استغفار کی فضیلت

تحریر:حافظ ضیاء الدین المقدسی رحمہ اللہ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم شمار کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں سو مرتبہ (استغفار کرتے، جس کے الفاظ یہ ہیں)
رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَتُبْ عَلَيَّ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ
”اے میرے رب ! مجھے معاف فرما اور مجھ پر رجوع فرما، یقیناً تو بہت رجوع فرمانے والا، بخشنے والا ہے۔“
[سنن ابي داود: ۱۵۱۶، ابن ماجه : ۳۸۱۴، الترمذي: ۳۴۳۴، ابن حبان : ۲۴۵۹ ، صحيح]
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے نامۂ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہوا تو اس کے لئے طوبیٰ (خوشخبری) ہے ۔
[سنن ابن ماجه : ۳۸۱۸، اسناده حسن]
فوائد:
طوبیٰ جنت کا یا جنت میں ایک درخت کا نام ہے ۔ [مرعاة المفاتيح ۶۲/۸]
سیدنا اَغرالمزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (بعض اوقات ) میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ [ صحيح مسلم : ۲۷۰۲]
فوائد:
اس حدیث کے تحت امام قرطبی رحمہ اللہ نے بڑی جامع بحث کی ہے ، جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے : اس حدیث سے کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ جسطرح عاصی و باغی شخص کا دل گناہوں کے اثر کو قبول کرتا ہے ، ویسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو بھی گناہ نے متاثر کیا ہے ۔ (العیاذ باللہ) بلکہ وہ مغفور و مکرم ہیں اور کسی چیز کے ذریعے سے ان کاکوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ غين (بادل کا چھا جانا) گناہ کے سبب سے نہیں ہے ۔ [المفهم ۲۷/۷]
بعض علماء نے اس حدیث کی وضاحت میں کئی اقوال بیان کئے ہیں:
➊ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر پر مداومت فرماتے تھے، پس جب کوئی وقفہ یا سہو ہوجاتا تو اس بنا پر استغفار کرتے تھے۔
➋ آپ ﷺ شکر اور اظہارِ عبودیت کے لئے استغفار فرماتے۔
➌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب امت کے احوال سے مطلع کیا جاتا تو آپ ان کے لئے استغفار کرتے تھے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے :
[المفهم للامام قرطبي ۲۶/۷ ، ۲۷ شرح الابي والسنوسي على صحيح مسلم ۱۰۳،۱۰۲/۹]
سیدنا زید (ابن حارثہ) مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے : جو شخص یہ کہے : اَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِيْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَيْهِ، ”میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے ، میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ تو اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اگرچہ وہ میدانِ جہاد سے فرار ہوا ہو۔“
[ سنن ابي داود: ۱۵۱۷، الترمذي: ۳۵۷۷، حسن]
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے : جس بندے سے گناہ سر زد ہو جائے ، پس وہ اچھے طریقے سے وضو کرے، پھر دو رکعتیں نماز اداکرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ اسے معاف فرما دے گا ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :
﴿ وَ الَّذِیۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا اللّٰہَ ﴾
”اوروہ لوگ جب کسی برائی کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں….“ آیت کے آخر تک [آلِ عمران: ۱۳۵ ]
[ سنن ابي داود: ۱۵۲۱، الترمذي: ۳۰۰۶ ، ابن ماجه : ۱۳۹۵، اسناده حسن ]
فوائد:
مذکورہ تمام روایات میں استغفار کی فضیلت واضح ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی ترغیب و ترہیب میں متعدد ارشادات جابجا ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴾
”اور اللہ تعالیٰ آپ کی موجودگی میں ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے اور (اسی طرح) اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب کہ وہ بخشش مانگنے والے ہوں۔“ [الأنفال: ۳۳]
نیز فرمایا :
﴿ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴾
”جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، وہ پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔“ [النساء: ۱۱۰]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری (عورتوں کی) دیکھی ہے ۔ …الخ
[ صحيح بخاري: ۳۰۴، صحيح مسلم: ۷۹]
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بھی کثرتِ استغفار تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے پہلے یہ کلمات کثرت سے پڑھتے ،
سبحان الله وبحمده، استغفرالله و اتوب اليه
”پاک ہے اللہ اور اپنی حمد و ثنا کے ساتھ میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“
[ صحيح بخاري: ۴۹۶۷، صحيح مسلم : ۴۸۴]
اللہ ہم سب کو اپنے حضور عاجزی و انکساری ، خشوع و خضوع اور توبہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)

یہ تحریر اب تک 34 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply