آؤ عمل کریں !

تحریر: غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری

نماز سے متعلق مذید احکامات

عمل نمبر ۱:
سفر سے واپسی پر گھر جانے سے پہلے مسجد میں دو رکعتیں
انسان زندگی کے اس سفر میں کئی سفر کرتا ہے ، اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی یہ ہے کہ سفر سے واپسی پر مسجد میں جا کر دو رکعتیں نماز ادا کرنے کے بعد گھر کا رخ کرے ، یہ سنت مہجورہ ہے ، کتنے لوگ اس سے غافل ہیں ، اس پیاری سنت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ، جیسا کہ:
➊ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصليٰ فيه
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ، تو ابتداء مسجد کے ساتھ کرتے ، (یعنی سب سے پہلے مسجد جاتے) اس میں (دو رکعت) نماز ادا کرتے ۔ “
[صحيح بخاري: ۳۰۸۸ ، صحيح مسلم: ۷۱۶]
ایک روایت میں ہے:
ثم جلس فيه
”پھر اس میں بیٹھتے“ [مسلم: ۷۱۶]
حافظ نووی (۶۳۱ ۔ ۶۷۶ھ) ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
في هذه الأحا ديث استحباب الركعتين للقادم من سفر ه فى المسجد أول قدومه و هذه الصلوة مقصودة للقدوم من السفر ، تحية المسجد ، والأحا ديث المذكوره صريحة .
”ان احادیث میں سفر سے واپس لوٹنے والے کے لئے سب سے پہلے مسجد میں دو رکعتیں ادا کرنے کے استحباب کا ثبوت ہے ، یہ سفر سے لوٹنے والے کی نماز ہے ، نہ کہ تحیۃ المسجد ، احادیث مذکورہ اس پر صریح دلیل ہیں ۔ “ [شرح مسلم للنووي: ۲۴۸/۱]
امیر المؤمنین فی الحدیث فقیہ الأمت امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله نے اس حدیث پر باب الصلوة إذا قدم من سفر قائم کیا ہے ۔
➋ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
اشتريٰ مني رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلّم بعيرا ، فلماّ قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصليّ ركعتين
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا ، جب آپ مدینہ تشریف لائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسجد میں آنے کا حکم دیا کہ میں اس میں دو رکعتیں ادا کروں ۔ “
[صحيح بخاري: ۴۴۳ ، صحيح مسلم: ۷۱۵ ، واللفظ لهٗ]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أقبل من حجته ، دخل المدينة ، فأناخ على باب مسجده ، ثمّ دخله ، فركع فيه ركعتين ، ثمّ انصرف الي بيته
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج سے واپس ہوئے تو آپ نے مدینہ میں داخل ہو کر اپنی مسجد کے دروازے پر سواری کو بٹھا دیا ، پھر مسجد میں داخل ہو کر دو رکعتیں اد اکیں ، پھر اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے“
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگر د“ نافع ”بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر کا بھی یہی طریقِ کار تھا ۔
[مسند الامام احمد: ۱۲۹/۲ ، سنن ابي داؤد ”۲۷۸۲ و سنده صحيح]
فائدہ:
ابوصالح کہتے ہیں:
انّ عثمان كان إذا قدم من سفر ، صليّٰ ركعتين
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب سفر سے آتے تو دو رکعتیں ادا فرماتے“ [مصنف ابن ابي شيبه: ۸۲/۲]
وسنده حسن ان صح سماع أبى صالح عن عثمان ، وهو نفسه صدوق حسن الحديث ، قال الذهبي فيه؛ ثقه [ميزان الاعتدال: ۵۳۹/۴]
ایک دوسری روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے سفر سے واپسی پر مسجد میں بھی دو رکعتیں پڑھناثابت ہے ۔
[فضل الصلاة على النبيّ للامام اسماعيل بن اسحاق القاضي: ۹۹ ، وسنده صحيح]

——————
عمل نمبر ۲:
گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کی نماز
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اذا دخلت منزلك فصل ركعتين تمنعانك مدخل السوء ، واذا خرجت من منزلك فصل ركعتين تمنعانك مخرج السوء .
”جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو دو رکعتیں ادا کرو ، وہ تمہیں اندرونی برائی سے محفوظ رکھیں گی ، اسی طرح جب تم گھر سے نکلو تو دو رکعتیں ادا کرو ، وہ تمہیں بیرونی نقصان سے بچائیں گی ۔ “ [كشف الاستار: ۷۴۶ ، و سنده صحيح]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رجاله موثقون . [مجمع الزوائد: ۲۸۳/۲ ۔ ۲۸۴]
➋ موسیٰ بن ابی موسیٰ اشعری رحمہ الله کہتے ہیں:
انّ ابن عباس قدم من سفر فصليّٰ فى بيته ركعتين على طنفسة
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک سفر سے واپس آئے تو اپنے گھر میں چٹائی پر دو رکعتیں اداکیں ۔ “
[مصنف ابن أبى شيبه: ۸۲/۲ ، و سنده حسن]

——————
عمل نمبر ۳
شہر بن حو شب کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، آپ سے کام کی شکایت کی ، کہنے لگیں ، اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ، چکی پیسنے کی وجہ سے میرے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں ، آٹا پیستی ہوں ، پھر گوندھتی ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے مقدر میں کچھ لکھا ہے ، وہ آپ کو ضرور ملے گا ، میں آپ کو اس سے بہتر چیز کی راہنمائی کرتا ہوں کہ جب آپ سونے کے لئے بستر پر لیٹیں تو ۳۳ مرتبہ ”سبحان اللہ“ ، ۳۳ مرتبہ ”اللہ اکبر“ اور ۳۴ بار ”الحمدللہ“ کہو ، یہ پور اسو ہے ، جو کہ خادم سے کہیں زیادہ بہتر ہے ، نمازِ فجر اور نمازِ مغرب کے بعد دس دس مرتبہ یہ ذکر کریں:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ، يُحْيِيْ وَ يُمِيْتُ ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ ، وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءِ قَدِيْرٌ .
”اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ، وہ (ذات و صفات میں) اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہت ہے ، تعریف و ثناء بھی اسی کی ہے ، وہی زندہ کرتا ہے ، وہی مارتا ہے ، اسی کے ہاتھ خیر و بھلائی ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ “
ہر ایک کے بدلے میں دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی ، دس گناہ مٹا دیے جائیں گے ، اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ایک گردن آزاد كرنے كا اجرو ثواب ملے گا ، شر ك كے علاوه كوئي گناه گرفت نهيں كر سكے گا .
لا الٰه الا الله وحده لا شريك له .
یہ آپ کے لئے صبح سے شام تک ہر شیطان اور ہر برائی سے بچاؤ کا ہتھیار ہے .
[مسند الامام احمد: ۲۹۸/۶ ، المعجم الكبير للطبراني: ۳۳۹/۲۳ و سنده حسن]
حافظ هيثمي رحمه الله فرماتے هيں:
اسنادهما حسن . [احمد اور طبراني]
”دونوں کی سند حسن ہے ۔“ [مجمع الزوائد: ۱۰۸/۱ ، ۱۲۲]
اس حدیث کے راوی شہر بن حو شب کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ ، امام ابوزرعہ ، امام عجلی ، امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ابوحاتم رحمہ اللہ الرازی ، امام یعقو ب بن شیبہ ، امام یعقو ب بن سفیان الفسوی اور جمہور نے توثیق کی ہے ، نیز خطیب بغدادی [موضع الاوهام بين الجمع والتفريق: ۳۶۰/۱] اور محدث المؤمل بن احمد [فوائد المؤمل: ۴۶] نے اس کی حدیث کی سند کی تحسین کر کے توثیق کی ہے ۔ یہ حسن الحدیث ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے ترجمہ کے شروع میں (صح) لکھا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ذہبی کے نزدیک اس پر جرح مردو د ہے اور توثیق راجح ہے ، جیسا کہ حافظ ابن الملقن اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (صح) واصطلاحه أن العمل على توثيقه .

” (صح) ذہبی کی اصطلاح ہے کہ اس راوی کی توثیق ہی راجح ہے ۔ “
[البدر المنير لابن الملقن: ۶۰۸/۱ ، لسان الميزان لابن حجر: ۱۵۹/۲ ، ترجمه حارث بن محمد بن ابي اسامه]
اس بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الرجل غير مدفوع عن صدق و علم والاحتجاج به مترجح .
”اس راوی کا صدق و علم ثابت ہے ، اس کی حدیچ سے حجت پکڑنا ہی راجح ہے“ [سير أعلام النبلاء: ۳۷۸/۴]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں:
وحديثه حسن . ”اس کی حدیث حسن ہوتی ہے۔ “ [مجمع الزوائد: ۱۰۸/۱۰]
نیز کہتے ہیں:
والصحيح أنهما ثقتان ولا يقدح الكلام فيهما .
”صحیح بات یہ ہے کہ (عبدالحمید بن بہرام اور شہر بن حو شب) دونوں ثقہ ہیں ، ان میں جرحی کلام قابلِ قدح نہیں ۔ “ [مجمع الزوائد: ۲۲۲/۱]

——————
عمل نمبر ۴
صحابی رسول مسلم بن حارث التیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ نمازِ مغرب سے فارغ ہوں تو سات مرتبہ یہ دعا پڑھیں:
اَللّٰهُمَّ اَجِرْنِيْ مِنَ النَّارِ .
“ اے اللہ ! مجھے جہنم سے پناہ دے۔ “
اگر آپ نے یہ دعا پڑھ لی اور اسی رات فوت ہو گئے تو جہنم سے پناہ لکھ دی جائے گی ، جب آپ نمازِ فجر پڑھ لیں تو یہی دعا پڑھ لیں ، اگر اس دن فوت ہو گئے تو جہنم سے پناہ لکھ لی جائے گی ۔ ” [سنن ابي داؤد: ۵۰۷۹ وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [۲۳۴۶ ۔ الموارد] نے ”صحیح“ کہا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو ”حسن“ کہا ہے ۔ [نتائج الافكار: ۳۲۶/۲]
اس کے راوی حارث بن مسلم کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”مجہو“ ل ”کہا ہے ، جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کو ”ثقہ“ کہتے ہیں ۔ [مجمع الزوائد: ۹۹/۸]
اس پر جرح مفسر نہیں ہے ، اس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے ، لہٰذا یہ ”حسن الحدیث“ ہے ،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک اصول بیان کرتے ہیں:
وأما حالها فقد ذكرت فى الصحابة ، وان لم يكن يثبت لها صحبة ، فمثلها لا يسأل عن حالها .
”جہاں تک (رباح کی دا دی) کی عدالت کا تعلق ہے تو اس کو صحابہ میں ذکر کیا گیا ہے ، اگرچہ اس کاصحابیہ ہونا ثابت نہ بھی ہو گا ، تب بھی اس کیسی روایہ کی عدالت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ۔ “ [التلخيص الحبير: ۷۴/۱]
اس اصول کے مطابق حارث بن مسلم کی عدالت ثابت ہوتی ہے ، لہٰذا یہ ”حسن الحدیث“ ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔

This Post Has 2 Comments

  1. انعام الرحمان

    بھائی کیا اس تحریر کا حوالہ مل سکتا ہے آیا یہ حافظ صاحب کے کسی رسا لے میں مضمون چھپا ہے ؟

  2. عثمان احمد

    اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ ، مضمون ۔ السنہ ۔ شمارہ – 1 میں چھپ چکا ہے۔

Leave a Reply