الإسلام یَعْلُو وَلَا یُعْلیٰ (اسلام مغلوب نہیں بلکہ غالب ہو گا)

تحریر :حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

اللہ پر یقین کی حقیقت کمزوری اور مصیبتوں کے دور میں ظاہر ہوتی ہے۔ صاحب یقین وہ شخص نہیں ہے جو اسلام کی قوت، مسلمانوں کے غلبے اور فتح کی خوش خبریوں پر بہت زیادہ خوش ہو جائے، خوشی سے اس کا چہرہ چمکنے لگے اور دل کشادہ ہو جائے لیکن مسلمانوں کی کمزوری اور مصیبتوں کے وقت سخت پریشان ہو کر مایوس اور نا امید ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھنے والے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب مصیبتوں اور غم کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جائیں، اسلام دشمن قومیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں، شدید تنگی اور مصائب چاروں طرف سے گھیر لیں تو اس کا اللہ پر یقین و ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ وہ ذرا بھی نہیں گھبراتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آخری فتح مسلمانوں کی ہے اور دین اسلام نے غالب ہو کر رہنا ہے۔ مجاہد کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب ہو جائے لہٰذا اس عظیم مقصد کے لئے وہ ہمیشہ صبر و یقین پر کاربند رہتا ہے۔

حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
صبر اور یقین کے ساتھ دین کی امامت حاصل ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی : وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ”اور ہم نے انہیں اپنے دین کی طرف رہنمائی کرنے والے امام بنایا کیونکہ وہ صبر کرتے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔“ [السجدة : 24] [مدارج السالكين لابن القيم 2؍154 منزلة الصبر]

انسان کو سب سے اہم چیز جو عطا کی گئی ہے وہ یقین ہے۔
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
وسلواالله اليقين و المعافاة، فإنه لم يؤت أحد بعد اليقين خيرا من المعافاة
”اللہ سے یقین اور عافیت (صحت و خیریت) کی دعا مانگو کیونکہ کسی کو بھی یقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی۔“ [ابن ماجه : 3849 و سنده صحيح، و صححه ابن حبا، الاحسان : 948 و الحاكم 1؍529 و وافقه الذهبي]
↰ یہ امت صرف اس وقت تباہ و برباد ہو گی جب مسلمان دین اسلام کے لئے اپنی کوششیں ترک کر کے، عمل کے بغیر ہی شیخ چلی جیسی امیدیں باندھ کر بیٹھ جائیں گے۔

اللہ ہی عالم الغیب ہے۔ ہمیں کیا پتا کہ کب مدد آئے گی اور کب خیر کا دور دورہ ہو گا ؟
ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ہماری امت اللہ کے اذن سے امت خیر ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد ضرور فرمائے گا اگرچہ اس میں کچھ دیر لگ جائے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کون سی نسل کے ذریعے اللہ تعالیٰ مصیبتوں کی گھنگھور گھٹائیں دور فرما کر اس امت کو سربلند کر دے گا لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔

❀ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا يزال الله يغرس فى هٰذا الدين غرسا يستعملهم فيه بطاعته إليٰ يوم القيامة
”اللہ تعالیٰ قیامت تک دین اسلام میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو اس کی اطاعت کرتے رہیں گے۔“ [ابن ماجه : 8 وسنده حسن و صححه ابن حبان، الموارد : 88]
↰ احادیث نبویہ میں بہت سی خوش خبریاں دی گئی ہیں جن سے یقین اور خوش امیدی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی میں سے اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ امت مسلمہ کی حکومت مشرق و مغرب تک پھیل جائے گی۔ دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے ہاتھوں پر فتح نہیں ہوئے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے جب یہ علاقے بھی فتح ہو کر ملک اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

❀ حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله زوي لي الأرض فرأيت مشارقها ومغاربها وإن أمتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها
”اللہ نے (ساری) زمین اکٹھی کر کے مجھے دکھائی، میں نے تمام مشرقی اور مغربی علاقے دیکھ لئے۔ بے شک میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچ جائے گی جو مجھے دکھایا گیا ہے۔“ [صحیح مسلم : 2889 ]
↰ جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ اسلام نے دنیا میں غالب ہو کر رہنا ہے تو ہم کسی خاص دور میں مسلمانوں کی کمزوری پر کیوں نا امید ہوں ؟

❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
الإسلام يعلو ولا يعليٰ
”اسلام غالب ہو گا اور مغلوب نہیں ہو گا۔“ [شرح معاني الآثار للطحاوي 3؍257 و اسناده حسن، نيز ديكهئے صحيح بخاري 3؍218 قبل ح 1354]

❀ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے خوش خبری دی ہے کہ :
ولا يزال الله يزيد أو قال : يعز الإسلام و أهله، و ينقص الشرك و أهله حتيٰ يسير الراكب بين كذايعني البحرين، لايخشي إلا جورا و ليبلغن هٰذا الأمر مبلغ الليل
”اللہ تعالیٰ اسلام کو زیادہ ہی کرتا رہے گااور مشرکین اور ان کے شرک میں کمی آتی رہے گی حتیٰ کہ سوار سفر کرے گا تو اسے ظلم کے سوا کچھ ڈر نہیں ہو گا۔ اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک دن ایسا آئے گا جب یہ دین وہاں تک پہنچ جائے گا جہاں یہ ستارہ نظر آتا ہے۔“ [حليةالاولياء لابي نعيم 6؍107، 108 و سنده صحيح، عمر و بن عبدالله الحضرمي ثقة و ثقه العجلي المعتدل وغيره]
↰ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت پھیلتی رہے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی خوش خبریاں دی ہیں جن سے ہر نا امیدی ختم ہو جاتی ہے اور مصیبتوں میں پھنسا ہوا ہر مسلمان ثابت قدم ہو جاتا ہے۔ خوشی اور راحت سے دل مطمئن ہو جاتے ہیں۔

❀ ارشاد نبوی ہے :
بشر هٰذه الأمة بالسناء و النصر و التمكين
”اس امت کو سربلندی، فتح اور (زمین پر) قبضے کی خوش خبری دے دو۔“ [مسند احمد 5؍134 ح 21223 و سنده حسن، ربيع بن انس حسن الحديث]
↰ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور ایک گروہ قیامت تک ہمیشہ حق پر غالب رہے گا۔ اسے مجموعی حیثیت سے نقصان پہنچانے والے ناکام رہیں گے۔

❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لن يبرح هٰذا الدين قائما، يقاتل عليه عصابة من المسلمين حتيٰ تقوم الساعة
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت قیامت تک دین اسلام کے دفاع کے لئے لڑتی رہے گی۔ [صحيح مسلم : 1922]
↰ اللہ کے نزدیک انسانوں والا پیمانہ اور ترازو نہیں ہے، اللہ کا پیمانہ اور ترازو تو مکمل انصاف اور عدل و حکمت والا ہے۔ بے شک بندوں کی کمزوری کے بعد اللہ انہیں قوت بخشتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : هل تنصرون و ترزقون إلا بضعفائكم ”تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔“ [صحيح البخاري : 2896]

مسلمان کو ہتھکڑیاں پہنا کر گھسیٹا جا رہا ہے، وہ زرد وغیرہ رنگوں کے قیدی لباس میں ملبوس ہے، دنیا کے کونے کونے میں پیچھا کر کے اسے پکڑا جا رہا ہے، اس کے پاس (جدید) اسلحہ نہیں، وہ فقیر و بے بس ہے۔ اس کی دعا، نماز اور اخلاص کے ذریعے اللہ اس امت کی مدد فرمائے گا چاہے مسلمان جتنے بھی کمزور ہوں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : رب أشعث مدفوع بالأبواب لو أقسم على الله لأبره ”بعض اوقات وہ آدمی جس کے بال پراگندہ اور لباس میلا ہے، دروازوں سے دھکے دے کر دور ہٹایا جاتا ہے اگر یہ شخص اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے پورا فرماتا ہے۔“ [صحيح مسلم : 2622]
↰ آج ہم دیکھتے ہیں کہ طاقت اور غلبہ مسلمانوں کے دشمنوں کے پاس ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اللہ ہی متصرف اور مختار کل ہے، وہ اپنے مومن بندوں سے غافل نہیں ہے۔ وہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مسلمان ہمیشہ مجبور و مقہور اور ذلیل رہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الميزان بيد الرحمن، يرفع أقواما و يخفض آخرين إليٰ يوم القيامة
”میزان رحمن کے ہاتھ میں ہے، وہ قیامت تک بعض قوموں کو اٹھاتا ہے اور دوسروں کو گرا دیتا ہے۔“ [ابن ماجه : 199 و النسائي فى الكبريٰ : 7738 و سنده صحيح و صححه ابن حبان : 2419 و الحاكم525و وافقه الذهبي]
↰ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کے گر جانے کے بعد ضرور اٹھائے گا بشرطیکہ مسلمان اسے راضی کرنے کے لئے سچے دل سے کوشش کریں۔ ہر صدی میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایمان قائم کر دیتا ہے جو خیر میں مسابقت کرتے ہیں اور مصیبتوں کی پروا نہیں کرتے۔ لوگ ان کی اقتدا کر کے اللہ کے دربار میں جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو غلطیوں کی اصلاح کر کے لوگوں کو سیدھے راستے پر چلا دیں گے۔ یہ لوگ ہدایت کی طرف رہنمائی کریں گے اور کتاب و سنت کی دعوت پھیلا کر دین کی تجدید کریں گے۔

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الله يبعث لهٰذه الأمة عليٰ رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها
بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت کے لئے ایسا انسان پیدا کرے گا جو (قرآن و حدیث کے مطابق) اس امت کی تجدید (و اصلاح) کرے گا۔ [سنن ابي داود : 4291 و سنده حسن]
↰ تکلیف، ذلت اور مغلوبیت ایک دن ضرور دور ہو گی ان شاء اللہ، چاہے خیر میں مسابقت کرنے والوں کے ہاتھوں ہو یا مجددین کے ذریعے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ مصیبتیں ہمیشہ نہیں رہیں گی۔ اسلام کے سارے دشمنوں سے اللہ کا اعلان جنگ ہے اور جس سے اللہ کا اعلان جنگ ہو تو اس سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں ان دشمنان اسلام کی حکومت ایک دن ختم ہو جائے گی۔

حدیث قدسی میں آیا ہے :
من عادي لي وليا فقدآزنته بالحرب ”جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔“ [صحيح البخاري : 6502]
↰ آئیے ہم ایک دوسرے کو مصیبتوں پر صبر کی تلقین کریں اور تقدیر کے فیصلے پر رضامندی سے ثابت قدم رہیں۔ ہمیں نا امیدی پھیلانے کے بجائے فتح اور غلبہ اسلام کی خوش خبریاں پھیلانی چاہیئں۔

↰ جو لوگ طویل انتظار کی وجہ سے نحوستوں اور نا امیدی کا شکار ہیں، ان کی ”خدمت“ میں عرض ہے کہ جب صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مصیبتوں اور سختیوں کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : والله ليتمن هٰذا الأمر۔۔۔ ولكنكم تستعجلون ”اللہ کی قسم ! یہ کام (غلبہ دین) پورا ہو کر رہے گا۔۔۔ مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو۔“ [صحيح البخاري : 6943]

↰ اللہ اپنے بندوں سے اس اعتماد و یقین کا مطالبہ کرتا ہے جس کا سیدنا موسیٰ ؑ کی والدہ نے عملی مظاہرہ کیا۔ اللہ نے انہیں حکم دیا کہ فاذا خفت عليه فالقيه فى اليم ولا تخا فى ولا تحزني پھر اگر تجھے اس (موسیٰ) کے بارے میں ڈر لگے تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر اور نہ غم کر۔ [القصص : 7]

↰ انہوں نے اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو (صندوق میں رکھ کر) دریا میں ڈال دیا اور وہ نہ تو ڈریں اور نہ غم کیا حالانکہ دریا تو چھوٹے سے دودھ پیتے بچے کے لئے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو بچا لیا۔ یہ دودھ پیتا بچہ آخرکار اس دور کے سب سے بڑے طاغوت فرعون کے پاس پہنچ گیا جس نے اسے پالا اور پھر یہی بچہ اس کی ہلاکت کا سبب بنا۔ اللہ کی قدرت کے عجائب اسی طرح ظاہر ہوتے ہیں۔

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین قسم کے ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن میں کوئی خیر نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا :
ثلاثة لا تسأل عنهم۔۔۔ ورجل شك فى أمر الله و القنوط من رحمة الله
”تین قسم کے لوگوں کے بارے میں نہ پوچھو۔۔۔ ایک ادمی جو اللہ کے فیصلے میں شک کرے اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے۔“ [البخاري فى الادب المفرد : 590 و احمد 6؍19 ح 23943 و سنده حسن و صححه ابن حبان، الاحسان : 4541]
↰ اسی لئے جب لوگوں کو شک اور نا امیدی کی بیماری لگ جائے تو وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اس سے توبہ کر کے اللہ پر اعتماد اور اس کی مدد و نصرت کا یقین نہ کر لیں۔ تقدیر پر ایمان وہ بہترین عقیدہ ہے جس سے یہ اعتماد ہوتا ہے کہ آخری فتح متقین کی ہوگی۔

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لكل شي ء حقيقة وما بلغ عبد حقيقة الإيمان حتيٰ يعلم أن ما أصابه لم يكن ليخطئه وما أخطأه لم يكن ليصيبه
”ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اس وقت تک حقیقت ایمان تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اسے یقین کامل نہ ہو جائے کہ اسے جو مصیبت پہنچی ہے وہ ٹل نہیں سکتی تھی اور جو ٹل گئی ہے وہ کبھی پہنچ نہیں سکتی تھی۔“ [احمد 6؍441، 442 ح 27490 و سنده حسن و أخطأ من ضعفه]
↰ مسئلہ توقیت مقدور (تقدیر کا ایک خاص وقت مقرر ہے) اور اجل محدود (مقررہ وقت) کا مسئلہ ہے جو نہ تو کسی جلدی کرنے کی وجہ سے مقدم ہوتا ہے اور نہ کسی سستی کرنے والے کی وجہ سے مؤخر ہوتا ہے۔ ایسے مضبوط عقیدے پر بے صبری کا قلع قمع ہو جاتا ہے اور دل مطمئن ہو جاتا ہے کہ آخری انجام و فتح متقین کے لئے ہے۔

↰ اگرچہ امت مسلمہ کمزوری کے دور سے گزر رہی ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ اللہ کی تقدیر سے ہے۔ اللہ اس پر قادر ہے کہ گم شدہ عزت اور کھوئی ہوئی سرداری دوبارہ لے آئے۔ انسانوں کی یہی شان ہے کہ کبھی بلندی اور کبھی پستی جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : مثل المؤمن كالخامة من الزرع تضيئها الريح مرة و تعدلها مرة ”مومن کی مثال کھیتی کے پودے کی تازہ نکلی ہوئی ہری شاخ کی طرح ہے جسے ہوا کبھی جھکا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی ہے۔“ [صحيح بخاري : 5643و صحيح مسلم : 2810]

↰ اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک دن مومن ضرور کھڑا ا(ور غالب) ہو گا اور یہی اللہ کی سنت کونیہ (اور فیصلہ) ہے۔ جب اسباب تقدیر پورے ہو جائیں گے تو ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔ ان شاء اللہ

امم سابقہ کے بارے میں اللہ کا یہی طریقہ اور قانون جاری رہا ہے۔
❀ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عرضت على الأمم فرأيت النبى و معه الرهيط، و النبى و معه الرجل و الرجلان و النبى ليس معه أحد
”مجھے امتیں دکھائی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک نبی کے ساتھ کچھ لوگ ہیں۔ ایک نبی ہے اور اس کے ساتھ ایک دو آدمی ہیں اور ایک نبی ہے جس کے ساتھ کوئی (امتی) بھی نہیں۔“ [صحيح مسلم : 220]
↰ اس کے باوجود دعوت جاری رہی اور ہر زمانے میں جاری رہے گی چاہے جتنی بھی کمزوری ہو جائے۔ کسی نبی پر یہ اعتراض قطعا نہیں ہو سکتا کہ ان کے ذریعے کوئی ہدایت یافتہ کیوں نہیں ہوا ؟ حالانکہ انہوں نے دعوت میں اپنی پوری کوشش کی تھی۔ ہدایت دینا تو اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح کسی مجاہد پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اسے فتح کیوں حاصل نہیں ہو رہی ؟ حالانکہ وہ اپنی استطاعت اور پوری کوشش سے جہاد میں مصروف رہا ہے۔
↰ اعتراض صرف یہ ہے کہ ہم نے اسباب کے استعمال میں کمی کی اور کوشش میں کچھ نہ کچھ بخل اور کوتاہی سے کام لیا۔ باقی اللہ کی مرضی ہے وہ جب چاہے جو چاہے کرتا ہے۔
↰ جب شہیدوں کو یہ خوف ہوا کہ زندہ رہ جانے والے لوگ کمزوری کی وجہ سے کہیں جہاد سے پیچھے نہ رہ جائیں تو انہوں نے اپنے رب سے سوال کیا : ہمارے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کو یہ کون بتائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے ؟ تاکہ لوگ جہاد سے پیچھے نہ رہیں اور میدان جنگ سے نہ بھاگیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : أنا أبلغهم عنك ”میں انہیں تمھاری یہ بات پہنچاؤں گا۔“ [سنن ابي داود : 2520 وهو حديث حسن، احمد 1؍266و الحاكم 2؍88، 298و انظر اثبات عذاب القبر للبيهقي بتحقيقي : 212، ابن اسحاق صرح بالسماع]
↰ رات نے آخر ختم ہو جانا ہے اور دن کی روشنی چاروں طرف پھیل جائے گی۔ خس و خاشاک بہ جائے گا اور زمین میں وہ چیزیں رہ جائیں گی جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہیں۔
↰ اللہ کی تقدیر کا یہ فیصلہ ایک دن برحق ثابت ہو گا کہ آخری فتح متقین ہی کی ہے۔ و الحمد لله رب العالمين [ماخوذ مع اضافات و تحقيق ازكتاب“ هٰذه أخلاقنا ]

 

یہ تحریر اب تک 14 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply