اذانِ فجر میں الصّلاۃ خیر من النّوم کے الفاظ

سوال: کیا اذانِ فجر میں الصّلاۃ خیر من النّوم کے الفاط عہد ِنبوی میں موجود تھے؟

جواب:   سید نا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں :

[arabic-font]

من السّنّۃ اذا قال المؤ ذّن فی أذان الفجر حیّ علی الفلاح، قال: الصّلاۃ خیر من  النّوم۔ 

[/arabic-font]

” یہ سنت نبوی سے ثابت ہے کہ جب مؤذّن اذان فجر میں حیّ علی  الفلاح کے الفاظ کہے تو الصّلاۃ خیر من النّوم کے الفاظ کہے۔”

(سنن ادار قطنی : ۲۴۳/۱، ح، ۹۳۳، السنن الکبری للبیھقی : ۴۲۳/۱، وسندۂ صحیح”)

اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ ؒ ( ۳۸۶) اور امام الضیاء المقد سی ؒ ( ۲۵۸) نے” صحیح” کہا ہے، جبکہ امام بہیقی ؒ نے اس کی سند کو  ” صحیح” کہا ہے۔

 یاد رہے کہ جب کوئی صحابی کسی حدیث میں من السّنّۃ کے الفاظ کہے تو وہ حدیث بالاتفاق مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے، ثابت ہوا کہ عہد ِ نبو ی میں الصّلاۃ خیر من النّوم  کے الفاط اذانِ فجر میں کہے جاتے تھے۔

۔       یہ الفاط خود نبئ اکرم ﷺ نے سید نا ابو محذورہ ؓ کو سکھائے تھے۔ ( سنن ابی دا‍ؤد : ۵۰۱، سنن النسائی: ۶۳۴، وسندۂ حسن، والحدیث صحیح “)

اس حدیث کو امام بنِ خزیمہ ؒ ( ۳۸۵) نے ” صحیح” کہا ہے، حفظ حازمیؒ نے اسے امام ابو داؤد ، امام ترمذی اور امام نسائی کی شرط پر ” حسن ” قرار دیا ہے۔ (الاعتبار: ۶۹۔ ۷۰)

اس کا راوی عثمان بن السائب جمحی اور اس کا باپ السائب جمحی دونوں ” حسن الحدیث” ہیں ، امام ابنِ خزیمہ ، امام ابنِ حبانؒ نے ان کی تو ثیق کی ہے۔

تنبیہ : مؤ طا امام مالک میں یو ں روایت  ہے:

[arabic-font]

 أنّہ بلغہ أنّ المؤ ذّن  جاء الی عمر بن الخطّاب یؤ ذّنہ لصلاۃ الصّبح، فوجدہ نائما ، فقال : الصّلا ۃ خیر من النّوم ، فأمرہ عمر أن یجعلہ فی نداء الصّبح۔

[/arabic-font]

“(امام مالک فرماتے ہیں ) ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ مؤذّن سید نا عمر بن خطاب ؓ کو صبح کی نماز کی اطلاع دینے آیا ، اس نے آپ کو سو یا ہوا پایا تو  کہا، الصّلاۃ خیر من النّوم ( نماز نیند سے بہتر  ہے) ، اس کوعمر رضی اللہ عنہ نے حکم دے دیا کہ صبح کی اذان میں یہ کلمات پڑ ھا کرے۔” ( امؤ طا لامام ما مالک ؛ ۷۲/۱)

اس روایت کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ان الفاظ کا اذان میں اضافہ سید ناعمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت میں ہوا ہے ، لیکن ان کی بات قطعاًغلط ہے، کیونکہ اس روایت کی سند ” ضعیف” ہے، امام مالک ؒ تک یہ بات پہنچانے والا نامعلوم ہے، شر یعت نے ہمیں نامعلوم اور ” مجہول: لوگوں کی روایات کو قبول کرنے کا مکّف نہیں ٹھہرایا ۔ بلکہ جن سے اللہ کادین لیں ،ان کا اپنا  دین بھی ہمیں معلوم ہونا ضروری ہے ۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ سید ناعمر ؓ نے اس کو اچھا جانا اور مؤ ذّن سے کہا :

[arabic-font]

أقرّ ھا فی أذانک۔

[/arabic-font]

” تو ان الفاظ کو اپنی اذان مین بر قرار رکھ۔”

( مصنف ابن ابی شیۃ : ۲۰۸/۱)

اس کی سند اسماعیل نامی راوی کے ” مجہول” ہونے کی وجہ سے ” ضعیف” ہے، لہٰذا دونوں روایتیں مردود اور نا قابل حجت ہوئیں ۔

ثابت ہوا کہ اذانِ فجر میں الصّلا ۃ خیر من النّوم کے الفاظ سنت سے ثابت ہیں ، سید نا عمر ؓ دنے اپنے مؤ ذّن سےفرما یا تھا کہ جب وہ فجر کی اذان میں حیّ علی الفلاح پر پہنچے تو  الصّلا ۃ خیر من النّوم کہے۔ ( سنن ادار قطنی: ۲۵۰/۱، ح : ۹۳۵، وسندۂ حسن”)

یہ الفاظ آپ ؓ نے اپنی طرف سے اضافے کے لیے نہیں ، بلکہ سنت کی پیروی میں کہے تھے۔

آپ ؓ  کے بیٹے سید نا عبد اللہ بن عمر ؓ سے بھی یہ الفاظ اذان میں کہنا ثابت ہیں ۔” ( مصنف ابن ابی شیۃ : ۲۰۸/۱، وسندۂ صحیح”)

الحاصل:   الصّلا ۃ خیر من النّوم کے الفاظ اذانِ فجر میں عہد ِ نبوی سے شامل ہیں ، جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ الفاظ سیدنا عمر ؓ  نے اذان میں شامل کیے تھے ، انکی بات  بلادلیل ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔

یہ تحریر اب تک 16 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply