استخارہ کے فضائل و مسائل

تالیف: محمد اختر صدیق

استخارہ کا مطلب

کسی معاملہ میں خیر اور بھلائی طلب کرنے کو استخارہ کہتے ہیں۔

استخارہ کی اصطلاحی تعریف

ایسی دو رکعت نماز اور مخصوص دعا جس کے ذریعے، اللہ تعالیٰ سے کسی معاملہ کی بھلائی اور انجام کار کی بہتری کا سوال کیا جاتا ہے۔ یا پھر دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں اللھ تعالیٰ سے مدد طلب کی جاتی ہے۔

استخارہ کی فضیلت

استخارہ کی فصیلت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے بندہ اپنے پروردگار سے کسی کام میں رہنمائی حاصل کرنے کا سوال کرتا ہے، اور اس کام میں بہتری اور انجام خیر کی استدعا کرتا ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنا، اور اس کے فیصلہ پہ راضی ہونا انسان کی خوش بختی جب کہ اللہ تعالی سے استخارہ نہ کرنا اور اس کے فیصلہ پہ راضی نہ ہونا انسان کی بدبختی کی علامت ہے“ ۔ [مسند احمد، 168/1]

استخارہ کی اہمیت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کی تلقین بھی کیا کرتے اور انہیں اس کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے، اس کی کفیت، آداب، مسائل، فضائل اور الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلائے ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے جیسے قرآن مجید کی سورت مبارکہ سکھلایا کرتے تھے۔“ [صحيح بخاري مع الفتح، كتاب الدعوات حديث نمبر: 38/3، 6382]
اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استخارہ کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے تشبیہ دی ہے۔ جس سے اس کی اہمیت کا انداز لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
استخارہ کے عظیم نفع اور غیر محدود فائدہ کے پیش نظر اس کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [تحفته الاحوذي، 506/2]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے، مخلوق سے مشورہ کرے اور اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے اسے کبھی بھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔“ [الكلم الطيب، ص71]
بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھتا ہے، اپنے ہر معاملہ میں اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی کا طلبگار رہتا ہے، ہر کام میں مالک حقیقی سے کامیابی و کامرانی کا سوال کرتا رہتا ہے، ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کے کام سنوار دیتے ہیں، اس کے رزق، عمر، مال و دولت اور اہل وعیال میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ جب اسے کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے تو وہ اپنے مخلص ایماندار بھائیوں سے مشورہ کرتا ہے۔ وہ بھی اسے پورے صدق و اخلاص کے ساتھ بہترین اور فائدہ مند مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے رب سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے تو اس کے بگڑے کام بھی سنور جاتے ہیں اور اسے ہر طرح بھلائی ہی بھلائی نصیب ہوتی ہے۔

استخارہ کی حکمت

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ استخارہ کی سب سے بڑی حکمت انسان کا اپنے پروردگار سے ہر وقت مربوط رہنا اور ہر کام اور ہر حال میں اللہ جل شانہ سے بھلائی کا خواستگوار ہونا ہے۔
تاہم مزید وضاحت کے لیے استخارہ کی حکمت مندرجہ ذیل نکات میں بیان کی جا سکتی ہے۔

(1) اللہ تعالیٰ سے تعلق:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، اسے بے شمار ظاہری وباطنی نعمتوں سے نوازا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پروردگار عالم انسانوں کے خیر خواہ اور ان سے محبت رکھنے والے ہیں اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ لوگ ہر وقت اپنے مالک سے مربوط رہیں اور مختلف طریقوں سے اس کے ساتھ تعلق قائم رکھیں۔ استخارہ اس تعلق کی عملی تفسیر ہے۔

(2) توحید الوھیت کا اثبات:

استخارہ جہاں مسلمان کے لیے خیر اور بھلائی طلب کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اس کے لیے توحید الوھیت کا درس بھی ہے۔ اس سے ہر مسلمان باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مصیبت ٹالنے، بھلائی اور بہتری پیدا کرنے کا اختیار صرف اور صرف اس مالک حقیقی کو ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اس کی حفاظت فرمائی اور اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا جب کہ مخلوقات میں سے کسی کو اتنی قوت اور ہمت حاصل نہیں ہے۔

(3) توکل:

استخارہ اللہ تعالیٰ پر توکل کا باعث ہے۔ مسلمان کو اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو فائدہ پہنچانا چاہے تو اس بھلائی کو کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر وہ نقصان پہنچانا چاہے تو اسے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔

(4) رسم جاہلیت کا خاتمہ:

زمانہ جاہلیت میں لوگ تیروں پر مندرجہ ذیل عبارت لکھ کر فال بازی کرتے کہ ”مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے“ یا پھر لکھتے کہ ”مجھے میرے رب نے منع کیا ہے“ اور مختلف کاموں میں اس رسم پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے فیصلے کیا کرتے تھے۔ اسلام کے آنے سے ایسی تمام رسمیں ختم ہو گئیں لیکن لوگوں کی ضرورت کے مدنظر ان کو استخارہ کی ترغیب دی گئی جس سے بڑی رسم کے بدلے دو رکعت نماز اور دعا کا خوبصورت عمل جاری ہوا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ:
جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے، اور مخلوق سے مشورہ کرے اور اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے، اسے کبھی بھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا“ ۔ [الكلم الطيب، ص 71]

(5) نفع کا حصول اور خرابی کو دور کرنا:

استخارہ کی حکمت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے لیے نفع کا حصول آسان اور ممکن ہو اور ان سے خرابی اور نقصان کو دور کیا جائے۔ یہ دین اسلام کا بنیادی مقصد اور کی روح بھی ہے۔

آداب استخارہ

(1) طہارت:

ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے کپڑے بدن اور ماحول کو پاک و صاف رکھا جائے، گناہوں کی آلودگی سے دور رہنے کی کوشش کی جائے۔

(2) نیت:

استخارہ کرنے والا یہ بات ذہن نشین کر لے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے فائدہ ہے۔ نیت فقط دل سے ہو گی الفاظ ادا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

(3) کامل توجہ:

اسے یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے پرودگار سے بھلائی اور خیر طلب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ استخارہ کرے۔

(4) ترک معاصی:

اگر وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے فوراً چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور پھر درپیش مسئلہ میں استخارہ کرے۔

(5) آداب دعا:

دعا کے عام آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعائے استخارہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود و سلام سے شروع کرے۔ یاد رہے کہ درود مسنون الفاظ وہی ہیں جو ہم نماز میں ادا کرتے ہیں، اسے درود ابراہیمی کہا جاتا ہے۔

(6) حلال روزی:

دعا کے آداب میں سے ایک اداب روزی کا حلال ہونا ہے۔ حرام روزی کے لقمے پیٹ میں اتارنے والے کی کوئی عبادت حتیٰ کہ نماز بھی قبول نہیں ہوتی استخارہ کہاں سے سود مند ہو گا۔

(7) یقین کامل:

وہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ استخارہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ ہی کریں گے، اور یہ کہ وہ کام اس کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی اور بہتری کا باعث ہو گا۔

(8) ایک ہدایت:

اسےچاہیےکہ وہ باوضو اور قبلہ رخ ہو کر لیٹ جائے بشرطیکہ اس نے استخارہ سونے سے قبل کیا ہو، ورنہ نیند کے ساتھ استخارہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

استخارہ کا حکم

بعض علما نےاستخارہ کو مستحب (شریعت کی نظر میں بہترین اور پسندیدہ عمل) اور بعض نے جائز کہا ہے البتہ استخارہ واجب نہیں ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپىیش ہو تو اسے چاہئے کہ وہ استخارہ کر لے۔“ [صحيح بخاري، كتاب التهجد باب ماجاء فى التطوع مثني مثني]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے یہی بات ثابت ہو رہی ہے۔ کہ استخارہ واجب نہیں ہے۔ بلکہ انسان کی مرضی پر منحصر ہےکہ وہ استخارہ کرے یا نہ کرے۔ مختلف دلائل سے یہی بات سامنے آتی ہےکہ استخارہ اللہ تعالیٰ سے بہترین تعلق کا سبب ہونے کی بنا پر مستحب ہے۔

استخارہ سے قبل

انسان کو چاہئے کے استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو پاک اور صاف کرے یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی طلب کرے اور پورے خلوص کے ساتھ پروردگار کی جانب میں اپنی گزارشات پیش کرے یقینًا اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کریں گے۔

استخارہ کا طریقہ

ہمارے ہاں استخارہ کے متعلق عجیب و غریب طریقے لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ جن کا ذکر بےفائدہ اور طوالت کا باعث ہے۔ البتہ سنت مطہرہ کا مطالعہ کرنے سے استخارہ کا مندرجہ ذیل طریقہ سامنے آتا ہے:
(1) جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو وہ فوراً استخارہ کی نیت (ذہن بنائے) کرے تاکہ وہ اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی طلب کر سکے۔
(2) نماز کی طرح مکمل وضو کرے۔
(3) فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے۔
(4) نماز سے فارغ ہونے کے بعد استخارہ کی مخصوص دعا پڑھے۔
دعا کے شروع میں الحمدللہ . . . . اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے۔

دعا کے الفاظ یہ ہیں:

اللهم إني أستخيرك بعلمك، واستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب . اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر (كام كا نام لے ) خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري یا یہ الفاظ کہے (عاجل امري وآجله) فاقدره لي، ويسره لي، ثم بارك لي فيه . وإن كنت تعلم أن هذا الأمر (کام کا نام لے ) شرلي فى ديني و معاشي و عاقبته امري یا یہ الفاظ کہے (عاجل امري واجله) فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم ارضني به [ صحيح بخاري مع الفتح، كتاب الدعوات حديث 6382: ابوداؤد، 568/1]
”اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے ہمت کا طلبگار ہوں۔ اور میں تیرے بہت زیادہ فضل سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیب کو خوب جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (کام کا نام لے) میرے دین میری معاش (دنیا) اور انجام کار کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے (یا یہ کہےکہ جلد یا بدیر) تو پھر تو اسے میرے مقدر میں کر دے، اور اسے میرے لیے آسان کر دے اور میرے لیے اس میں برکت پیدا فرما . اور اگر تو جانتا ہے یہ کام (کام کا نام لے) میرے دین میری معاش (دنیا) اور انجام کار کے اعتبار سے میرے لیے بُرا ہے یا یہ الفاظ کہے ” (جلد یا بدیر) تو اس کو مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے، اور میرے لیے بہتری اور بھلائی مقدر کر دے چاہے وہ جہاں بھی ہو۔ پھر مجھے اس سے خوش کر دے۔“
فائدہ 1: جہاں بریکٹ میں (کام کا نام لے) یہ الفاظ لکھے ہیں وہاں اپنی حاجت یا اپنے مسئلہ کا تذکرہ کرے یعنی درپیش مسئلہ کا نام لے۔
فائدہ 2: استخارہ کی دو رکعت میں فاتحہ کہ بعد کسی بھی سورۃ مبارکہ یا قرآن مجید کے کسی بھی حصہ کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔

استخارہ کی ضروت

اگر ہم غور کریں تو یہ انداذہ لگانا مشکل نہیں کہ استخارہ ایک مسلمان کے لیے ہر وقت ضرورت ہی ضرورت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرنا ہر وقت اور ہر حال میں ہر مسلمان کی ضرورت ہے تاہم چند نکات کی شکل میں اس عنوان کی وضاخت ملاحظہ فرمائیں۔

عمل بالدلیل

اسلام دین فطرت ہے، دیگر بےشمار امتیازات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ماننے والے دلائل و براہین کی روشنی میں زندگی گزارتے ہیں، محض قیاس آرائی، ذاتی رائے، اور قصہ گوئی کا اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
﴿قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ [12-يوسف: 108]
”کہہ دیجئے میرا رستہ تو یہ ہے میں اور میرے پیروکار اللہ تعالیٰ کی طرف پوری بصیرت (دلیل) کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا:
”میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں تم اس وقت تک ہرگز گمراہ نہیں ہو گے جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ “ [موطاامام مالك، باب النهي التولي على القدر]
قرآن و حدیث میں بےشمار ایسے دلائل موجود ہیں جن میں دلیل کی بنا پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ استخارہ کرنے والا یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اس نے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو اس کے لیے اختیار کیا وہ اس کے مطابق فیصلہ کر رہا ہے گویا کہ اس کا عمل دلیل کی بنیاد پر ہے اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔

پریشانی سے نجات

بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ انسان مختلف وجوہات کی بنا پر کوئى فیصلہ کرنے کى ہمت نہیں رکھتا، وہ حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس صورت حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے کہ انسان دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالٰی سے دعائے خیر کرے اور پریشان کن صورت حال سے چھٹکارہ حاصل کر لے۔
ہم یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ استخارہ مسلمان کے لیے انتہائی تسلی اور اطمینان کا باعث ہے۔ جب انسان کو کچھ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے تب وہ اپنے پروردگار سے خصوصی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دست سوال دراذ کرتا ہے، اس سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے اور اپنے لیے فائدہ مند کام اختیار کرنے کی استدعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کامیابی اور بہتری کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
﴿اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ [2-البقرة: 257]
اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آ گ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

مستقبل میں رہنمائی

ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کام شروع کرے اس میں اس کو فائدہ ہی فائدہ ہو نقصان نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے شروع کردہ منصوبے یا اختیار کردہ کام کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ کیونکہ غیب کی خبریں تو فقط پروردگار عالم کے پاس ہیں۔ تجارت، ملازمت، شادی، کاروبار وغیرہ کے متعلق لوگ بہت احتیاط اور فکرمندی سے کام لیتے ہیں۔ استخارہ کرنے سےمستقبل میں اگرچہ انسان غیب پر اطلاع تو نہیں پا سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ کسی کام کو شروع کرنے یا نہ کرنے میں اس کا دل اطمینان ضرور پکڑ لیتا ہے۔ اور یہ کام درحقیقت اس کے فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔

اللہ تعالٰی سے تعلق

انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا محتاج ہے۔ وہ انسان کامیاب ہے جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق ہر وقت قائم رکھے۔ استخارہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ اور ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔

استخارہ کے فوائد

1 اصلاح عقیدہ:

استخارہ کے بے شمار فوائد میں سے سب سے اہم اور عظیم فائدہ انسان کے عقیدہ کی اصلاح ہے۔ استخارہ توحید الوھیت کا مظہر ہے۔ اس سے ہمیں عقیدہ کی اصلاح کا درس ملتا ہے کہ ہر حال میں فقط مالک حقیقی کے سامنے ہی جبین نیاز جھکائی جائے اور فقط اسی سے ہی مدد طلب کی جائے۔

2 اللہ تعالٰی کى محبت کا ذرىعہ:

استخارہ اللہ تعالیٰ کى محبت کا ذرىعہ ہے۔ جب انسان کو پرىشانى کے عالم میں کوئى جائے پناہ نہ مل رہى ہو تو پرورد گار عالم کى محبت ہى اسے عافىت جائے نظر آتى ہے۔ وہ اللہ تعالىٰ سےکسى ایسے مخرج کا سوال کرتا ہے جو اسے اس گھمبیر صورت حال سے نجات دے سکے۔ جب مالک کائنات کے خصوصى فضل وکرم سے روشن امید نظر آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں مزید گہری ہو جاتی ہے۔

3 عاجزی کا اظہار:

اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے جھکا رہے اپنی عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی قوت کا اظہار کرتا رہے . اسلامى معاشرے میں لاحول ولا قوة الا باالله کا کلمہ زبان زد خاص و عام ہوتا ہے جس کے معانى ہى یہ ہیں کہ ”کسى برائى سے بچنے کى طاقت اور کچھ کر سکنے کى قوت صرف اللہ تعالىٰ کى توفیق کے سایھ ہى ممکن ہے۔“ استخارہ اس امر کے اظہار کى بہترین شکل ہے۔ اس میں انسان اپنی عاجزی، کم علمی اور بے چارگى کا اظہار جبکہ اللہ تعالیٰ کی قوت طاقت اور توفیق کا اقرار کرتا ہے۔

4 اللہ تعالیٰ سے مدد کا سوال:

مسلمان ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق کا سوال کرتا ہے۔ ہم ہر نماز کی رکعت میں اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ [ 1-الفاتحة: 4]
”ہم فقط تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔“ استخارہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

5 عبادت کا ذریعہ:

اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ [51-الذاريات: 56]
”میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے۔“ استخارہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بہترین ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا قرب:

استخارہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ جب انسان کسی کام کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور اس سے اپنا تعلق قائم رکھتا ہے تو یقیناً یہ قرب الٰہی کا سبب ہے۔ جس کو قرب الٰہی نصیب ہو اس کے مقدر کے کیا کہنے۔

پریشانیوں سے نجات:

آپ استخارہ کی حکمت کے عنوان کے تحت پڑھ چکے ہیں کہ استخارہ انسان کو پریشانیوں سے نجت دلانے کا ذریعہ ہے۔

توکل:

استخارہ کا ایک فائدہ اللہ تعالیٰ پر توکل بھی ہے۔ استخارہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ تمام تر جائز وسائل استعمال کرتے ہوئے معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقداس پر چھوڑ دینا چاہیے، وہ انسان کے حق میں بہتر فیصلہ کرتا ہے۔

تدبیر پر عدم اعتماد:

استخارہ میں اس بات کا بھی درس ہے کہ مسلمان کا اعتماد تدبیر اور وسائل کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ اسباب وسائل کو اختیار کرنا ضروری ہے مگر ان پر اعتماد اور توکل کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ انجام کار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

انسانی حقیقت کا ادارک:

استخارہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنی حقیقت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ اسے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے کہ انسان کی قدرت میں کوئی چیز نہیں بلکہ نفع ونقصان کا مالک فقط اللہ تعالیٰ ہے۔
بعض علما کے قول کے مطابق
جس انسان کو چار چیزیں مل چکی ہوں تو اس سے مزید چار چیزیں دور نہیں رہ سکتیں۔ ”جو شکر کی نعمت سے مالا مال ہے اس کو مزید (نعمت) ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جس کو توبہ کی دولت ملی ہے اسے شرف قبولیت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جسے استخارہ کی نعمت میسر ہے اس سے بھلائی کو کوئی دور نہیں کر سکتا۔ جسے بہترین لوگوں سے مشورہ کی عادت ہے اسے صحیح رستہ سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔“

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سوال:

استخارہ کرنے والا اللہ تعالیٰ سے کسی کام کو اختیار کرنے اور پھر اس کام پر پروردگار سے راضی ہونے کا سوال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مناسب کام کو اختیار کرنے کے اسباب بھی پیدا فرماتے ہیں اور پھر اس پر انسان کو راضی بھی رکھتے ہیں گویا کہ استخارہ کی مدد سے مسلمان دلی راحت محسوس کرتا ہے اور ذہنی اضطراب و بےچینی سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس بات پر مطمئن رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی پر عمل پیرا ہے۔ (احیاء علوم الدیں، 181/2)

استخارہ کا وقت

استخارہ کی نماز اور دعا کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں غالبا کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس میں استخارہ کا کوئی خاص وقت ذکر کیا گیا ہو۔ انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارہ کا اہتمام کر سکتا ہے۔ البتہ بعض علما کے نزدیک مکروہ اوقات میں استخارہ نہ کرنا بہتر ہے؟

کیا استخارہ کئی بار کیا جا سکتا ہے؟

اگر کوئی انسان کسی مسئلہ میں استخارہ کرتا ہے مگر اس کے لیے کوئی نتیجہ یا فیصلہ ظاہر نہیں ہوتا کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بار بار استخارہ کرے۔ ؟ بعض علما نے اس بات کی صراحت کی ہے اور فقہا کی ایک جماعت بھی اس بات کی قائل ہے کہ اگر کسی کے لیے استخارہ کے بعد کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے وہ تین بار استخارہ کرے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب مالقي النبى من اذي المشركين والمنافقين: 120/12]
اگر وہ پہلی دفعہ ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو دوسری بار استخارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ فقط اس وقت ہے جب اس کے لیے صورت حال واضح نہ ہو رہی ہو۔

کون سے امور میں استخارہ کرنا چاہیے؟

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت اسلامیہ پر جو احکام لاگو کیے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں:
(1) ان میں سے ایک واجب ہے یعنی وہ امور جن پر عمل کرنا واجب ہے ایسے امور میں استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان کو بجا لانا انسان پر ویسے ہی لازم ہے۔
(2) ان میں سے ایک حرام ہے یعنی وہ امور جن سے رکنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، ان کا ارتکاب گناہ اور باعث عذاب ہے۔ ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں ہے کیونکہ ان امور سے دور رہنا ضروری ہے۔
(3) ان میں سے ایک مستحب ہے یعنی ایسے امور جن کا اہتمام شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہے ایسے امور میں بھی استخارہ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس کام کے متعلق پہلے سے ہی شریعت اپنی پسند کا اظہار کر چکی ہو، اس میں اللہ تعالیٰ سے مشورہ طلب کرنے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔
(4) ان میں سے ایک مکروہ ہے یعنی وہ افعال جو شریعت میں ناپسندیدہ ہیں۔ ان کا ارتکاب شارع نے اچھا نہیں سمجھا ہے بلکہ ان پر اصرار اور تسلسل، حرام کے دائرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں ہے۔
(5) آخری قسم وہ ہے جس میں استخارہ جائز اور پسندیدہ ہے وہ ”مباح“ ہے یعنی جائز امور، جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اختیار دیا ہے۔
مثلا دو جائز امور میں سے ایک کو اختیار کرنا کہ آیا ان میں سے ایک اختیار کیا جائے یا نہیں یا پھر کس کو اختیار کیا جائے، ایسے کاموں میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے۔ یا پھر کسی ایک جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کرے کہ آیا یہ کام اس کے لیے فائدہ مند ہے کہ شروع کرے یا پھر بے فائدہ ہے کہ اس کو چھوڑ دے۔
یاد رہے کہ استخارہ ایسے واجب اور مستحب امور میں بھی ہو سکتا ہے جن کے لیے شریعت نے کھلا وقت رکھا ہے لیکن اس کام کو کرنے یا نہ کرنےمیں استخارہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ واجب یا مستحب ہے مگر اس کے لیے مناسب وقت اختیار کرنے میں ہو سکتا ہے کہ اسے آج شروع کرے یا کسی اور وقت میں شروع کرے مثلا حج ہر بالغ عاقل صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے میں استخارہ نہیں ہو گا بلکہ اس لیے کہ حج کا سفر کب شروع کیا جائے، کون سا زاد راہ اختیار کیا جائے اور کن لوگوں کے ساتھ سفر کیا جائے؟

شادی اور استخارہ

انسان کی زندگی میں شادی اہم ترین مرحلہ ہے۔ شریک حیات کا انتخاب انتہائی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی ہو، وہ ایک دوسرے کے طبعی میلان، عادات، پسند ناپسند کا خیال رکھیں تو ایسا گھر جنت نظیر ہوتا ہے اور اللہ نہ کرے اگر اس کے برعکس صورت حال ہو تو دنیا میں ہی عذاب سے واسطہ پڑ جاتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کی طرف سے شادیوں کے فیصلے میں زبر دست زیادتیاں اور غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ والدین عام طور پر رشتہ داروں میں یا لالچ کی خاطر شادیاں کرنے کے لیے غیر مناسب رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں جس کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اولاد بھی حقائق کو ٹھکرا کر Love Marriage جیسی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہے جو وقتی اور جزباتی فیصلہ ہوتا ہے جس کا انجام کچھ ہی عرصہ کے بعد انتہائی بھیانک صورت حل میں سامنے آتا ہے۔ ان تمام مصائب سے بچنے کے لیے استخارہ ایک زبردست ہتھیار ہے جس میں ناکامی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ شادی کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کا ذکر عام طور پر کیا جس میں شادی بھی داخل ہے مگر اس کا خاص ذکر اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ شادی کے لیے خاص طور پر استخارہ کی روایت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بہترین طریقہ سے وضو کر پھر اللہ تعالیٰ نے جو تیرے مقدر میں لکھی ہے وہ نماز پڑھ پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف اوربزر گی بیان کر“ پھر یہ کہہ:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةِ تسميها باسمها . . . خَيْرَاً فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرٌ لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَآخِرَتِي فاقض لِي بها او قال فَاقْدُرْهَا لِي [مستدرك حاكم، كتاب صلوة التطوع باب الاستخاره فى خطبة النكاح: 314/1]
”اے اللہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے اور اگر تو فلاں عورت کے متعلق سمجھتا ہے (اس کا نام لے) کہ اگر وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین، دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بہتر ہےتو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا اس کو میرے مقدر میں کر دے۔ “
احادیث کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی کے متعلق اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس کے لیے نامناسب فیصلہ نہیں کرتے۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیےکسی رشتہ کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے بہتر فیصلہ ہی فرمائیں گے۔

کیا حیض اور نفاس والی عورتیں استخارہ کر سکتی ہیں؟

ایسی عورتیں جن کو ولادت یا کمزوری کے ایام کی وجہ سے شرعی مجبوری کا سامنا ہو تو وہ استخارہ کے لیے دو رکعت نماز تو نہیں پڑھ سکتیں البتہ استخارہ کی مسنون دعا پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی کا سوال کر سکتی ہیں کیونکہ حائضہ اور نفاس والی عورت کو نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے البتہ دعا ہر حال میں کی جا سکتی ہے۔

کیا استخارہ کے لیے دو رکعت پڑھنا ضروری ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فامایا:
”جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو اسے چاہیے کہ فرضی نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھے۔ پھر یہ کہے۔
اللهم اني استخيرك بعلمك. . . . . . . . . . . . . . . . . . [ صحيح ابن حبان، 123/2]
آپ کے مندرجہ بالا فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ استخارہ کے لیے خاص دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے جو کہ فرضی نمازوں کے علاوہ ہو۔

کیا دو رکعت سے زیادہ پڑھ سکتا ہے؟

گزشتہ موضوع کے تحت مذکور حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ فرضی نماز کے علاوہ استخارہ کی دو رکعت ادا کرے جبکہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صل ما كتب الله لك کے الفاظ ہیں کہ: ”اللہ تعالیٰ نے جتنی نماز تیرے مقدر میں کی ہے پڑھ لے“ سے پتہ چلتا ہے کہ دو رکعت سے زیادہ پڑھی جا سکتی ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کم از کم دو رکعت ضروری ہیں اور اگر دو سے زائد بھی پڑھ لی جائیں تو کوئی نقصان یا حرج والی بات نہیں ہے۔ [نيل الاوطار، 89/3]

کیا استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری ہے؟

ہمارے ہاں اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ استخارہ کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارہ کے نتیجہ کا علم ہو سکے۔
یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی اور نہ ہی علمائے سلف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ استخارہ کے بعد خواب کا آنا ضروری ہے یا پھر نیند میں کسی کا بات کرنا یا کسی طریقہ سے رہنمائی ملنا ضروری ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی طریقہ سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل تسلی اور اطمینان کی شکل میں ہو۔ اگر استخارہ کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ کا نام لے کر اس کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔
معروف عالم دین جناب عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حدیث میں اس بات کی طرف تو کوئی اشارہ نہیں کہ انسان کو استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر کا ذریعہ ہے، اس کے لیے انہوں نے کئی خود ساختہ قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں اور اگر انہیں خواب نہ آئے تو وہ کسی اور آدمی سے استخارہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ [التعليقات السلفيه على سنن النسائي، 67/2]
مذکورہ بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بعض لوگ اسی غرض سے فقط سوتے وقت استخارہ کرتے ہیں تاکہ خواب میں کچھ نہ کچھ دیکھ سکیں، یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔ استخارہ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں نہ ہی تو اس کا وقت تعین کیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں خواب کی شرط لگائی گی ہے۔

استخارہ کے بعد انسان کیا کرے؟

ہم بیان کر آئے ہیں کہ استخارہ سے قبل وہ اپنے ذہن کو تمام تر رجحانات اور پریشانیوں سے خالی کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد دست دعا بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت کا واسطہ دے کر اس سے بھلائی اور بہتری کا سوال کرے، اس کے بعد جو کچھ اس کے لیے ظاہر ہو، چاہے وہ کسی طریقہ سے ہو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس کا دل جس طرف مائل ہو جائے اسے اختیار کرنے کی سعی کرے۔
استخارہ سے پہلے مخلص ساتھیوں سے مشورہ کرے اور استخارہ کے بعد دلی رحجان پر عمل کرے، تردد کا شکار نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے اور پریشانی سے دامن چھڑا لے، مالک کائنات اس کے لیے بہتر فیصلہ ہی کریں گے۔

اگر ایک بار استخارہ سے نتیجہ ظاہر نہ ہو

اگر ایک بار استخارہ کرنے سے اس کے لیے کوئی نتیجہ یا دلی میلان ظاہر نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کم از کم تین بار استخارہ کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا تین بار کیا کرتے تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اس عمل سے ان شاء اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ ضرور واضح ہو جائے گا۔
بعض لوگ بے شمار دفعہ استخارہ کرتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ رات کو سوئیں تو ان کے ہاتھ میں کوئی ایسا پروانہ تھما دیا جائے جس پر ساری تفصیل حرفاً حرفاً لکھی ہو، تب جا کر استخارہ کا نتیجہ پورا ہو گا اور ان کی محنت کا پھل ان کے ہاتھ آئے گا۔ یہ خواہ مخواہ تشدد اور جہالت پر مبنی سوچ ہے۔ ہم نے عرض کر دیا کہ استخارہ کے بعد دلی میلان ہی استخارہ کا نتیجہ ہے لہذا اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس میلان پر ہی عمل کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہونا

استخار کرنے والے کے لیے جو نتیجہ ظاہر ہو یا اس کا دلی میلان جس طرف ہو اس پر راضی ہونا اور اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا ضروری ہے کیونکہ خیر اور بھلائی اسی میں ہے گویا کہ یہ ایسا کام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اسے پوری رغبت اور رضا کے ساتھ قبول کرے اور مکمل اطمینان کے ساتھ اس پر عمل کرے، اس کو رد کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ غیبی امور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اس کی عقل سے بڑھ کر ہے اور اللہ تعالی کی رہنمائی انسان کی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہے عین ممکن ہے جس چیز کو وہ بظاہراً برا سمجھ رہا ہے وہ حقیقت میں بہتر ہو اور جس کو وہ ظاہری طور پر اچھا سمجھ رہا ہے وہ درحقیقت اس کے لیے نقصان دہ ہو۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ مومن بندے کے ہر کام سے تعجب کرتے ہیں (خوش ہوتے ہیں) اگر اسے بہترین اور بھلائی پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرے . (صرف اور صرف) مؤمن آدمی کے لیے ہی ممکن ہے“ [صحيح مسلم، كتاب الزهد والر قائق باب المومن امره كله خير: 100/18]
(اس حدیث کے ذکر کے بعد) وہ مزید کہتے ہیں:
انسان کی خوشی بختی یہی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے اختیار کیا ہے وہ اس پر راضی ہو جائے اور بدبختی یہ ہے کہ جو کچھ پروردگار نے بندے کے لیے اختیار کیا ہے وہ اسے ناپسند کرے اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے تقدیر پر راضی ہونے والوں کی تعریف کی ہے۔ مومن بندے کی نشانی ہے کہ وہ مصیبت پر صبر کرتا ہے اور خوشی کے وقت شکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، ملاقات کے وقت سچ بولتا ہے اور دشمنوں کو بھی گالی نہیں دیتا یے۔“ [مدارج السالكين 210 ]
بعض علما نے کہا کہ استخارہ کے بعد ظاہر ہونے والے معاملہ کو اختیار نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ [بهجته النفوس، 90/2]

غیر شری استخارہ

استخارہ کا شرعی اور مسنون طریقہ پہلے گزر چکا ہے مگر بعض لوگ استخارہ کے لیے غیر شری طریقے استعمال کرتے ہیں جن کی تفصیل درج کرتے ہوئے ڈاکڑ محمد طاہر حکیم صاحب لکھتے ہیں:

(1) تسبیح اور استخارہ:

بعض لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں جو بات آخری دانے کے مطابق ہو اس پر عمل کرتے ہیں شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

(2) قرآن کریم اور استخارہ:

بعض لوگ قرآن مجید کا کوئی بھی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں اور اس کے مفہوم کے مدنظر خود ساختہ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شری ہے۔

(3) تیر اور استخارہ:

بعض لوگ تیر پھینک کر دائیں اور بائیں سمت گرنے سے استخارہ کرتے ہیں یہ طریقہ قبل از اسلام رائج تھا جسے شریعت اسلامیہ نے باطل قرار دیا ہے۔
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ: اس کے علاوہ لوگوں کے ہاں استخارہ کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں جو زمانہ جاہلیت کے بعض امور سے مشابہہ ہیں جیسا کہ کہانت، فال، ستاروں سے استخارہ کی کوشش یہ سب کا سب باطل اور حرام ہے [استخاره، مشروعتيها فوائدها واحكامهاص 59/94]
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردور ہے“ [صحيح بخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب اذا اجتهد العامل 355/4]
اور فرمایا ”جس نے ہمارے کام (شریعت) میں نیا کام (ایجاد) کیا وہ مردور ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب الاقضينة، باب نقض الاحكام الباطله 1718]

صحیح بخاری اور امام بخاری رحمہ اللہ کا استخارہ

امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے قرآن مجید کے بعد دنیا میں سب سے صحیح ترین کتاب ”صحیح بخاری“ ہے جسے امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ امیر المحدثین نے تالیف کیا ہے۔ صحیح بخاری کے بے شمار امتیازات میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ امام صاحب ہر حدیث لکھنے سے پہلے اس کو فن تحقیق کے تمام اصولوں کے مطابق پرکھتے، غسل فرماتے، اللہ تعالىٰ سے استخارہ کرتے اور پھر نبى صلی اللہ علیہ وسلم کى قبر مبارک کے قریب بیٹھ کر عظیم کتاب میں درج فرماتے۔
مجھے استاد محترم فضیلتہ الشیخ حافظ ثناء اللہ مدنى حفظ اللہ کے وہ الفاظ یاد ہیں جو انہوں نے صحیح بخاری کا مقد مہ لکھواتے وقت ہمیں تحریر کروائے تھے کہ امام بخارى رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”میں جب اس تحقیق سے فارغ ہوتا کہ یہ حدیث فن کے اصولوں پر پورى اترتى ہے تو اللہ تعالىٰ سے استخارہ کرتا اور کہتے ہی: كنت اكتبه عند قبر النبى صلى الله عليه وسلم فى ليالى المقمرة ”کہ میں اس کو چاندنى راتوں میں نبى صلی اللہ علیہ وسلم کى قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر لکھا کرتا تھا۔“ (مقدمہ فتح الباری لا بن حجر) یہی وجہ ہے کہ پوری امت اس کتاب کو صحیح ترین مانتی ہے۔

کیا کسی سے استخارہ کروایا جا سکتا ہے؟

ہماے ہاں دوسروں سے استخارہ کروانے کا رواج عام ہے اس خطہ سرزمین میں اب تو ماشاء اللہ استخارہ کی فیس مقرر ہے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ حضرات کی فیس قدرے زیادہ ہے۔ لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے میرا فلاں کام ہو گا یانہیں۔ یہ کچھ دیر مراقبہ میں جا کر ارشاد فرماتے ہیں۔ ہاں ہو جائے گا یا نہیں ہو گا۔ یہ دین فروشی انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملہ میں استخارہ کر رہا ہے، کسی نہ کسی طرح سے اس کے ساتھ اس کا بھی واسطہ اور تعلق ہو، مثلا اگر کوئی والد اپنی بیٹی کی کہیں شادی کرنا چاہتا ہے تو اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ کرے یا نہ کرے کیونکہ یہ معاملہ اس سے متعلقہ ہے اگرچہ شادی کا تعلق اس کی بیٹی سے ہے۔
ہم نے اس مسئلہ میں کئی محقق علما سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہی بات بیان فرمائی کہ استخارہ فقط اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا فضیلۃ الاستاذ، حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔ (آمین)

تالیف: محمد اختر صدیق

استخارہ کا مطلب

کسی معاملہ میں خیر اور بھلائی طلب کرنے کو استخارہ کہتے ہیں۔

استخارہ کی اصطلاحی تعریف

ایسی دو رکعت نماز اور مخصوص دعا جس کے ذریعے، اللہ تعالیٰ سے کسی معاملہ کی بھلائی اور انجام کار کی بہتری کا سوال کیا جاتا ہے۔ یا پھر دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنے یا چھوڑ دینے میں اللھ تعالیٰ سے مدد طلب کی جاتی ہے۔

استخارہ کی فضیلت

استخارہ کی فصیلت کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے بندہ اپنے پروردگار سے کسی کام میں رہنمائی حاصل کرنے کا سوال کرتا ہے، اور اس کام میں بہتری اور انجام خیر کی استدعا کرتا ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنا، اور اس کے فیصلہ پہ راضی ہونا انسان کی خوش بختی جب کہ اللہ تعالی سے استخارہ نہ کرنا اور اس کے فیصلہ پہ راضی نہ ہونا انسان کی بدبختی کی علامت ہے“ ۔ [مسند احمد، 168/1]

استخارہ کی اہمیت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو استخارہ کی تلقین بھی کیا کرتے اور انہیں اس کی تعلیم بھی دیا کرتے تھے، اس کی کفیت، آداب، مسائل، فضائل اور الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلائے ہیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے جیسے قرآن مجید کی سورت مبارکہ سکھلایا کرتے تھے۔“ [صحيح بخاري مع الفتح، كتاب الدعوات حديث نمبر: 38/3، 6382]
اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے استخارہ کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے تشبیہ دی ہے۔ جس سے اس کی اہمیت کا انداز لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
استخارہ کے عظیم نفع اور غیر محدود فائدہ کے پیش نظر اس کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [تحفته الاحوذي، 506/2]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے، مخلوق سے مشورہ کرے اور اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے اسے کبھی بھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔“ [الكلم الطيب، ص71]
بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھتا ہے، اپنے ہر معاملہ میں اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی کا طلبگار رہتا ہے، ہر کام میں مالک حقیقی سے کامیابی و کامرانی کا سوال کرتا رہتا ہے، ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کے کام سنوار دیتے ہیں، اس کے رزق، عمر، مال و دولت اور اہل وعیال میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ جب اسے کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے تو وہ اپنے مخلص ایماندار بھائیوں سے مشورہ کرتا ہے۔ وہ بھی اسے پورے صدق و اخلاص کے ساتھ بہترین اور فائدہ مند مشورہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے رب سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے تو اس کے بگڑے کام بھی سنور جاتے ہیں اور اسے ہر طرح بھلائی ہی بھلائی نصیب ہوتی ہے۔

استخارہ کی حکمت

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ استخارہ کی سب سے بڑی حکمت انسان کا اپنے پروردگار سے ہر وقت مربوط رہنا اور ہر کام اور ہر حال میں اللہ جل شانہ سے بھلائی کا خواستگوار ہونا ہے۔
تاہم مزید وضاحت کے لیے استخارہ کی حکمت مندرجہ ذیل نکات میں بیان کی جا سکتی ہے۔

(1) اللہ تعالیٰ سے تعلق:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، اسے بے شمار ظاہری وباطنی نعمتوں سے نوازا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پروردگار عالم انسانوں کے خیر خواہ اور ان سے محبت رکھنے والے ہیں اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ لوگ ہر وقت اپنے مالک سے مربوط رہیں اور مختلف طریقوں سے اس کے ساتھ تعلق قائم رکھیں۔ استخارہ اس تعلق کی عملی تفسیر ہے۔

(2) توحید الوھیت کا اثبات:

استخارہ جہاں مسلمان کے لیے خیر اور بھلائی طلب کرنے کا ذریعہ ہے وہاں اس کے لیے توحید الوھیت کا درس بھی ہے۔ اس سے ہر مسلمان باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مصیبت ٹالنے، بھلائی اور بہتری پیدا کرنے کا اختیار صرف اور صرف اس مالک حقیقی کو ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اس کی حفاظت فرمائی اور اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا جب کہ مخلوقات میں سے کسی کو اتنی قوت اور ہمت حاصل نہیں ہے۔

(3) توکل:

استخارہ اللہ تعالیٰ پر توکل کا باعث ہے۔ مسلمان کو اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کو فائدہ پہنچانا چاہے تو اس بھلائی کو کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر وہ نقصان پہنچانا چاہے تو اسے کوئی بچانے والا نہیں ہے۔

(4) رسم جاہلیت کا خاتمہ:

زمانہ جاہلیت میں لوگ تیروں پر مندرجہ ذیل عبارت لکھ کر فال بازی کرتے کہ ”مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے“ یا پھر لکھتے کہ ”مجھے میرے رب نے منع کیا ہے“ اور مختلف کاموں میں اس رسم پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے فیصلے کیا کرتے تھے۔ اسلام کے آنے سے ایسی تمام رسمیں ختم ہو گئیں لیکن لوگوں کی ضرورت کے مدنظر ان کو استخارہ کی ترغیب دی گئی جس سے بڑی رسم کے بدلے دو رکعت نماز اور دعا کا خوبصورت عمل جاری ہوا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ:
جو آدمی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرے، اور مخلوق سے مشورہ کرے اور اپنے کام میں ثابت قدمی اختیار کرے، اسے کبھی بھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا“ ۔ [الكلم الطيب، ص 71]

(5) نفع کا حصول اور خرابی کو دور کرنا:

استخارہ کی حکمت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے لیے نفع کا حصول آسان اور ممکن ہو اور ان سے خرابی اور نقصان کو دور کیا جائے۔ یہ دین اسلام کا بنیادی مقصد اور کی روح بھی ہے۔

آداب استخارہ

(1) طہارت:

ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے۔ اپنے کپڑے بدن اور ماحول کو پاک و صاف رکھا جائے، گناہوں کی آلودگی سے دور رہنے کی کوشش کی جائے۔

(2) نیت:

استخارہ کرنے والا یہ بات ذہن نشین کر لے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے فائدہ ہے۔ نیت فقط دل سے ہو گی الفاظ ادا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

(3) کامل توجہ:

اسے یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنے پرودگار سے بھلائی اور خیر طلب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ استخارہ کرے۔

(4) ترک معاصی:

اگر وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے فوراً چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور پھر درپیش مسئلہ میں استخارہ کرے۔

(5) آداب دعا:

دعا کے عام آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعائے استخارہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود و سلام سے شروع کرے۔ یاد رہے کہ درود مسنون الفاظ وہی ہیں جو ہم نماز میں ادا کرتے ہیں، اسے درود ابراہیمی کہا جاتا ہے۔

(6) حلال روزی:

دعا کے آداب میں سے ایک اداب روزی کا حلال ہونا ہے۔ حرام روزی کے لقمے پیٹ میں اتارنے والے کی کوئی عبادت حتیٰ کہ نماز بھی قبول نہیں ہوتی استخارہ کہاں سے سود مند ہو گا۔

(7) یقین کامل:

وہ اس بات پر کامل یقین رکھے کہ استخارہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ ہی کریں گے، اور یہ کہ وہ کام اس کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی اور بہتری کا باعث ہو گا۔

(8) ایک ہدایت:

اسےچاہیےکہ وہ باوضو اور قبلہ رخ ہو کر لیٹ جائے بشرطیکہ اس نے استخارہ سونے سے قبل کیا ہو، ورنہ نیند کے ساتھ استخارہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

استخارہ کا حکم

بعض علما نےاستخارہ کو مستحب (شریعت کی نظر میں بہترین اور پسندیدہ عمل) اور بعض نے جائز کہا ہے البتہ استخارہ واجب نہیں ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپىیش ہو تو اسے چاہئے کہ وہ استخارہ کر لے۔“ [صحيح بخاري، كتاب التهجد باب ماجاء فى التطوع مثني مثني]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے یہی بات ثابت ہو رہی ہے۔ کہ استخارہ واجب نہیں ہے۔ بلکہ انسان کی مرضی پر منحصر ہےکہ وہ استخارہ کرے یا نہ کرے۔ مختلف دلائل سے یہی بات سامنے آتی ہےکہ استخارہ اللہ تعالیٰ سے بہترین تعلق کا سبب ہونے کی بنا پر مستحب ہے۔

استخارہ سے قبل

انسان کو چاہئے کے استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو پاک اور صاف کرے یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی طلب کرے اور پورے خلوص کے ساتھ پروردگار کی جانب میں اپنی گزارشات پیش کرے یقینًا اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کریں گے۔

استخارہ کا طریقہ

ہمارے ہاں استخارہ کے متعلق عجیب و غریب طریقے لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ جن کا ذکر بےفائدہ اور طوالت کا باعث ہے۔ البتہ سنت مطہرہ کا مطالعہ کرنے سے استخارہ کا مندرجہ ذیل طریقہ سامنے آتا ہے:
(1) جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو وہ فوراً استخارہ کی نیت (ذہن بنائے) کرے تاکہ وہ اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی طلب کر سکے۔
(2) نماز کی طرح مکمل وضو کرے۔
(3) فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے۔
(4) نماز سے فارغ ہونے کے بعد استخارہ کی مخصوص دعا پڑھے۔
دعا کے شروع میں الحمدللہ . . . . اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے۔

دعا کے الفاظ یہ ہیں:

اللهم إني أستخيرك بعلمك، واستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب . اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر (كام كا نام لے ) خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري یا یہ الفاظ کہے (عاجل امري وآجله) فاقدره لي، ويسره لي، ثم بارك لي فيه . وإن كنت تعلم أن هذا الأمر (کام کا نام لے ) شرلي فى ديني و معاشي و عاقبته امري یا یہ الفاظ کہے (عاجل امري واجله) فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم ارضني به [ صحيح بخاري مع الفتح، كتاب الدعوات حديث 6382: ابوداؤد، 568/1]
”اے اللہ ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے ہمت کا طلبگار ہوں۔ اور میں تیرے بہت زیادہ فضل سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو غیب کو خوب جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (کام کا نام لے) میرے دین میری معاش (دنیا) اور انجام کار کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے (یا یہ کہےکہ جلد یا بدیر) تو پھر تو اسے میرے مقدر میں کر دے، اور اسے میرے لیے آسان کر دے اور میرے لیے اس میں برکت پیدا فرما . اور اگر تو جانتا ہے یہ کام (کام کا نام لے) میرے دین میری معاش (دنیا) اور انجام کار کے اعتبار سے میرے لیے بُرا ہے یا یہ الفاظ کہے ” (جلد یا بدیر) تو اس کو مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے، اور میرے لیے بہتری اور بھلائی مقدر کر دے چاہے وہ جہاں بھی ہو۔ پھر مجھے اس سے خوش کر دے۔“
فائدہ 1: جہاں بریکٹ میں (کام کا نام لے) یہ الفاظ لکھے ہیں وہاں اپنی حاجت یا اپنے مسئلہ کا تذکرہ کرے یعنی درپیش مسئلہ کا نام لے۔
فائدہ 2: استخارہ کی دو رکعت میں فاتحہ کہ بعد کسی بھی سورۃ مبارکہ یا قرآن مجید کے کسی بھی حصہ کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔

استخارہ کی ضروت

اگر ہم غور کریں تو یہ انداذہ لگانا مشکل نہیں کہ استخارہ ایک مسلمان کے لیے ہر وقت ضرورت ہی ضرورت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرنا ہر وقت اور ہر حال میں ہر مسلمان کی ضرورت ہے تاہم چند نکات کی شکل میں اس عنوان کی وضاخت ملاحظہ فرمائیں۔

عمل بالدلیل

اسلام دین فطرت ہے، دیگر بےشمار امتیازات کے ساتھ ساتھ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے ماننے والے دلائل و براہین کی روشنی میں زندگی گزارتے ہیں، محض قیاس آرائی، ذاتی رائے، اور قصہ گوئی کا اسلام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
﴿قُلْ هَـذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ [12-يوسف: 108]
”کہہ دیجئے میرا رستہ تو یہ ہے میں اور میرے پیروکار اللہ تعالیٰ کی طرف پوری بصیرت (دلیل) کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا تھا:
”میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں تم اس وقت تک ہرگز گمراہ نہیں ہو گے جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ “ [موطاامام مالك، باب النهي التولي على القدر]
قرآن و حدیث میں بےشمار ایسے دلائل موجود ہیں جن میں دلیل کی بنا پر عمل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ استخارہ کرنے والا یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اس نے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں استخارہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے جو اس کے لیے اختیار کیا وہ اس کے مطابق فیصلہ کر رہا ہے گویا کہ اس کا عمل دلیل کی بنیاد پر ہے اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔

پریشانی سے نجات

بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ انسان مختلف وجوہات کی بنا پر کوئى فیصلہ کرنے کى ہمت نہیں رکھتا، وہ حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اس صورت حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے کہ انسان دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالٰی سے دعائے خیر کرے اور پریشان کن صورت حال سے چھٹکارہ حاصل کر لے۔
ہم یہ بات کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ استخارہ مسلمان کے لیے انتہائی تسلی اور اطمینان کا باعث ہے۔ جب انسان کو کچھ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے تب وہ اپنے پروردگار سے خصوصی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دست سوال دراذ کرتا ہے، اس سے خیر اور بھلائی طلب کرتا ہے اور اپنے لیے فائدہ مند کام اختیار کرنے کی استدعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کامیابی اور بہتری کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
﴿اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ [2-البقرة: 257]
اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست طاغوت ہیں وہ انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آ گ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

مستقبل میں رہنمائی

ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کام شروع کرے اس میں اس کو فائدہ ہی فائدہ ہو نقصان نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے شروع کردہ منصوبے یا اختیار کردہ کام کا انجام کیا ہونے والا ہے؟ کیونکہ غیب کی خبریں تو فقط پروردگار عالم کے پاس ہیں۔ تجارت، ملازمت، شادی، کاروبار وغیرہ کے متعلق لوگ بہت احتیاط اور فکرمندی سے کام لیتے ہیں۔ استخارہ کرنے سےمستقبل میں اگرچہ انسان غیب پر اطلاع تو نہیں پا سکتا مگر اتنا ضرور ہے کہ کسی کام کو شروع کرنے یا نہ کرنے میں اس کا دل اطمینان ضرور پکڑ لیتا ہے۔ اور یہ کام درحقیقت اس کے فائدہ کا باعث ہوتا ہے۔

اللہ تعالٰی سے تعلق

انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا محتاج ہے۔ وہ انسان کامیاب ہے جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق ہر وقت قائم رکھے۔ استخارہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ اور ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔

استخارہ کے فوائد

1 اصلاح عقیدہ:

استخارہ کے بے شمار فوائد میں سے سب سے اہم اور عظیم فائدہ انسان کے عقیدہ کی اصلاح ہے۔ استخارہ توحید الوھیت کا مظہر ہے۔ اس سے ہمیں عقیدہ کی اصلاح کا درس ملتا ہے کہ ہر حال میں فقط مالک حقیقی کے سامنے ہی جبین نیاز جھکائی جائے اور فقط اسی سے ہی مدد طلب کی جائے۔

2 اللہ تعالٰی کى محبت کا ذرىعہ:

استخارہ اللہ تعالیٰ کى محبت کا ذرىعہ ہے۔ جب انسان کو پرىشانى کے عالم میں کوئى جائے پناہ نہ مل رہى ہو تو پرورد گار عالم کى محبت ہى اسے عافىت جائے نظر آتى ہے۔ وہ اللہ تعالىٰ سےکسى ایسے مخرج کا سوال کرتا ہے جو اسے اس گھمبیر صورت حال سے نجات دے سکے۔ جب مالک کائنات کے خصوصى فضل وکرم سے روشن امید نظر آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں مزید گہری ہو جاتی ہے۔

3 عاجزی کا اظہار:

اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے جھکا رہے اپنی عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی قوت کا اظہار کرتا رہے . اسلامى معاشرے میں لاحول ولا قوة الا باالله کا کلمہ زبان زد خاص و عام ہوتا ہے جس کے معانى ہى یہ ہیں کہ ”کسى برائى سے بچنے کى طاقت اور کچھ کر سکنے کى قوت صرف اللہ تعالىٰ کى توفیق کے سایھ ہى ممکن ہے۔“ استخارہ اس امر کے اظہار کى بہترین شکل ہے۔ اس میں انسان اپنی عاجزی، کم علمی اور بے چارگى کا اظہار جبکہ اللہ تعالیٰ کی قوت طاقت اور توفیق کا اقرار کرتا ہے۔

4 اللہ تعالیٰ سے مدد کا سوال:

مسلمان ہر وقت اللہ تعالیٰ سے مدد اور توفیق کا سوال کرتا ہے۔ ہم ہر نماز کی رکعت میں اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ [ 1-الفاتحة: 4]
”ہم فقط تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔“ استخارہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

5 عبادت کا ذریعہ:

اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ [51-الذاريات: 56]
”میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اپنی عبادت کے لیے کیا ہے۔“ استخارہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا بہترین ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا قرب:

استخارہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ جب انسان کسی کام کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے اور اس سے اپنا تعلق قائم رکھتا ہے تو یقیناً یہ قرب الٰہی کا سبب ہے۔ جس کو قرب الٰہی نصیب ہو اس کے مقدر کے کیا کہنے۔

پریشانیوں سے نجات:

آپ استخارہ کی حکمت کے عنوان کے تحت پڑھ چکے ہیں کہ استخارہ انسان کو پریشانیوں سے نجت دلانے کا ذریعہ ہے۔

توکل:

استخارہ کا ایک فائدہ اللہ تعالیٰ پر توکل بھی ہے۔ استخارہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ تمام تر جائز وسائل استعمال کرتے ہوئے معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقداس پر چھوڑ دینا چاہیے، وہ انسان کے حق میں بہتر فیصلہ کرتا ہے۔

تدبیر پر عدم اعتماد:

استخارہ میں اس بات کا بھی درس ہے کہ مسلمان کا اعتماد تدبیر اور وسائل کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے۔ اسباب وسائل کو اختیار کرنا ضروری ہے مگر ان پر اعتماد اور توکل کرنا بے وقوفی ہے کیونکہ انجام کار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔

انسانی حقیقت کا ادارک:

استخارہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنی حقیقت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ اسے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے کہ انسان کی قدرت میں کوئی چیز نہیں بلکہ نفع ونقصان کا مالک فقط اللہ تعالیٰ ہے۔
بعض علما کے قول کے مطابق
جس انسان کو چار چیزیں مل چکی ہوں تو اس سے مزید چار چیزیں دور نہیں رہ سکتیں۔ ”جو شکر کی نعمت سے مالا مال ہے اس کو مزید (نعمت) ملنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جس کو توبہ کی دولت ملی ہے اسے شرف قبولیت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جسے استخارہ کی نعمت میسر ہے اس سے بھلائی کو کوئی دور نہیں کر سکتا۔ جسے بہترین لوگوں سے مشورہ کی عادت ہے اسے صحیح رستہ سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔“

اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سوال:

استخارہ کرنے والا اللہ تعالیٰ سے کسی کام کو اختیار کرنے اور پھر اس کام پر پروردگار سے راضی ہونے کا سوال کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مناسب کام کو اختیار کرنے کے اسباب بھی پیدا فرماتے ہیں اور پھر اس پر انسان کو راضی بھی رکھتے ہیں گویا کہ استخارہ کی مدد سے مسلمان دلی راحت محسوس کرتا ہے اور ذہنی اضطراب و بےچینی سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس بات پر مطمئن رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی پر عمل پیرا ہے۔ (احیاء علوم الدیں، 181/2)

استخارہ کا وقت

استخارہ کی نماز اور دعا کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں غالبا کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس میں استخارہ کا کوئی خاص وقت ذکر کیا گیا ہو۔ انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارہ کا اہتمام کر سکتا ہے۔ البتہ بعض علما کے نزدیک مکروہ اوقات میں استخارہ نہ کرنا بہتر ہے؟

کیا استخارہ کئی بار کیا جا سکتا ہے؟

اگر کوئی انسان کسی مسئلہ میں استخارہ کرتا ہے مگر اس کے لیے کوئی نتیجہ یا فیصلہ ظاہر نہیں ہوتا کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بار بار استخارہ کرے۔ ؟ بعض علما نے اس بات کی صراحت کی ہے اور فقہا کی ایک جماعت بھی اس بات کی قائل ہے کہ اگر کسی کے لیے استخارہ کے بعد کوئی نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے وہ تین بار استخارہ کرے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ استخارہ ایک دعا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير، باب مالقي النبى من اذي المشركين والمنافقين: 120/12]
اگر وہ پہلی دفعہ ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو دوسری بار استخارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ فقط اس وقت ہے جب اس کے لیے صورت حال واضح نہ ہو رہی ہو۔

کون سے امور میں استخارہ کرنا چاہیے؟

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت اسلامیہ پر جو احکام لاگو کیے ہیں ان کی پانچ قسمیں ہیں:
(1) ان میں سے ایک واجب ہے یعنی وہ امور جن پر عمل کرنا واجب ہے ایسے امور میں استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان کو بجا لانا انسان پر ویسے ہی لازم ہے۔
(2) ان میں سے ایک حرام ہے یعنی وہ امور جن سے رکنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، ان کا ارتکاب گناہ اور باعث عذاب ہے۔ ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں ہے کیونکہ ان امور سے دور رہنا ضروری ہے۔
(3) ان میں سے ایک مستحب ہے یعنی ایسے امور جن کا اہتمام شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہے ایسے امور میں بھی استخارہ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جس کام کے متعلق پہلے سے ہی شریعت اپنی پسند کا اظہار کر چکی ہو، اس میں اللہ تعالیٰ سے مشورہ طلب کرنے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔
(4) ان میں سے ایک مکروہ ہے یعنی وہ افعال جو شریعت میں ناپسندیدہ ہیں۔ ان کا ارتکاب شارع نے اچھا نہیں سمجھا ہے بلکہ ان پر اصرار اور تسلسل، حرام کے دائرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں ہے۔
(5) آخری قسم وہ ہے جس میں استخارہ جائز اور پسندیدہ ہے وہ ”مباح“ ہے یعنی جائز امور، جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اختیار دیا ہے۔
مثلا دو جائز امور میں سے ایک کو اختیار کرنا کہ آیا ان میں سے ایک اختیار کیا جائے یا نہیں یا پھر کس کو اختیار کیا جائے، ایسے کاموں میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے۔ یا پھر کسی ایک جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کرے کہ آیا یہ کام اس کے لیے فائدہ مند ہے کہ شروع کرے یا پھر بے فائدہ ہے کہ اس کو چھوڑ دے۔
یاد رہے کہ استخارہ ایسے واجب اور مستحب امور میں بھی ہو سکتا ہے جن کے لیے شریعت نے کھلا وقت رکھا ہے لیکن اس کام کو کرنے یا نہ کرنےمیں استخارہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ واجب یا مستحب ہے مگر اس کے لیے مناسب وقت اختیار کرنے میں ہو سکتا ہے کہ اسے آج شروع کرے یا کسی اور وقت میں شروع کرے مثلا حج ہر بالغ عاقل صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے میں استخارہ نہیں ہو گا بلکہ اس لیے کہ حج کا سفر کب شروع کیا جائے، کون سا زاد راہ اختیار کیا جائے اور کن لوگوں کے ساتھ سفر کیا جائے؟

شادی اور استخارہ

انسان کی زندگی میں شادی اہم ترین مرحلہ ہے۔ شریک حیات کا انتخاب انتہائی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی ہو، وہ ایک دوسرے کے طبعی میلان، عادات، پسند ناپسند کا خیال رکھیں تو ایسا گھر جنت نظیر ہوتا ہے اور اللہ نہ کرے اگر اس کے برعکس صورت حال ہو تو دنیا میں ہی عذاب سے واسطہ پڑ جاتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کی طرف سے شادیوں کے فیصلے میں زبر دست زیادتیاں اور غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ والدین عام طور پر رشتہ داروں میں یا لالچ کی خاطر شادیاں کرنے کے لیے غیر مناسب رشتوں کا انتخاب کرتے ہیں جس کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اولاد بھی حقائق کو ٹھکرا کر Love Marriage جیسی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہے جو وقتی اور جزباتی فیصلہ ہوتا ہے جس کا انجام کچھ ہی عرصہ کے بعد انتہائی بھیانک صورت حل میں سامنے آتا ہے۔ ان تمام مصائب سے بچنے کے لیے استخارہ ایک زبردست ہتھیار ہے جس میں ناکامی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ شادی کی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استخارہ کا ذکر عام طور پر کیا جس میں شادی بھی داخل ہے مگر اس کا خاص ذکر اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ شادی کے لیے خاص طور پر استخارہ کی روایت ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو بہترین طریقہ سے وضو کر پھر اللہ تعالیٰ نے جو تیرے مقدر میں لکھی ہے وہ نماز پڑھ پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف اوربزر گی بیان کر“ پھر یہ کہہ:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةِ تسميها باسمها . . . خَيْرَاً فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي فَاقْدُرْهَا لِي وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرٌ لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَآخِرَتِي فاقض لِي بها او قال فَاقْدُرْهَا لِي [مستدرك حاكم، كتاب صلوة التطوع باب الاستخاره فى خطبة النكاح: 314/1]
”اے اللہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے اور اگر تو فلاں عورت کے متعلق سمجھتا ہے (اس کا نام لے) کہ اگر وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین، دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بہتر ہےتو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا اس کو میرے مقدر میں کر دے۔ “
احادیث کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی کے متعلق اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر وہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہتری اور بھلائی کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس کے لیے نامناسب فیصلہ نہیں کرتے۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیےکسی رشتہ کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے ہیں کہ آیا وہ اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے بہتر فیصلہ ہی فرمائیں گے۔

کیا حیض اور نفاس والی عورتیں استخارہ کر سکتی ہیں؟

ایسی عورتیں جن کو ولادت یا کمزوری کے ایام کی وجہ سے شرعی مجبوری کا سامنا ہو تو وہ استخارہ کے لیے دو رکعت نماز تو نہیں پڑھ سکتیں البتہ استخارہ کی مسنون دعا پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی کا سوال کر سکتی ہیں کیونکہ حائضہ اور نفاس والی عورت کو نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے البتہ دعا ہر حال میں کی جا سکتی ہے۔

کیا استخارہ کے لیے دو رکعت پڑھنا ضروری ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فامایا:
”جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو اسے چاہیے کہ فرضی نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھے۔ پھر یہ کہے۔
اللهم اني استخيرك بعلمك. . . . . . . . . . . . . . . . . . [ صحيح ابن حبان، 123/2]
آپ کے مندرجہ بالا فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ استخارہ کے لیے خاص دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے جو کہ فرضی نمازوں کے علاوہ ہو۔

کیا دو رکعت سے زیادہ پڑھ سکتا ہے؟

گزشتہ موضوع کے تحت مذکور حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ فرضی نماز کے علاوہ استخارہ کی دو رکعت ادا کرے جبکہ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صل ما كتب الله لك کے الفاظ ہیں کہ: ”اللہ تعالیٰ نے جتنی نماز تیرے مقدر میں کی ہے پڑھ لے“ سے پتہ چلتا ہے کہ دو رکعت سے زیادہ پڑھی جا سکتی ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کم از کم دو رکعت ضروری ہیں اور اگر دو سے زائد بھی پڑھ لی جائیں تو کوئی نقصان یا حرج والی بات نہیں ہے۔ [نيل الاوطار، 89/3]

کیا استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری ہے؟

ہمارے ہاں اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ استخارہ کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارہ کے نتیجہ کا علم ہو سکے۔
یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی اور نہ ہی علمائے سلف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ استخارہ کے بعد خواب کا آنا ضروری ہے یا پھر نیند میں کسی کا بات کرنا یا کسی طریقہ سے رہنمائی ملنا ضروری ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی طریقہ سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل تسلی اور اطمینان کی شکل میں ہو۔ اگر استخارہ کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ کا نام لے کر اس کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔
معروف عالم دین جناب عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حدیث میں اس بات کی طرف تو کوئی اشارہ نہیں کہ انسان کو استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر کا ذریعہ ہے، اس کے لیے انہوں نے کئی خود ساختہ قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں اور اگر انہیں خواب نہ آئے تو وہ کسی اور آدمی سے استخارہ کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ [التعليقات السلفيه على سنن النسائي، 67/2]
مذکورہ بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استخارہ کے بعد خواب آنا ضروری نہیں ہے۔ بعض لوگ اسی غرض سے فقط سوتے وقت استخارہ کرتے ہیں تاکہ خواب میں کچھ نہ کچھ دیکھ سکیں، یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔ استخارہ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں نہ ہی تو اس کا وقت تعین کیا گیا ہے اور نہ ہی اس میں خواب کی شرط لگائی گی ہے۔

استخارہ کے بعد انسان کیا کرے؟

ہم بیان کر آئے ہیں کہ استخارہ سے قبل وہ اپنے ذہن کو تمام تر رجحانات اور پریشانیوں سے خالی کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد دست دعا بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت کا واسطہ دے کر اس سے بھلائی اور بہتری کا سوال کرے، اس کے بعد جو کچھ اس کے لیے ظاہر ہو، چاہے وہ کسی طریقہ سے ہو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے اور اس کا دل جس طرف مائل ہو جائے اسے اختیار کرنے کی سعی کرے۔
استخارہ سے پہلے مخلص ساتھیوں سے مشورہ کرے اور استخارہ کے بعد دلی رحجان پر عمل کرے، تردد کا شکار نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے اور پریشانی سے دامن چھڑا لے، مالک کائنات اس کے لیے بہتر فیصلہ ہی کریں گے۔

اگر ایک بار استخارہ سے نتیجہ ظاہر نہ ہو

اگر ایک بار استخارہ کرنے سے اس کے لیے کوئی نتیجہ یا دلی میلان ظاہر نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کم از کم تین بار استخارہ کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا تین بار کیا کرتے تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اس عمل سے ان شاء اللہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی رستہ ضرور واضح ہو جائے گا۔
بعض لوگ بے شمار دفعہ استخارہ کرتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ رات کو سوئیں تو ان کے ہاتھ میں کوئی ایسا پروانہ تھما دیا جائے جس پر ساری تفصیل حرفاً حرفاً لکھی ہو، تب جا کر استخارہ کا نتیجہ پورا ہو گا اور ان کی محنت کا پھل ان کے ہاتھ آئے گا۔ یہ خواہ مخواہ تشدد اور جہالت پر مبنی سوچ ہے۔ ہم نے عرض کر دیا کہ استخارہ کے بعد دلی میلان ہی استخارہ کا نتیجہ ہے لہذا اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس میلان پر ہی عمل کرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہونا

استخار کرنے والے کے لیے جو نتیجہ ظاہر ہو یا اس کا دلی میلان جس طرف ہو اس پر راضی ہونا اور اس کو خوش دلی کے ساتھ قبول کرنا ضروری ہے کیونکہ خیر اور بھلائی اسی میں ہے گویا کہ یہ ایسا کام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اسے چاہیے کہ اسے پوری رغبت اور رضا کے ساتھ قبول کرے اور مکمل اطمینان کے ساتھ اس پر عمل کرے، اس کو رد کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ غیبی امور کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اس کی عقل سے بڑھ کر ہے اور اللہ تعالی کی رہنمائی انسان کی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہے عین ممکن ہے جس چیز کو وہ بظاہراً برا سمجھ رہا ہے وہ حقیقت میں بہتر ہو اور جس کو وہ ظاہری طور پر اچھا سمجھ رہا ہے وہ درحقیقت اس کے لیے نقصان دہ ہو۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ کا فیصلہ انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ مومن بندے کے ہر کام سے تعجب کرتے ہیں (خوش ہوتے ہیں) اگر اسے بہترین اور بھلائی پہنچے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرے . (صرف اور صرف) مؤمن آدمی کے لیے ہی ممکن ہے“ [صحيح مسلم، كتاب الزهد والر قائق باب المومن امره كله خير: 100/18]
(اس حدیث کے ذکر کے بعد) وہ مزید کہتے ہیں:
انسان کی خوشی بختی یہی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے اختیار کیا ہے وہ اس پر راضی ہو جائے اور بدبختی یہ ہے کہ جو کچھ پروردگار نے بندے کے لیے اختیار کیا ہے وہ اسے ناپسند کرے اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے تقدیر پر راضی ہونے والوں کی تعریف کی ہے۔ مومن بندے کی نشانی ہے کہ وہ مصیبت پر صبر کرتا ہے اور خوشی کے وقت شکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے، ملاقات کے وقت سچ بولتا ہے اور دشمنوں کو بھی گالی نہیں دیتا یے۔“ [مدارج السالكين 210 ]
بعض علما نے کہا کہ استخارہ کے بعد ظاہر ہونے والے معاملہ کو اختیار نہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ [بهجته النفوس، 90/2]

غیر شری استخارہ

استخارہ کا شرعی اور مسنون طریقہ پہلے گزر چکا ہے مگر بعض لوگ استخارہ کے لیے غیر شری طریقے استعمال کرتے ہیں جن کی تفصیل درج کرتے ہوئے ڈاکڑ محمد طاہر حکیم صاحب لکھتے ہیں:

(1) تسبیح اور استخارہ:

بعض لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں جو بات آخری دانے کے مطابق ہو اس پر عمل کرتے ہیں شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

(2) قرآن کریم اور استخارہ:

بعض لوگ قرآن مجید کا کوئی بھی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں اور اس کے مفہوم کے مدنظر خود ساختہ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شری ہے۔

(3) تیر اور استخارہ:

بعض لوگ تیر پھینک کر دائیں اور بائیں سمت گرنے سے استخارہ کرتے ہیں یہ طریقہ قبل از اسلام رائج تھا جسے شریعت اسلامیہ نے باطل قرار دیا ہے۔
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ: اس کے علاوہ لوگوں کے ہاں استخارہ کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں جو زمانہ جاہلیت کے بعض امور سے مشابہہ ہیں جیسا کہ کہانت، فال، ستاروں سے استخارہ کی کوشش یہ سب کا سب باطل اور حرام ہے [استخاره، مشروعتيها فوائدها واحكامهاص 59/94]
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردور ہے“ [صحيح بخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب اذا اجتهد العامل 355/4]
اور فرمایا ”جس نے ہمارے کام (شریعت) میں نیا کام (ایجاد) کیا وہ مردور ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب الاقضينة، باب نقض الاحكام الباطله 1718]

صحیح بخاری اور امام بخاری رحمہ اللہ کا استخارہ

امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے قرآن مجید کے بعد دنیا میں سب سے صحیح ترین کتاب ”صحیح بخاری“ ہے جسے امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ امیر المحدثین نے تالیف کیا ہے۔ صحیح بخاری کے بے شمار امتیازات میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ امام صاحب ہر حدیث لکھنے سے پہلے اس کو فن تحقیق کے تمام اصولوں کے مطابق پرکھتے، غسل فرماتے، اللہ تعالىٰ سے استخارہ کرتے اور پھر نبى صلی اللہ علیہ وسلم کى قبر مبارک کے قریب بیٹھ کر عظیم کتاب میں درج فرماتے۔
مجھے استاد محترم فضیلتہ الشیخ حافظ ثناء اللہ مدنى حفظ اللہ کے وہ الفاظ یاد ہیں جو انہوں نے صحیح بخاری کا مقد مہ لکھواتے وقت ہمیں تحریر کروائے تھے کہ امام بخارى رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”میں جب اس تحقیق سے فارغ ہوتا کہ یہ حدیث فن کے اصولوں پر پورى اترتى ہے تو اللہ تعالىٰ سے استخارہ کرتا اور کہتے ہی: كنت اكتبه عند قبر النبى صلى الله عليه وسلم فى ليالى المقمرة ”کہ میں اس کو چاندنى راتوں میں نبى صلی اللہ علیہ وسلم کى قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر لکھا کرتا تھا۔“ (مقدمہ فتح الباری لا بن حجر) یہی وجہ ہے کہ پوری امت اس کتاب کو صحیح ترین مانتی ہے۔

کیا کسی سے استخارہ کروایا جا سکتا ہے؟

ہماے ہاں دوسروں سے استخارہ کروانے کا رواج عام ہے اس خطہ سرزمین میں اب تو ماشاء اللہ استخارہ کی فیس مقرر ہے سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ حضرات کی فیس قدرے زیادہ ہے۔ لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے میرا فلاں کام ہو گا یانہیں۔ یہ کچھ دیر مراقبہ میں جا کر ارشاد فرماتے ہیں۔ ہاں ہو جائے گا یا نہیں ہو گا۔ یہ دین فروشی انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملہ میں استخارہ کر رہا ہے، کسی نہ کسی طرح سے اس کے ساتھ اس کا بھی واسطہ اور تعلق ہو، مثلا اگر کوئی والد اپنی بیٹی کی کہیں شادی کرنا چاہتا ہے تو اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ کرے یا نہ کرے کیونکہ یہ معاملہ اس سے متعلقہ ہے اگرچہ شادی کا تعلق اس کی بیٹی سے ہے۔
ہم نے اس مسئلہ میں کئی محقق علما سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہی بات بیان فرمائی کہ استخارہ فقط اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے اپنے پروردگار سے خیر اور بھلائی طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا فضیلۃ الاستاذ، حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔ (آمین)

یہ تحریر اب تک 73 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply