اتباع رسول پر کتاب و سنت اور سلف کی تعلیمات

تحریر : غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری

ہم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اللہ کا دین ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا :
انّي قد تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن يضلّوا ا أبدا : كتاب اللّه و سنّة نبيّه.
”یقیناً میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر تم ان کو تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔“ [المستدرك على الصحيحين الحاكم : 93/1، وسنده حسن]
↰ اس کا راوی عبداللہ بن اویس بن مالک جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث“ ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں :
وثقه الأكثرون، واحتجّوابه
”اکثر محدثین نے اسے ثقہ کہا ہے اور ان کی روایات سے حجت لی ہے۔“ [شرح صحيح مسلم : 197/1، تحت حديث : 2094]
↰ دوسرا راوی اسماعیل بن ابی اویس بھی جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہے۔

✿ فرمان باری تعالی ہے :
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ [4-النساء:80]
”جس شخص نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی۔“

◈ امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ (م 198ھ) فرمایا کرتے تھے :
إنّ رسول الله صلّى الله عليه و سلّم هو الميزان الأكبر، فعليه تعرض الأشياء على خلقه و سيرته و هد يه، فما وافقها فهو الحقّ و ما خالفها فهو الباطل
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی کسوٹی ہیں، لہٰذا آپ ہی کے اخلاق، سیرت اور طریقہ پر تمام اشیا پیش کی جاتی ہیں۔ جو ان کے موافق ہو، وہ حق اور جو ان کے مخالف ہو، وہ باطل ہیں۔“ [الجامع لاخلاق الراوي للخطيب : 8، وسنده صحيح]

✿ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [24-النور:51]
”جب مومنوں کو اللہ کی اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور پیروی کی۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔“

✿ نیز ارشاد ہے :
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [24-النور:63]
”جو لوگ ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے امر کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو ڈرنا چاہیے کہ ان کو کوئی عظیم فتنہ یا دردناک عذاب پہنچ جائے گا۔“

◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :
وقوله تعالي : ”فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ“، أى أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم، و هو سبيله و منهاجه و طريقته و شريعة، فتوزن الاقوال و الاعمال باقواله و أعماله، فما وافق ذلك قبل و ما خالفه فهو مردودعلي قائله و فاعله، كائنا من كان.
” فرمان باری تعالی : فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امر ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ، منہج، طریقہ اور آپ کی شریعت کا نام ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے ساتھ ہی (سب لوگوں کے) اقوال و افعال پرکھے جاتے ہیں۔ جو قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے موافق ہو، قبول کیا جائے گا اور جو ان کے خلاف ہو، اسے اس کے قائل و فاعل پر ردّ کر دیا جائے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔“ [تفسير ابن كثير : 578/5، بتحقيق عبدالرزاق المهدي]

✿ مزید فرمایا :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [4-النساء:65]
”(اے نبی!) تیرے رب کی قسم! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے، جب تک وہ آپ کو اپنے جھگڑوں میں فیصل و حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر وہ آپ کے فیصلے پر اپنے نفسوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے دل سے تسلیم کریں۔“

◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
هذه كافيه لمن عقل و حذروآمن بالله واليوم الآخر، و أيقن أن هذا العهد عهد ربه تعالي اليه و وصيته عزوجل الواردة عليه، فليفتش لإنسان نفسه، فان وجد فى نفسه مما قضاه رسول الله صلى الله عليه وسلم فى كل خبر يصححه مما قد بلغه، آو و جد نفسه غير مسلمه لما جاءه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم و وجد نفسه مائلة إلي قول فلان وفلان، أو إلي قياسه واستحسانه، أو وجه نفسه تحكم فيما نازعت فيه أحدا دون رسول الله صلى الله عليه و سلم من صاحب فمن دونه، فليعلم أن الله تعالي قد أقسم، و قوله الحق، إنه ليس مؤمنا، و صدق الله تعالٰي، و إذا لم يكن مؤمنا فهو كافر، ولا سبيل إلي قسم ثالث۔۔۔۔
”یہی آیت اس شخص کے لیے کافی ہے، جو عقل مند اور ہوشیار ہو، نیز اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ وعدہ اس کے رب نے اس سے لیا ہے اور یہ وصیت اس کی طرف سے اس پر لاگو ہے۔ انسان کو اپنے نفس کی تشخیص کرنی چاہئیے۔ اگر وہ صحیح حدیث میں موجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بارے میں اپنے نفس میں تنگی محسوس کرے یا اپنے نفس کو پائے کہ وہ اس چیز کو تسلیم ہی نہیں کرتا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس تک پہنچی ہے یا اپنے نفس کو فلاں اور فلاں کے قول یا اپنے ذاتی قیاس و استحسان کی طرف مائل ہونے والا پائے یا اپنے نفس کو پائے کہ اختلاف میں فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کسی صحابی یا بعد والے کی طرف لے کر جاتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے اور اس کا فرمان حق ہے کہ وہ مؤمن نہیں۔ اللہ نے سچ فرمایاہے، جب وہ مؤمن نہیں تو کافر ہی ہے، کسی تیسری قسم کی طرف تو کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔“ [الاحكام لابن حزم : 111/1]

✿ فرمان باری تعالٰی ہے :
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [4-النساء:59]
”پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو، یہی بہتر اور احسن کام ہے انجام کے اعتبار سے۔“

◈ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
و فى هذه الآيات أنواع من العبر الدالة على ضلال من تحاكم الي غير لكتاب و السنة و عليٰ نفاقه، وإن زعم أنه يريد التوفيق بين الأدلة الشرعية و بين ما يسميه هو عقليات، من لأمور المأخوذة عن بعض الطواغيت من المشركين و أهل الكتاب و غير ذلك من أنواع الاعتبار.
”ان آیات میں کئی قسم کی عبرتیں ہیں، جو اس شخص کی گمراہی اور اس کے نفاق پر دلیل ہیں، جس نے کتاب و سنت کے علاوہ سے اپنے مسئلے کو فیصلہ کروایا ہے، اگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ وہ شرعی دلائل اور اپنے تئیں عقلیات کے درمیان تطبیق چاہتا ہے۔ یہ وہ امور اور کئی دوسرے اعتبارات ہیں، جو بعض مشرک طاغوتوں اور اہل کتاب سے لیے گئے ہیں۔“ [درء تعارض العقل والنقل : 58/1]

◈ علامہ ابن ابی العزالحنفی رحمہ اللہ (م 792 ھ) لکھتے ہیں :
فالو جب كمال التسليم للرسول صلى الله عليه وسلم والانقياد لأمره، تلقي خبره بالقبول والتصديق، دون أن نعارضه بخيال بالطل نسميه معقولا أونحمله شبة أوشكا، أونقدم عليه آراء الرجل، وذبالة أذهانهم، فنوه بالتحكيم والتسليم والانقياد و الإذعان، كما نوحد المرسل بالعبادة و الخضوع والذل و الإنابة و التوكل، فهما توحيدان لا نجاة للعبد من عذاب الله الا بهما، توحيد المرسل وتوحيد متابعة الرسول . . .
”چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کمال تسلیم، آپ کے حکم کے لیے کمال فرمانبرداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو قبولیت و تصدیق کے ساتھ لینا واجب ہے، بغیر اس کے کہ ہم اس کے مقابلے میں کوئی خیال باطل لائیں، جسے ہم معقول کا نام دیتے ہوں یا ہم اس میں کوئی شبہ یا شک پیدا کریں یا اس پر، لوگوں کی آراء اور ان کے اذہان کے کوڑے کرکٹ کو مقدم کریں، لہٰذا ہم فیصلے، تسلیم، اطاعت اور فرمانبرداری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کے قائل ہیں، جیساکہ ہم عبادت، خشوع و خضوع، عاجزی، انابت اور توکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنےوالے (اللہ تعالیٰ ) کی توحید کے قائل ہیں۔ یہ دو قسم کی توحید ہے۔ اللہ تعالی کے عذاب سے بندے کی نجات اس دو قسم کی توحید کے بغیر ممکن نہیں، یعنی بھیجنے والے اللہ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کی توحید۔“ [شرح العقيدة الطحاوية : ص 160]

◈ نیز لکھتے ہیں :
ومن المحال أن لا يحصل الشفاء والهدي، والعلم و اليقين من كتاب الله وكلام رسوله، ويحصل من كلام هؤلاء المتحيرين، بل الواجب أن يجعل ما قاله الله و رسوله هوالأصل، ويتدبر معناه، ويعقله، ويعرف برهانه، ودليله العقلي و الخبري السمعي، و يعرف دلالته على هذاوهذا، ويجعل أقوال الناس التى توافقه وتخالفه متشابهة مجملة، فيقال لأصحابها : هذه الالفاظ تحتمل كذا و كذا، فإن أرادوا بها ما يوافق خبرالرسل قبل۔ وإن أرادوابها ما يخالفه رد .
”یہ ناممکن بات ہے کہ شفا، ہدایت اور علم و یقین اللہ و رسول کے کلام سے حاصل نہ ہو اور ان حیران و پریشان لوگوں کے کلام سے حاصل ہو جائے، بلکہ ضرروی ہے کہ اللہ و رسول کے فرمان کو اصل بنایا جائے، اس کے معنی میں غور و فکر کیا جائے، اسے سمجھا جائے، اس کی عقلی اور خبری و سمعی دلیل و برہان کو پہچانا جائے، اس اور اس کلام پر اس کی دلالت سمجھا جائے اورلوگوں کے وہ اقوال، جو اس کے موافق اور مخالف ہوں، ان کو متشابہ و مجمل قرار دے کر ان کے قائلین سے کہا جائے، یہ الفاظ اس اس بات کا احتمال رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے موافق مراد لی ہو تو قبول کر لیا جائے اور اگر ان کی مراد اس کے خلاف ہو تو اسے ردّ کر دیا جائے۔“ [شرح العقيدة الطحاوية : ص 1٦7]

✿ فرمان باری تعالی ہے :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ [24-النور:62]
”مؤمن تو وہ لوگ ہیں، جو اللہ و رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ اس (نبی) کے ساتھ کسی اجتماعی امر میں ہوتے ہیں تو اس وقت تک نہیں جاتے، جب تک اس سے اجازت نہ لے لیں۔“

◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فإذا جعل من لوازم الإيمان لا يذهبون مذهبا إذا كانو معه، إلا باستئذانه، فأول أن يكون من لوازمه أن لا يذهيوا إلي قول ولا مذهب علمي إلا بعد استئذانه، و إذنه يعرف بدلالة ما جاء به على أنه أذن فيه .
”جب یہ بات ایمان کے لوازمات میں سے کر دی گئی ہے کہ وہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کسی طرف نہیں جا سکتے۔ سب لوازم میں سے پہلا تو یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کےبغیر کسی قول اور علمی راستے کی طرف نہ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اجازت دی ہے۔“ [اعلام الموقعين عن رب العاليمن : 52-51/1]

✿ فرمان باری تعالی :
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ [45-الجاثية:18]
”پھر ہم نے آپ کو دین کے کھلے راستے پر قائم کر دیا، آپ اس کی پیروی کریں اور جاہل لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔“

◈ امام اوزاعی رحمہ اللہ (م 157ھ) نے مخلد بن حسین سے کہا :
يا أبا محمد إذا بلغك عن رسول الله صلى الله عليه و سلم حديث فلا تظنن غيره، ولا تقولن غيره، فإن محمد إنما كان مبلغا عن ربه.
”اے ابومحمد! جب تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث پہنچ جائے تو کسی دوسری بات کا نہ سوچ، نہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کہہ۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب کی طرف سے وحی پہنچائے جاتے تھے۔“ [الفقيه و المتفقه للخطيب : 149/1، وسنده حسن]

◈ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا :
أضللت الناس! قال : وما ذاك يا عرية ؟ قال : تأمر بالعمرة فى هؤلاء العشر، وليست فيهن عمرة، فقال : أولاتسال أمك عن ذلك ؟ فقال عروة : فإن أبا بكر و عمر لم يفعلا ذلك، فقال ابن عباس : هذا الذى أهلككم۔ والله۔ ما أري الاسيعذبكم، اني أحدثكم عن النبى صلى الله عليه و سلم و تجيئوني بأبي بكر و عمر، فقال : عروة : هماوالله! كانا أعلم بسننة رسول الله عليه وسلم، و أتبع لها منك.
”آپ نے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اے عروہ ! کیا بات ہے ؟ کہا، آپ ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجۃ) میں عمرہ کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ ان میں عمرہ نہیں ہوتا، آپ نے فرمایا، کیا آپ اپنی والدہ سے اس بارے میں سوال نہیں کر لیتے ؟ عروہ نے کہا، سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے یہ کام نہیں کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اللہ کی قسم! اسی چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا ہے، میرے خیال میں اللہ تم پر عذاب نازل کرے گا۔ میں تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما (کی بات) کو میرے پاس لاتے ہو ؟ عروہ نے کہا، اللہ کی قسم! وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زیادہ جاننے والےتھے اور اس کی پیروی آپ سے زیادہ کرنے والے تھے۔“ [الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي : 145/1، وسنده صحيح]

◈ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
قد كان أبو بكروعمرعلي ما وصفهما به عروة إلا أنه لا ينبغي أن يقلد أحد فى ترك ما ثبتت به سنة رسول الله صلى الله عليه و سلم.
”سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اسی طرح تھے، جیسا کہ عروہ نے بیان کیا ہے، مگر کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی اس چیز کو چھوڑنے میں ان کی بھی تقلید کرے، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے۔“

نوٹ :
یہ ثابت نہیں کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے ان دس دنوں میں عمرہ سے روکا ہو۔ ایک غیر واجب کام کا نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ اس آدمی کے نزدیک جائز نہیں، اگر شیخین ان دونوں میں عمرہ کو ناجائز بھی سمجھتے ہوں تو اسے مخالفت نہ کہیں گے، بلکہ اسے عدم علم پر محمول کریں گے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین حدیث پہنچ جانے کے بعد قطعاً مخالفت نہیں کرتے تھے۔

◈ امام عمر بن عبد الغزیزرحمہ اللہ نے لوگوں کی طرف خط لکھا :
لا ر أى لاحد مع سنة سنها رسول الله صلى الله عليه و سلم.
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی موجودگی میں کسی کی رائے متعبر نہیں۔“ [التاريخ الكبير لابن خيثمة : 9335، وسنده صحيح]

◈ امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتےہیں :
كلما جاء نا رجل أجدل من رجل أرادنا أن نردما جاء به جبريل إلي النبى صلى الله عليه و سلم.
”جب بھی ہمارے پاس کوئی جھگڑالو شخص آتا ہے، وہ ہم سے اس چیز کو ردّ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، جس کو جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلّم کی طرف لے کر آئے تھے۔“ [شرف اصحاب الحديث للخطيب : 1، وسنده صحيح]

◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كل شيء خالف أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم سقط، ولا يقوم معه ر أى ولا قياس، فإن الله تعالىٰ قطع لعذر بقول رسول الله صلى عليه و سلم، فليس لأحد معه أمرهوبه.
”ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کرتی ہے، وہ ساقط ہے، اس (حدیث رسول) کے مقابلےمیں کوئی رائے اور قیاس نہیں ٹھہر سکتا، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ساتھ عذر کو ختم کر دیا ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کے ساتھ کسی کے لیے کوئی امر، کوئی نہی قبول نہیں۔“ [كتاب الام للشافعي : 193/2]

◈ شیخ ا سلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و من المعلوم أنك لا تجد أحدا ممن يرد نصوص الكتاب و السنة بقوله إلا و هو يبغض ما خالف قوله و يود أن تلك الآية لم تكن نزكت و أن ذلك الحديث لم يرد، لو أمكنه كشط ذلك من المصحف لفعله.
”یہ پکی بات ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو نہیں پائیں گے، جو اپنے قول کے ساتھ کتاب و سنت کی نصوص کو رد کرتا ہے، مگر وہ اپنے قول کے خلاف آنے والی بات کو ناپسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی اور یہ حدیث وارد نہ ہوئی ہوتی۔ اگر اس کے بس میں ہو تو وہ اس آیت کو مصحف سے کھرچ ڈالتا۔“ [درء تعارض العقل والنقل : 217/5]

◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فمن عرض أقوال العلماء على النصوص ووزنها بها و خالف منها ما ماخالف النص، لم يهد ر أقوالهم و لم يهضم جانبهم، بل اقتدي بهم، فإنهم كلهم أمروا بذ لك، فمتبهم حقا من امتثل ما أوصوا به، لا من خالفهم و خلافهم فى القول الذى جاء النص بخلافه أسهل من مخالفتهم فى القاعدة الكلية التى أمروا و دعوا اليهامن تقديم النص على أقوالهم و من ههنا يتبين الفرق بين تقليد العالم فى كل ما قال و بين الاستعانة بفهمه و الاستضاءة نبورعلمه، فالأول يأخذ قوله من غير نظر فيه و لا طلب لدليله من الكتاب س السنة، بل يجعل ذلك كالحبل الذى يلقيه فى عنقة يقلده به، ولذلك سمي تقليدا بخلاف ما استعان بفهمه و استضاء بنور علمه فى الوصول إلي الرسول صلوات الله و سلامه عليه .
”تجس نے علمائے کرام کے اقوال کو نصوص پر پیش کیا اور نصوص کے ساتھ ان کا وزن کیا، جن کی نصوص نے مخالفت کی، ان کی اس نے بھی مخالفت کی تو اس شخص نے ان اقوال کو رائیگاں قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی شان میں کوئی کمی کی ہے، بلکہ اس نے تو ان علمائے کرام کی پیروی کی ہے، کیونکہ ان سب نے یہی حکم دیا تھا، لہٰذا ان کا حقیقی پیروکار وہ ہے، جو ان کی وصیت کی تعمیل کرتا ہے، نہ کہ وہ جو ان کی مخالفت کرے۔ ان علمائے کرام کی اس قول میں مخالفت کرنا، جو نصوص کے خلاف آیا ہو، اس سے بہتر ہےکہ نص کو ان کے اقوال پر مقدم کرنے والے قاعدہ کلیہ میں ان کی مخالفت کی جائے، جس کا انہوں نے حکم دیا ہے اور دعوت دی ہے، اسی بات سے کسی عالم کے ہر قول میں اس کی تقلید کرنے اور اس کے فہم سے مدد اور اس کے علم سے روشنی حاصل کرنے کے درمیان فرق ہو جاتا ہے۔ پہلی قسم کا شخص عالم کی بات کو بغیر تحقیق اور کتاب و سنت سے دلیل طلب کیے لے لیتا ہے، بلکہ اسے رسی کی طرح اپنے گلے میں ڈال لیتاہے اور اس کا پٹہ بنا لیتا ہے، اسی لیے اس کا نام تقلید رکھا گیا ہے، برخلاف اس شخص کے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کے لیے عالم کے لیے فہم سے مدد اور اس کے علم سے نور حاصل کرتا ہے۔“ [الروح الابن القيم : 264]

 

یہ تحریر اب تک 47 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply