اعمال ایمان میں داخل ھیں 

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

                سلف صالحین اور ان کے مخالف مُرْجِیٔ (حنفی) فرقہ میں ایمان کے مسائل میں سب سے زیادہ اختلاف اسی مسئلہ میں تھا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں یا نہیں، اسلاف یعنی صحابہ و تابعین کا مذہب یہ تھا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے ، وہ اس سے مراد دل کا قول و عمل ، زبان کا قول اور اعضاء کا عمل لیتے تھے۔

                مرجئہ (حنفیہ) کا کہنا ہے کہ ایمان صرف دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کا نام ہے ، اعمال ایمان میں داخل نہیں، بلکہ اس کے ثمرا ت ہیں، اسی مؤقف کی وجہ سے وہ ایمان میں کمی و بیشی اور استثنا کے منکر ہوئے ۔

                جوں ہی یہ بدعت امت میں ظاہر ہوئی ، سلف صالحین اور اہلِ ارجاء کے مابین اختلاف و نزاع کا سلسلہ چل نکلا ، سلف صالحین نے مرجئہ کے قول کو باطل ثابت کیا اور ان کو بدعتی و گمراہ قرار دے کر امت کو ان کے شنیع مذہب سے دور کیا۔

                حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

                                أنکر السّلف علی من أخرج الأعمال عن الایمان انکاراً شدیداً.

                “سلف صالحین نے ان لوگوں پر سخت نکیر کی ، جنہوں نے ایمان سے اعمال کو خارج کیا ۔”     (جامع العلوم و الحکم : ۲۳،۲۴)

                اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مرجئہ کے نزدیک ایمان ایک ہی چیز ہے ، اس کے اجزاء نہیں، جبکہ سلف صالحین کے نزدیک ایمان قول و عمل سے مرکب ہے۔

               حافظ ابن ِ قیّم رحمہ اللہ (۶۹۱- ۷۵۱) سلف کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

                الایمان حقیقۃ مرکّبۃ من معرفۃ ماجاء بہ الرّسول و التّصدیق بہ عقدا و الاقرار بہ نطقاً والا نقیاد لہ محبۃً و خضوعاً و العمل بہ باطناً و ظاھراً و تنفیذہ والدّعوۃ الیہ بحسب الامکان وکمالہ فی الحبّ للّٰہ و المنع للّٰہ.

                “ایمان رسولِ اکرمﷺ کی تعلیمات کی معرفت، دل سے ان کی تصدیق ، زبان سے اقرار ، محبت و انکساری سے اطاعت ، ظاہری و باطنی طور پر عمل، ان کے نفاذ اور حسبِ استطاعت ان کی طرف دعوت سے مرکب ہے ، نیز ایمان کا کمال اللہ تعالیٰ کے لئے محبت اور اسی کے لئے نفرت سے مضمر ہے ۔ (الفوائد :۱۹۶)

                ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱ – ۷۲۸)مرجئہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

                وقالت المرجئۃ و الجھمیّۃ؛ لیس الایمان الا شیئاً و احداً  لا یتبعّض، امّا مجرّد تصدیق القلب کقول الجھمیّۃ، أو تصدیق القلب و اللّسان کقول المرجئۃ… وجماع شبھتھم فی ذٰلک أنّ الحقیقۃ مرکّب تزول بزوال بعض أجزائھا ، کالعشرۃ، فانّہ اذا زال بعضھا لم تبق عشرۃ، وکذٰلک الأجسام المرکبۃ.

                “مرجئہ اور  جہمیہ  کہتے ہیں کہ ایمان ایک ہی چیز کا نام ہے ، اس کے اجزاء نہیں،  جہمیہ کے نزدیک وہ صرف تصدیقِ قلبی ہے اور مرجئہ کے نزدیک دل اور زبان کی تصدیق کا نام ہے ، ان کا اصل اعتراض (ایمان کے مرکب ہونے پر) یہی ہے کہ مرکب چیز ایک جزو کے ختم ہونے سے زائل ہوجاتی ہے ، جیسے “دس” ایک مرکب حقیقت ہے ، اگر “ایک ” بھی پیچھے ہٹ جائے تو دس باقی نہیں رہتے ، اسی طرح دوسرے مرکب اجسام کے حال ہے ۔ ” (مجموع الفتاوی: ۵۱۰/۷ ، ۵۱۱)

                اس سلسلے میں ان کی سب سے بڑی دلیل لغت ہے ، ان کا کہنا ہے کہ لغت میں ایمان صرف تصدیق کا معنیٰ دیتا ہے ، جیساکہ امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ (۲۰۲ – ۲۹۴) فرماتے ہیں:

                ومن أعظم حجج المرجئۃ الّتی یقولون بھا عند أنفسھم اللّغۃ، وذٰلک أنّھم زعموا أنّ الایمان لا یعرف فی اللغۃ الا بالتصدیق، وزعم بعضھم أن التصدیق لا یکون الا بالقلب ، وقال بعضھم ؛ لا یکون الا بالقلب و اللسان ، وقد وجدنا العرب فی لغتھا کل عمل حققت بہ عمل  القلب و اللسان تصدیقاً.

                “اس بارے میں مرجئہ کی سب سے بڑی دلیل لغت ہے ، ان کا دعویٰ ہے کہ لغت میں ایمان صرف تصدیق پر بولا جاتا ہے ، پھر بعض کا خیال ہے کہ تصدیق صرف  دل سے ہوتی ہے ، جبکہ بعض کے بقول صرف دل اور زبان سے ہوتی ہے ، حالانکہ ہم نے عرب کی لغت میں دیکھا ہے کہ وہ عمل جس سے او زبان کا عمل ثابت ہو ، اسے تصدیق کہا گیا ہے ۔”      (تعظیم قدر الصّلاۃ: ۷۱۶/۲)

                ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                وقد عدلت المرجئۃ فی ھٰذا الأصل عن بیان الکتاب و السّنۃ، وأقوال الصحابۃ و التابعین لھم باحسان، واعتمدوا علی رأیھم، وعلی ما تاوّلوہ بفھمھم اللغۃ، وھٰذہ طریقۃ أھل البدع…. ولھٰذا نجد المعتزلۃ و المرجئۃ و الرّافضۃ و غیرھم من أھل البدع یفسرون القرآن برأیھم و معقولھم وما تاوّلوہ من اللغۃ، ولھٰذاتجدھم لا یعتمدون علی أحادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم و التابعین و ائمۃ المسلمین، فلا یعتمدون لا علی السنۃ و لا علی اجماع السلف و آثارھم ، وانما یعتمدون علی العقل و اللغۃ، وتجدھم لا یعتمدون علی کتب التفسیر المأثورۃ و الحدیث و آثار السلف، وانما یعتمدون علی کتب الأدب و کتب الکلام التی و ضعتھا رؤوسھم.

                “اس اصل (ایمان) کے بارے میں مرجئہ کتاب و سنت اور اقوالِ صحابہ و تابعین سے ہٹ گئے ہیں، انہوں نے اپنی عقل  اور لغت پر اعتماد کیا ہے ، یہ اہل بدعت کا طریقہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم معتزلہ ، مرجئہ، روافض اور دیگر بدعتیوں کو دیکھتے ہیں، وہ قرآن کی تفسیر اپنی رائے ، عقل اور لغت سے کرتے ہیں، اسی لئے آپ انہیں احادیثِ نبوی اور صحابہ و تابعین و اسلاف کے آثار پر اعتماد کرتا نہیں دیکھیں گے ، نہ وہ احادیث کی پروا کرتے ہیں، نہ اجماع سلف کی ، وہ تو اپنی عقل اور لغت پر انحصار کرتے ہیں، آپ کبھی نہیں پائیں گے کہ وہ تفسیر بالماثور ، احادیث  او رآثارِ سلف پر مشتمل کتب پر اعتماد کرتے ہوں، بلکہ وہ تو ادب کی کتب اور اپنے بڑوں کی لکھی ہوئی علم کلام کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔”                (الایمان : ۱۱۴)

                الحاصل سلف صالحین نے کتاب و سنت کی متواتر نصوس اور اجماع کے ذریعے مرجئہ کا مکمل رد کیا ہے ، ان کے کچھ دلائل قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کیے جارہے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

٭….فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلیٰ رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ٭ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ﴾  (الأنفال: ۲ـ۳)

          “بلاشبہ  مومن وہ ہیں کہ جب ان کے پاس اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس (اللہ تعالیٰ) کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں، نیز وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں، وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے ، ا س میں سے خرچ کرتے ہیں۔”

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا ہے کہ مذکورہ تمام قلبی و بدنی اعمال سے بندہ مومن بنتا ہے۔

امام محمد بن نصر   مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                وصف اللّٰہ عزوجل المؤمنین بالأعمال، ثم ألزمھم حقیقۃ الایمان، ووصفھم بھا بعد قیامھم الأعمال، من الصلوٰۃ و الزکاۃ وغیرھا….

                ” اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اعمال سے متصف فرمایا ہے ، پھر ان کو حقیقی مومن قرار دیا، لیکن نماز اور زکوٰۃ وغیرہ جیسے مذکورہ اعمال کو قائم کرلینے کے بعد ۔”                (تعظیم قدر الصلوٰۃ)

٭…فرمانِ الہٰی ہے:

               ﴿ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ﴾ (البقرۃ: ۱۴۳)

                “اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔”

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ  (۳۶۸-۴۶۳) لکھتے ہیں:

لم یختلف المفسّرون أنّہ أراد ؛ صلاتکم الی بیت المقدس، فسمّی الصّلوٰۃ ایماناً.
“مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی گئی نماز مرا د ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نماز کا نام ایمان رکھا ہے ۔ ”      (التمھید لا بن عبدالبر : ۲۵۳/۹)

                ثابت ہوا کہ ایمان میں اعمال داخل ہیں، نماز اعضا و جوارح اور دل کا عمل ہے  اور زبان کا قول ہے ۔

٭….فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

﴿ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾        (آلِ عمران:۳۲)

“(اے محمد ﷺ) کہہ دیجئے ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرو، اگر تم پھر گئے تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔”

اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان کے لئے ناکافی ہے ، کیونکہ یہاں ایمان کے لئے اطاعت کو عملاً لازم قرار دیا گیا ہے ۔

٭….فرمانِ رب العالمین ہیں:

                ﴿ وَمَا اُمِرُوا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمَوا الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ (البیّنۃ:۵)

“ان کو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ یکسو ہو کر خالص اللہ کی عبادت کریں، نیز وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، یہی مضبوط دین ہے ۔”

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱ – ۷۷۴) فرماتے ہیں:

                وقد استدل کثیر من الأئمۃ کالزّھری و الشافعی بھٰذہ الآیۃ الکریمۃ علی أنّ الأعمال داخلۃ فی الایمان.

                “بہت سے ائمہ کرام جن میں امام زہری اور امام شافعی رحمہما اللہ شامل ہیں، نے اس آیتِ کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔” (تفسیر ابن کثیر: ۴۷۷/۸)

                دیگر بہت سی آیات سے بھی اعمال کا ایمان میں شامل ہونا معلوم ہوتا ہے ۔

امام آجری رحمہ اللہ (م ۳۶۰) فرماتے ہیں:

                اعلموا. رحمنا اللّٰہ و ایاکم، یا أھل العلم بالسنن و الآثار ، ویا معشر من فقھھم اللّٰہ تعالیٰ  فی الدّین بعلم الحلال و الحرام؛ انّکم ان تدبّر تم القرآن کما أمر اللّٰہ تعالیٰ ، علمتم أنّ اللّٰہ تعالیٰ أوجب علی المؤمنین بعد ایمانھم بہ و برسولہ العمل، وأنّہ تعالیٰ لم یثن علی المؤمنین بأنّہ قد رضی عنھم و أنّھم قد رضوا عنہ، وأثابھم علی ذٰلک الدّخول فی الجنّۃ، والنّجاۃ من النار الا بالایمان و العمل الصالح، قرن مع الایمان العمل الصالح، لم یدخلھم الجنۃ بالایمان وحدہ،حتّٰی ضم الیہ العمل الصالح الذی و فقھم لہ، فصار الایمان لایتم  لأحد حتّٰی یکون مصدّقاً بقلبہ و ناطقاً  بلسانہ و عاملاً بجوارحہ، لا یخفیٰ علی من تدبر القرآن، و تصفّحہ، وجدہ کما ذکرت

                واعلموا، رحمنا اللّٰہ و ایّاکم ، أنّی قد تصفحت القرآن، فوجدتُّ ما ذکرتہ فی شبیہ من خمسین موضعاً من کتاب اللّٰہ تعالیٰ أنّ اللّٰہ تبار ک و تعالیٰ لم یدخل المؤمنین الجنۃ بالایمان وحدہ، بل أدخلھم برحمتہ ایّاھم، وبما وفّقھم لہ من الایمان، والعمل الصالح۔ وھذا ردٌّ علی من قال؛ الایمان معرفۃ، وردٌّ علی من قال ؛ الایمان المعرفۃ و القول، وان لّم یعمل !! نعوذ باللّٰہ من قائل ھٰذا.

          “قرآن و حدیث کے علماؤ اور دین کے فقہاؤ! اللہ تم پر رحم کرے ! جان لو کہ اگر تم قرآن پر حکم الہٰی کے مطابق غور و فکر کروگے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول پر ایمان لانے کے بعد مومنوں پر عمل کو لازم قرار د یا ہے ، نیز ان کو رضامندی کا سرٹیفیکیٹ او رجنت کے حصول اور آگ سے نجات کی صورت میں بدلہ ایمان اور عملِ صالح دونوں کی موجودگی میں دیا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح کو ملایا  ہے ، صرف ایمان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں کیا، حتی کہ حسبِ توفیق نیک اعمال کو بھی اس کے ساتھ ملا نہ دیا، لہٰذا کسی کاایمان مکمل تب ہی ہوگا ، جب وہ دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کرے گا ، قرآن کریم پر غور و فکر اور اس کی ورق گردانی کرنے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں۔

                اللہ تعالیٰ تم پر اور ہم پر رحم کرے ! جان لو کہ میں قرآن کو ورق گردانی کے بعد ا س نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قریباً پچاس ایسے مقامات ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ وہ صرف ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں کرے گا ، بلکہ اس کی رحمت اور حسبِ توفیق نیک اعمال بھی ایمان کے ساتھ شامل ہونگے۔

                یہ ان لوگوں کو رد ہے جو صرف معرفت کو ایمان کہتے ہیں، نیز ان لوگوں کا بھی جو ایمان کو صرف دل کی معرفت اور زبان کا اقرار کہتے ہیں، اگرچہ عمل نہ بھی کیا جائے ، ہم ایساکہنے والوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔”  (الشریعۃ للآجری: ۶۱۸/۲ – ۶۱۹)

                چند احادیثِ نبویہ بھی درجِ ذیل ہیں:

٭…       سیدنا صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو یہودی نبیٔ اکرمﷺ کے پاس آئے اور آپ سے سوال پوچھے ، جواب ملنے پر کہنے لگے: نشھد انک نبی. “ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔” تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

                فما یمنعکم أن تتبعونی.  “تمہیں میری اتباع سے کو ن سی چیز مانع ہے؟”              (سنن النسائی: ۴۰۸۳، جامع ترمذی: ۲۷۳۳، ۳۱۴۴ ، وقال : حسن صحیح ، سنن ابن ماجہ: ۳۷۰۵، مسندالامام احمد: ۲۳۹/۴، وسندہ صحیح)

               امام حاکم (۹/۱) نے اس کو “صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔

٭… سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وفد عبدالقیس سے فرمایا:

                ((آمرکم بأربع؛ الایمان باللّٰہ وحدہ، وھل تدرون ما الایمان باللّٰہ؟ شھادۃ أن لا الہ الا اللّٰہ و أنّ محمدا رسول اللّٰہ، واقام الصلوٰۃ، وایتاء الزکوٰۃ، وصیام رمضان ، وأن تعطوا من المغنم الخمس))

“میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں، (۱) ایک اللہ پر ایمان لانا، کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور مالِ غنیمت سے خمس نکالا کرو۔”      (صحیح بخاری: ۱۳/۱ ، ح : ۵۳، صحیح مسلم: ۳۳/۱، ح : ۱۷)

                علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (۷۳۱- ۷۹۲) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:

                وأیّ دلیل علی أنّ الأعمال داخلۃ فی مسمّی الایمان فوق ھذا الدّلیل؟ فانّہ فسّر الایمان بالأعمال، ولم یذکر التّصدیق مع العلم بأنّ ھذہ الأعمال لا تفید مع الجحود.

                “اعمال کے ایمان میں داخل ہونے کی دلیل اس سے بڑی اور کیا ہوگی؟ آپ نے تو ایمان کی تفسیر ہی اعمال سے کی ہے ، تصدیق کا تذکرہ ہی نہیں کیا، کیونکہ معلوم ہے کہ یہ اعمال عدمِ تصدیق کے ساتھ فائدہ مند نہیں ہوتے ۔” (شرح العقیدۃ الطحاویۃ: ۴۸۷)

٭…       سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

                ((الایمان بضع و سبعون أو بضع و ستون شعبۃً، فأفضلھا قول لا الہ الا اللّٰہ، وأدناھا اماطۃ الأذی عن الطّریق، والحیاء شعبۃ من الایمان))

                “ایمان کے ستر سے کچھ اوپر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شعبے ہیں، سب سےسے افضل شعبہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے ، نیز حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔”      (صحیح بخاری ؛ ۶/۱، ح : ۹ ، صحیح مسلم : ۴۷/۱ ح: ۳۵ ، واللفظ لہ)

                یہ حدیث اعمال کے ایما ن میں داخل ہونے کی واضح دلیل ہے ، اس لیے کہ اس کے شعبہ جات دل ، زبان اور اعضاء کے اعمال پر مشتمل ہے ، جیساکہ لا الہ الا اللہ کہنا زبان کا قول و عمل ہے ،  راستے سے موذی اشیاء کو دور کرنا اعضا و جوارح کا عمل ہے اور حیا دل کا عمل ہے ۔

                حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                            ولما کان الایمان اصلاً لہ شعب متعددۃ، وکل شعبۃ منھا تسمّٰی ایماناً، فالصّلوٰۃ من الایمان و کذٰلک الزّکوٰۃ و الحج و الصیام و الأعمال الباطنۃ کالحیاء و التوکل و الخشیۃ من اللّٰہ والانابۃ الیہ، حتّٰی تنتھی ھذہ الشّعب الی اماتۃ الاذٰی عن الطریق، فانہ شعبۃ من شعب الایمان، وھذہ الشعب منھا مایزول الایمان بزوالھا کشعبۃ الشھادۃ، ومنھا ما لا یزول بزوالھا کترک اماطۃ الأذی عن الطریق، ومنھا شعب متفاوتۃ تفاوتاً عظیماً، منھا ما یلحق بشعبۃ الشّھادۃ ویکون الیھا أقرب ، ومنھا ما یلحق بشعبۃ اماطۃ ألاذی و یکون الیھا أقرب.

                “جب ایمان ایک ایسی اصل ہے ، جس کے بہت سے شعبے ہیں اور ہر شعبہ ایمان کہلاتا ہے ،تو نماز بھی ایمان ہے ، زکوٰۃ بھی، حج بھی اور روزے بھی، نیز باطنی اعمال، مثلاً حیا، توکل ، تقویٰ ، انابت وغیرہ بھی ،یہاں تک کہ یہ شعبے تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے تک پہنچ جاتے ہیں، یہ بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے، ان شعبوں میں سے بعض ایسے ہیں، جن کے ختم  ہونے سے ایمان ختم ہوجاتا ہے ، جیساکہ شہادتِ توحیدو رسالت کا شعبہ ہے ، جبکہ بعض ایسے ہیں جن کے زائل ہوجانے سے ایمان زائل نہیں ہوتا، جیساکہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے والا شعبہ ہے ، ان کے درمیان میں بہت سے متفاوت شعبہ جات ہیں ، بعض شہادت سے ملتے ہیں ،وہ اس کے قریب ہیں اور بعض تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے سے ملتے ہیں، لہٰذا اس کے قریب ہیں۔”        (کتاب الصلوٰۃ لابن القیم: ۵۳)

                اب اس پر سلف کا اجماع ملاحظہ فرمائیں، جو بہت سے ائمہ دین نے نقل فرمایا ہے :

                حافظ بغوی رحمہ اللہ (م ۵۱۰) لکھتے ہیں:

                           اتفقت الصحابۃ و التابعون فمن بعدھم من علماء السنۃ علی أن الأعمال من الایمان، وقالوا؛ ان الایمان قول و عمل وعقیدۃ.

“صحابہ ، تابعین اور بعد کے محدثین کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایمان قول و عمل اور عقیدے (دل کی تصدیق) کا نام ہے ۔”                (شرح السنۃ للبغوی: ۳۸/۱)

امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

                           اعلموا، رحمنا اللّٰہ و ایاکم ، ان علیہ علماء المسلمین أن الایمان واجب علی جمیع الخلق، وھو تصدیق القلب و اقرار باللسان و عمل بالجوارح، ثم اعلموا أنہ لا تجزیٔ المعرفۃ بالقلب ونطق باللسان حتّٰی یکون عمل بالجواح، فاذا کملت فیہ ھٰذہ الخصال الثلاث کان مؤمناً، دلّ علی ذٰلک القرآن و السنۃ، وھو قول علماء المسلمین.

                “اللہ تعالیٰ تم پر اور ہم پر رحم فرمائے ! جا ن لو کہ مسلمانوں کے علماء کا یہ مذہب ہے کہ جو ایمان تمام مخلوق پر واجب ہے ، وہ دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار اور اعضاء کے عمل کا نام ہے ، پھر جان لو کہ دل کی معرفت اور زبان کا اقرار اس وقت تک فائدہ نہیں دیتا، جب تک اعضا سے عمل نہ ہو، جب یہ تینوں چیزیں جمع ہوں تو مومن بنتا ہے ، اس پر قرآن و حدیث دلیل ہے ، یہی علمائے اسلام کا مذہب ہے ۔”            (الشریعۃ للآجری : ۶۱۱/۲)

اس تحریر کو اب تک 28 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply