب ماجاء فى التغليس ح 213 عن ابي مسعود الانصاري رضى الله عنه، حاشيه]
کیا انصاف اسی کا نام ہے ؟ فقط والسلام (25 ذوالقعدہ 1426؁ھ)

یہ تحریر اب تک 44 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply