اسماعیل جھنگوی صاحب کے پندرہ جھوٹ

تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

کچھ لوگ اہل حدیث کے خلاف دن رات پروپیگنڈا کرتے اور فروغِ اکا ذیب میں مصروف رہتے ہیں جن میں سے ابوبلال اسماعیل جھنگوی دیو بندی بھی ہیں ۔ اس مختصر مضمون میں جھنگوی مذکور کی کتاب”تحفۂ اہل حدیث“حصہ اول سے پندرہ جھوٹ اور ان کا رد تبصرہ کے عنوان سے باحوالہ پیشِ خدمت ہے :
جھوٹ نمبر ۱ :
اسماعیل جھنگوی صاحب لکھتے ہیں :
”بیٹھ کر پیشاب کرنا بخاری میں نہیں “
[تحفهٔ اهل حديث ص ۴ نيز ديكهئے ص ۱۰]
تبصرہ :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدًا عليٰ لبنتين ، مستقبل بيت المقدس پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ دو اینٹوں پر (قضائے حاجت فرماتے ہوئے) بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھے تھے ۔
[ صحيح بخاري ج ۱ص ۲۷ ح ۱۴۹ ، ارشاد القاري للقسطلاني ج ۱ص ۲۳۸]
تنبیہ (۱) :
اگر کوئی یہ کہے کہ”قضائے حاجت میں صرف بڑا پیشاب ہی ہوتا ہے چھوٹا پیشاب نہیں ہوتا “تو یہ قول بلا دلیل اور مردود ہے ۔
تنبیہ (۲) :
اہل حدیث کے نزدیک صحیح و حسن لذاتہ حدیث حجت اور معیارِ حق ہے ، چاہے صحیح بخاری میں ہو یا صحیح مسلم میں یا حدیث کی کسی بھی معتبر و مستند کتاب میں ۔ اہل حدیث کا قطعاً یہ دعویٰ نہیں ہے کہ صرف صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث ہی حجت ہیں ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کرتے تھے ۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ۱/۱۰۲ و سنده حسن]
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے اشارتاً منع فرمایا ۔

[ديكهئے كشف الاستار ۱/۲۶۶ ح ۵۴۷ و سنده حسن]
معلوم ہوا کہ پیشاب بیٹھ کر ہی کرنا چاہئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منسوخ ہے یا حالتِ عذر میں جواز پر محمول ہے ۔

جھوٹ نمبر ۲ ، ۳ :
اسماعیل جھنگوی صاحب لکھتے ہیں :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ننگے سر آدمی کو سلام کا جواب تک نہیں دیتے (مشکوۃ)“
[تحفهٔ اهلحديث ص ۱۳]
تبصرہ :
یہ بالکل جھوٹ اور دروغ بے فروغ ہے ۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبِ مشکوٰۃ دونوں پر جھوٹ بولا گیا ہے ۔
مشکوٰۃ میں اس طرح کی کوئی حدیث نہیں ہے ۔

جھوٹ نمبر۴ :
اہلِ حدیث اور اہل سنت کے بارے میں اسماعیل جھنگوی صاحب لکھتے ہیں :
”پیارے ان کو ایک نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ان دو کے درمیان المشرقین ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا نام اہل سنت والجماعت رکھا ہے ۔ اہل حدیث نہیں رکھا ۔ “
[تحفهٔ اهلحديث ص ۵۰]
تبصرہ :
اہل حدیث اور اہل سنت کو علیحدہ علیحدہ اور بعد المشرقین قرار دینا بھی جھوٹ ہے اور یہ تو بہت بڑا جھوٹ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیو بندیوں کانام اہل سنت و الجماعت رکھا ہے ۔
تنبیہ :
عبدالحق حقانی (تقلیدی) لکھتے ہیں : ”اور اہل سنت شافعی حنبلی مالکی حنفی ہیں اور اہل حدیث بھی ان ہی میں داخل ہیں“
[عقائد الاسلام ص ۳]
یہ کتاب محمد قاسم نانوتوی کی مطالعہ شدہ اور پسندیدہ ہے ۔ دیکھئے
[عقائد الاسلام ص ۲۶۴]
محمد کفایت اللہ دہلوی دیو بندی لکھتے ہیں :
”ہاں اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت و الجماعت میں داخل ہیں ۔ ان سے شا دی بیاہ کا معاملہ کرنا درست ہے ۔ محض ترکِ تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت و الجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے ۔ فقط“
[كفايت المفتي ج ۱ ص ۳۲۵ جواب نمبر ۳۷۰]

جھوٹ نمبر ۵ :
اسماعیل جھنگوی صاحب لکھتے ہیں :
”اہل سنت قبر میں عذاب و ثواب کے قائل ہیں جبکہ موجودہ غیر مقلد اہل حدیث اس کے قائل نہیں ہیں ۔ “
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۳]
تبصرہ :
ہم اور ہمارے اساتذہ قبر میں عذاب و راحت کے قائل ہیں ۔
مثلاًً ہمار ے استاد شیخ ابومحمد بدیع الدین شاہ الراشدی السندھی رحمہ اللہ نے منکرینِ عذاب قبر کی رد میں ایک کتاب”القضاء و الجزاء بأمر اللہ متیٰ یشاء“لکھی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :”اور عذاب قبر کا انکار کرنا دیانتداری کے خلاف ہے “ [ص ۴]
ہمارے ایک قابلِ احترام دوست ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ تو منکرینِ عذابِ قبر کے خلاف بے نیام تلوار اور اس فن کے امام ہیں ۔ میرے انتہائی محتر م استاد حافظ عبدالحمید ازہر ﷾ نے اس مسئلے پر کتاب لکھی ہے اور منکرینِ عذابِ قبر کا زبردست رد کیا ہے ۔ اس مسئلے پر راقم الحروف کی کتاب”تحقیق و ترجمۃ عذاب القبر للبیہقی“ابھی تک غیر مطبوع ہے ۔

جھوٹ نمبر ۶ :
اسماعیل جھنگوی صاحب لکھتے ہیں :
”اہل سنت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد اہل حدیث اسے حرام کہتے ہیں ۔ “
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
تبصرہ :
یہ بالکل کالا جھوٹ ہے ۔ اہل حدیث کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامت ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کا حکم دیا ہے کیونکہ یہ آخرت کی یاد کا ذریعہ ہے ۔
[ صحيح مسلم : ۹۷۷ ، الترمذي : ۱۰۵۴]
تنبیہ :
کسی خاص قبر کی زیارت کے لئے دور سے سفر کرنے کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور اہل الحدیث علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ مسجد نبوی کی نیت سے سفر کیا جائے اور بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یا حجرے کی زیارت کی جائے ۔ والحمدلله

جھوٹ نمبر ۷ :
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں :
”اہل سنت بیس تراویح سے کم کے قائل نہیں “
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
تبصرہ :
قاضی ابوبکر بن العربی المالکی (متوفی ۵۴۳؁ھ)فرماتے ہیں :
”اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئیں“
[عارضة الاحوذي ۴/۱۹ ح ۸۰۶ ، تعداد ركعاتِ قيام ر مضان كا تحقيقي جائزه ص ۸۶]
کیا قاضی صاحب اہل سنت سے خارج تھے ؟
علامہ قرطبی (متوفی ۶۵۶؁ھ) لکھتے ہیں : ”اور کثیر علماء یہ کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتیں ہیں“
[المفهم من تلخيص كتاب مسلم ۲/۳۹۰ ، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۶]
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا :”اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور مجھے زیادہ پسند ہے … ۔ ۔ “
[مختصر قيام الليل للمروزي ص ۲۰۲ ، ۲۰۳ ، تعدادِ ركعاتِ قيام ر مضان ص ۸۵]
کیا یہ سب اہل سنت سے خارج تھے ؟

جھوٹ نمبر ۸ :
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں :
”اہل سنت نماز میں قرآن شریف کو دیکھ کر پڑھناناجائز سمجھتے ہیں ۔ “
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۴]
تبصرہ :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام (ر مضان میں) قرآن مجید دیکھ کر امامت کراتا تھا ۔
[مصنف ابن ابي شيبه ۲/۳۳۸ ح ۷۲۱۵و سنده صحيح ، صحيح بخاري قبل ح ۶۶۰]
مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن مجید دیکھ کر امامت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
[مصنف ابن ابي شيبه : ۷۲۱۴ و سنده صحيح]
تابعیہ عائشہ بنت طلحہ بن عبیداللہ التیمیہ رحمہا اللہ اپنے غلام یا کسی شخص کو حکم دیتیں تو وہ انہیں مصحف (قرآن مجید) دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا ۔
[ابن ابي شيبه : ۷۲۱۷ و سنده صحيح]
حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ نے قرآن دیکھ نماز پڑھانے کی اجازت دی ۔
[ ابن ابي شيبه : ۷۲۱۸ و سنده صحيح]
حسن بصری رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے ۔
[ابن ابي شيبه : ۷۲۱۹ و سنده صحيح]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا غلام مصحف ہاتھ میں پکڑے ہوئے قرآن دیکھ کر لقمہ دیتا تھا ۔
[ابن ابي شيبه : ۷۲۲۲ و سنده حسن]
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نماز پڑھتے اور ان کے قریب ہی مصحف ہوتا تھا ، جب انہیں کسی (آیت) میں تردد ہوتا تو مصحف دیکھ لیا کرتے تھے ۔
[مصنف عبدالرزاق ۲/۴۲۰ ح ۳۹۳۱ و سنده صحيح]
امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا کہ کیا قرآن مجید دیکھ کر نماز پڑھائی جا سکتی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : جی ہاں ، جب سے اسلام ہے ، لوگ یہ کر رہے ہیں ۔
[ المصاحف لابن ابي داود ص ۲۲۲و سنده حسن]
یحییٰ بن سعید الانصاری رحمہ اللہ نے فرمایا : ”میں ر مضان میں قرآن دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ۔“
[ المصاحف ص ۲۲۲ و عنده :“معاوية عن صالح بن يحيي بن سعيد الأنصاري“والصواب : ”معاوية بن صالح عن يحيي بن سعيد الأنصاري”و سنده حسن]
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مشہور استاد امام عطاء بن ابی رباح المکی التابعی رحمہ اللہ نماز میں قرآن دیکھ کر قرأت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔
[المصاحف لا بن ابي داود ص ۲۲۲ و سنده حسن ، رباح بن ابي معروف حسن الحديث و ثقه الجمهور و باقي السند صحيح]
کیا خیال ہے ؟ یہ صحابۂ کرام و تابعین و سلف صالحین اہل سنت سے خارج تھے ؟ جو شخص انہیں اہل سنت سے خارج سمجھتا ہے وہ بذاتِ خود اہل سنت سے خارج اور گمرا ہ ہے ۔
تنبیہ :
بعض علماء مثلاًً حماد اور قتادہ وغیرہ ما مصحف دیکھ کر قرآن مجید پڑھناناپسند کرتے یا مکر وہ سمجھتے تھے ۔ مثلاًً دیکھئے
[ابن ابي شيبه : ۷۲۳۰ و سنده صحيح]
یہ قول اس پر محمول ہے کہ صحیح العقیدہ حافظ ہونے کے باوجود جان بوجھ کر قرآن دیکھ کر نماز میں قرأت کی جائے ۔
دوسرے یہ کہ صحابہ اور کبار تابعین کے مقابلے میں ان اقوال کی کیا حیثیت ہے ؟

جھوٹ نمبر ۹ :
اسماعیل جھنگوی صاحب کہتے ہیں :
”اہل سنت مغرب کی اذان کی بعد نفل نہیں پڑھتے “
[تحفهٔ اهل حديث ص ۵۵]
تبصرہ :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
وكنانصلي عليٰ عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد غروب الشمس قبل صلوٰة المغرب
”اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔“
[صحيح مسلم : ۳۰۲/۸۳۶]
معلوم ہوا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور صحابہ ٔ کرام نمازِ مغرب کی اذان کے بعد رکعتیں پڑھتے تھے ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کبار (بڑے) صحابہ کو مغرب کے وقت (دو رکعتوں کے لئے) ستونوں کی طرف جلدی جلدی جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔“
[صحيح بخاري : ۵۰۳ و السنن الكبريٰ للبيهقي ۲/۴۷۶ و سفيان ثوري صرح بالسماع عنده]
جلیل القدر کبار تابعین میں سے سیدنا ابوتمیم عبداللہ بن مالک الجیشانی رحمہ اللہ نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کرتے تھے ۔
[صحيح بخاري : ۱۱۸۴]
یاد رہے کہ یہ رکعتیں فرض و واجب نہیں ہیں انہیں چھوڑ دینا بھی جائز ہے لیکن پڑھنا بہتر ہے ۔
(عبدالرحمٰن) بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ مغرب (کی نماز) سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے ۔
[مصنف ابن ابي شيبه ۲/۳۵۶ ح ۷۳۸۰ و سنده صحيح]
کیا یہ صحابہ و تابعین اہل سنت نہیں تھے ؟

جھوٹ نمبر ۱۰ :
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں :
”جبکہ غیر مقلدین کے ہاں فاتحہ قرآن میں نہیں“
[تحفه ٔ اهلحديث ص ۵۵]
تبصرہ :
معاذ الله ، نستغفر الله ، ألا لعنة الله على الظالمين .
تمام اہل حدیث علماء کے نزدیک سورۂ فاتحہ قرآن میں سے ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فلا تقرؤا بشئ من القرآن إذا جهرت إلا بأم القرآن
جب میں جہری نماز پڑھ رہا ہوتا ہوں تو قرآن میں سے سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ بھی نہ پڑھو ۔
[سنن ابي داود : ۸۲۴ و سنده صحيح ، نافع بن محمود ثقة و ثقه الجمهور و مكحول لم ينفردبه ، تابعه حرام بن حكم و الحمدلله]
کس اہلِ حدیث عالم نے کہا کہ سورۂ فاتحہ قرآن میں سے نہیں ہے ؟ حوالہ پیش کریں ورنہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔

جھوٹ نمبر ۱۱ :
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں :
”اہل سنت کے ہاں وتر تین ہیں جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث کے نزدیک وتر ایک ہے ۔ “
[تحفهٔ اهلحديث ص ۵۶]
تبصرہ :
ایک وتر کے بارے میں اتنی روایات ہیں کہ اس مختصر مضمون میں ان کا جمع کرنا انتہائی مشکل ہے ۔
فی الحال چند روایات پیشِ خدمت ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وتر پڑھا ۔
[ سنن الدارقطني ج ۲ ص ۳۴ ح ۱۶۵۶ و سنده صحيح ، وقال النيموي فى آثار السنن ۵۹۷ :“وإسناده صحيح”]
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک وتر پڑھتے اور اسے اپنا وتر کہتے تھے ۔
[ سنن دار قطني : ۱۶۵۷ و سنده حسن ، وقال النيموي فى آثار السنن ۶۰۴ :“و إسناده حسن”]
سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا ۔
[صحيح بخاري : ۶۳۵۶]
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک وتر پڑھا ۔
[صحيح بخاري : ۳۷۶۴ ، ۳۷۶۵]
سیدنا ابوایو ب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص تین وتر پڑھنا چاہتا ہے تو تین پڑھ لے اور جو شخص ایک وتر پڑھنا چاہتا ہے تو ایک وتر پڑھ لے ۔
[سنن النسائي ۳/۲۳۹ ح ۱۷۱۳ ، و سنده صحيح]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک وتر پڑھا ۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ۳/۲۷ و سنده صحيح ، مصنف ابن ابي شيبه ۲/۲۹۲ ح ۶۸۰۶ و سنده صحيح]
امام عطاء بن ابی رباح فرماتے تھے کہ اگر چاہتے ہو تو ایک وتر پڑھ لو ۔ دیکھئے
[مصنف ابن ابي شيبه : ۶۸۱۱ وسنده صحيح ، ابواسامه برئ من التدليس]
آلِ سعد اور آلِ عبداللہ بن عمر ایک وتر پڑھتے تھے ۔
[ابن ابي شيبه : ۶۸۱۲ و سنده صحيح]
تفصیل کے لئے مولانا ابوعمر عبدالعزیز النورستانی  کی عظیم الشان کتاب”الدلیل الواضح علیٰ أن الإیتار برکعۃ واحدۃ مستقلۃ شرعۃ الرسول الناصح صلی اللہ علیہ وسلم “ [ص ۱ تا ۲۹۱] ملاحظہ فرمائیں ۔
ان آثارِ صحیحہ کے باوجود یہ راگ الاپنا کہ اہل سنت (صرف) تین وتر پڑھتے ہیں (اور ایک وتر نہیں پڑھتے) بالکل غلط ہے ۔
خلیل احمد سہارنپوری انبیٹھوی دیو بندی لکھتے ہیں :
”وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس وغیرہ ما صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و احمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے کہو اب ایمان کاکیا ٹھکانا الخ “
[براهين قاطعه ص ۷]

جھوٹ نمبر ۱۲ :
اسماعیل جھنگوی لکھتے ہیں :
”امام صاحب نے پچپن حج کیے ہیں“
[تحفهٔ اهلحديث ص ۵۹]
تبصرہ :
یہ کہنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں جا کر ان کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں ، صحیح یا حسن سند سے قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا کسی ایک صحابی کے دیدار سے مشرف ہونا بھی قطعاً ثابت نہیں ہے ۔
فی الحال دو دلیلیں پیشِ خدمت ہیں :
اول :
امام ابوحنیفہ نے فرمایا : ما رأيت أفضل من عطاء
میں نے عطاء (بن ابی رباح) سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا ۔
[ الكامل لا بن عدي ج ۷ ص ۲۴۷۳ و سنده صحيح ، دوسرانسخه ج ۸ ص ۲۳۷ ، كتاب الاسامي و الكنيٰ لابي احمد الحاكم الكبير ج ۴ ص ۱۷۶ ، و سنده صحيح]
امام صاحب کا دوسرا قول ہے کہ میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا ۔
[العلل الصغير للترمذي مع السنن ص ۸۹۱ و سنده حسن]
امام صاحب کے اس قول سے ثابت ہوا کہ انہوں نے بشمول سیدنا انس رضی اللہ عنہ کسی صحابی کو نہیں دیکھا تھاور نہ وہ یہ کبھی نہ کہتے کہ میں نے عطاء سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا ۔
دوم :
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دو شاگردوں (جمہور محدثین کے نزدیک مجروح) قاضی ابویوسف اور محمد بن الحسن الشیبانی نے اپنی کسی کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت کا ثبوت پیش نہیں کیا ۔ محدث کبیرامام علی بن عمر الدارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا اور نہ کسی صحابی سے ملاقات کی ہے ۔
[سوالات حمزه بن يوسف السهمي : ۳۸۳ و تاريخ بغداد ۴/۲۰۸ و سنده صحيح]
ان دو دلیلوں اور قول دارقطنی کے مقابلے میں خطیب وغیرہ متاخرین کے حوالے بے کار و مردود ہیں ۔

جھوٹ نمبر ۱۴ :
اسماعیل جھنگوی صاحب ائمہ کرام کے بارے میں لکھتے ہیں :
”بھئی وہ مقلد نہیں تھے لیکن غیر مقلد بھی نہیں ہے ۔ وہ مجتہد تھے ۔ غیر مقلد کی تعریف ان پر فٹ نہیں آتی ۔ غیر مقلد تو وہ ہوتا ہے ۔ جو خود بھی اجتہاد نہ کر سکے اور مجتہد کی تقلید بھی نہ کرے بلکہ فقہاء کو گالیاں دے اور ان کے مقلدین کو مشرک کہے ۔ “
[تحفهٔ اهلحديث ص ۶۳]
تبصرہ :
درج بالاسارا بیان جھوٹ پر مبنی ہے ۔
ائمہ محدثین کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہ مقلدین نہیں تھے اور نہ مجتہد مطلق تھے ۔
[مجموع فتاويٰ ج ۲۰ ص ۴۰ ، دين ميں تقليد كا مسئله ص ۵۰ ، ۵۱]
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں :
”کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے “
[مجالس حكيم الامت از مفتي محمد شفيع ديو بندي ص ۳۴۵ ، حقيقت حقيقت الالحاد از امداد الحق شيوي ديو بندي ص ۷۰ ، دين ميں تقليد كا مسئله ص ۵۷]

کیا خیال ہے ؟ کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اوکاڑوی حضرات یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ فقہاء کو گالیاں دیتے اور ان کے مقلدین کو مشرک کہتے تھے ؟ اگر نہیں کر سکتے تو پھر ان کی بیان کردہ“غیر مقلد کی تعریف”باطل و مردود ہے ۔

جھوٹ نمبر ۱۵ :
اسماعیل جھنگوی صاحب قاضی ابویوسف اور محمد بن الحسن الشیبانی کے بارے میں لکھتے ہیں :
”وہ تو قسمیں اٹھاتے ہیں کہ ہمارا استاد سے کوئی اختلاف نہیں (شامی)“
[تحفهٔ اهلحديث ص ۷۰]
تبصرہ :
فتاویٰ شامی میں اصل عبارت پیش کریں اور پھر ابن عابدین شامی سے لے کر قاضی ابویوسف اور محمد بن الحسن الشیبانی تک صحیح سند پیش کریں ۔
تنبیہ :
محمد بن الحسن الشیبانی کی طرف منسو ب کتاب الآثار میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسو ب کیا گیا ہے کہ وہ سبزیوں پر صدقے (عشر) کے قائل تھے ۔ اس کے بعد شیبانی نے کہا: وأما فى قولنا فليس فى الخضر صدقة ”اور ہمارے قول میں سبز ترکاریوں میں زکوٰۃ نہیں ۔“
[كتاب الآثار مترجم ص ۱۴۳ باب زكوٰة الزرع و العشرح ۳۰۲]
قارئین کرام ! ابوبلال محمد اسماعیل جھنگوی دیو بندی کی چھوٹی سی کتاب”تحفۂ اہلحدیث“کے پندرہ جھوٹ باحوالہ و باتبصرہ آپ کی خدمت میں پیش کر دئیے گئے ہیں ۔ اس کتاب”تحفۂ اہلحدیث“میں اور بھی بہت سے جھوٹ ہیں جنہیں طوالت کے خوف کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے ۔
جھنگوی مذکور کی دوسری کتابوں میں بھی بہت زیادہ جھوٹ لکھے ہوئے ہیں مثلاًً سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسو ب ترکِ رفع یدین کی ایک روایت کے بارے میں جھنگوی صاحب لکھتے ہیں :
”زبیر علی زئی غیر مقلد نے نور العینین میں صحیح کہا: “
[تحفهٔ اهلحديث حصه دوم ص ۱۵۹]
حالانکہ اس ضعیف روایت کے بارے میں راقم الحروف نے علانیہ لکھا ہے کہ
”یہ حدیث علتِ قادحہ کے ساتھ معلول ہے اور سندًا اور متنًا دونوں طرح سے ضعیف ہے “ نور العینین طبع اول ص ۹۶ و طبع دوم (کمپوزنگ کے بعد اول) اپریل ۲۰۰۲؁ء ص ۱۱۹ ، طبع سوم مارچ ۲۰۰۴؁ء ص ۱۱۵ ، طبع چہار م (جدید و تر میم شدہ مع اضافات ایڈیشن) دسمبر ۲۰۰۶؁ء ص ۱۳۰
بعض جگہ”سندًا ، متنًا“اور بعض جگہ”سندًا و متنًا“چھپا ہے ۔
معلوم ہوا کہ جھنگوی صاحب نے جھوٹ بولنے میں ماسٹر امین اوکاڑوی کو مات اور کذابین کا عالمی ریکار ڈ قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ (۱۳ فروری ۲۰۰۷؁ء)
اسماعیل جھنگوی دیو بندی صاحب کی کتاب تحفہ اہل حدیث کا مدلل رد تحفہ حنفیہ کے نام سے برسوں قبل شائع ہو چکا ہے جو یہاں سے ڈاونلوڈ کیا جا سکتا ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 16 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply