وسیلہ اور اسلاف امت کا طریقہ کار

تحریر: حافظ ابو یحیٰی نورپوری

کسی نیک شخص کے وسیلے کی کئی صورتیں ہیں۔ بعض جائز ہیں اور بعض ناجائز۔ ان میں سے جس صورت کی تائید سلف صالحین سے ہوتی ہے، وہ ہی جائز اور مشروع ہو گی۔ آئیے صحابہ و تابعین کے دور میں چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ نیک لوگوں کے وسیلے کا کیا مفہوم سمجھتے تھے، نیز ان کا وسیلہ بالذات والاموات کے بارے میں کیا نظریہ تھا۔۔۔

دلیل نمبر ۱

صحابی رسول سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں بارش کے لیے ایک بہت ہی نیک تابعی یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا وسیلہ پکڑا تھا۔

ایک روایت کے الفاظ ہیں :

إن الناس قحطو ابد مشق، فخرج معاوية يستسقي بيزيد بن الأسود…

”دمشق میں لوگ قحط زدہ ہو گئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یزید بن الاسود رحمہ اللہ کے وسیلے سے بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔۔۔“ (تاريخ أبي زرعة الدمشقي:602/1، تاريخ دمشق:112،111/65، وسنده صحيح)

یہاں پر قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ بالکل وہی الفاظ ہیں، جو صحیح بخاری کی حدیث میں ہیں کہ اس میں استسقي بالعباس بن عبدالمطلب کے لفظ ہیں اور اس میں يستسقي بيزيد بن الأسود کے الفاظ ہیں۔

اب دیکھیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کو جو یزید بن الاسود رحمہ اللہ کا واسطہ دیا تھا، اس سے کیا مراد تھی ؟

ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
إن السماء قحطت، فخرج معاوية بن أبي سفيان و أهل دمشق يستسقون، فلما قعد معاوية على المنبر، قال : أين يزيد بن الأسود الجُرشي ؟ فناداه الناس، فأقبل يتخطى الناس، فأمره معاوية فصعد المنبر، فقعد عند رجليه، فقال معاوية : اللهم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا و أفضلنا، اللهم ! إنا نستشفع إليك اليوم بيزيد بن الأسود الجرشي، يا يزيد ! إرفع يديك إلى الله، فرفع يديه، ورفع الناس أيديهم، فما كان أوشك أن ثارت سحابة في الغرب، كأنها ترسٌ، وهبَّت لها ريحٌ، فسقتـنا حتى كاد الناس أن لا يبلغوا منازلهم.
”ایک دفعہ قحط پڑا۔ سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور دمشق کے لوگ بارش طلب کرنے کے لیے نکلے۔ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھ گئے تو فرمایا: یزید بن الاسود جرشی کہاں ہیں ؟ لوگوں نے ان کو آواز دی۔ وہ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا تو وہ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے قدموں کے پاس بیٹھ گئے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یوں دعا کی : اے اللہ ! ہم تیری طرف اپنے میں سے سب سے بہتر اور افضل شخص کی سفارش لے کر آئے ہیں، اے اللہ ! ہم تیرے پاس یزید بن الاسود جرشی کی سفارش لے کر آئے ہیں۔ (پھرفرمایا) یزید! اللہ تعالیٰ کی طرف ہاتھ اٹھائیے (اور دُعا فرمائیے) ، یزید نے ہاتھ اٹھائے، لوگوں نے بھی ہاتھ اٹھائے۔ جلد ہی افق کی مغربی جانب میں ایک ڈھال نما بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا، ہوا چلی اور بارش شروع ہو گئی، حتی کہ محسوس ہوا کہ لوگ اپنے گھروں تک بھی نہ پہنچ پائیں گے۔“

(المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان الفسوي:219/2، تاريخ دمشق:112/65، وسنده صحيح)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ (الإصابة في تميز الصحابة:697/6)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زندہ نیک لوگوں سے دعا کرا کے اس کا حوالہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے۔ یہی ان کا نیک لوگوں سے توسل لینے کا طریقہ تھا۔

دلیل نمبر ۲

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ صحابی رسول سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے بھی اسی نیک تابعی کی دعا کا وسیلہ پکڑا تھا، اس روایت کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمائیں :
إن الضحاك بن قيس خرج يستسقي، فقال ليزيد بن الأسود: قم يا بكاء!
”ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ بارش طلب کرنے کے لیے (کھلے میدان میں) نکلے تو یزید بن اسود رحمہ اللہ سے کہا: اے (اللہ کے سامنے) بہت زیادہ رونے والے! کھڑے ہو جائیے (اور بارش کے لیے دعا کیجیے) ۔“

(المعرفة والتاريخ:220/2، تاريخ أبي زرعة الدمشقي:602/1، تاريخ دمشق:220/65، وسنده صحيح)

قارئین کرام ہی بتائیں کہ کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کو وسیلے کے مفہوم کا زیادہ علم تھا یا بعد والے ادوار کے کسی شخص کو؟ پھر کسی ایک بھی صحابی یا تابعی یا ثقہ محدث سے ذات کے وسیلے کا جواز ثابت نہیں ہے۔
کیا اب بھی کوئی ذی شعور انسان صحیح بخاری والی حدیث میں مذکور وسیلے سے ذات کا وسیلہ مراد لے گا؟

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں :
فأما التوسل بذاته في حضوره أو مغيبه أو بعد موته، مثل: الإقسام بذاته أو بغيره من الأنبياء، أو السؤال بنفس ذواتهم لا بدعائهم، فليس هذا مشهوراً عند الصحابة والتابعين، بل عمر بن الخطاب ومعاوية بن أبي سفيان ومن بحضرتهما من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والتابعين لهم بإحسان، لما أجدبوا استسقوا، وتوسلوا واستشفعوا بمن كان حياً كـالعباس وكـيزيد بن الأسود، ولم يتوسلوا ولم يستشفعوا ولم يستسقوا في هذه الحال بالنبي صلى الله عليه وسلم لا عند قبره ولا غير قبره، بل عدلوا إلى البدل كـالعباس وكـيزيد، بل كانوا يصلون عليه في دعائهم، وقد قال عمر : اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا؛ فجعلوا هذا بدلاً عن ذاك لما تعذر أن يتوسلوا به على الوجه المشروع الذي كانوا يفعلونه.وقد كان من الممكن أن يأتوا إلى قبره فيتوسلوا به ويقولوا في دعائهم في الصحراء بالجاه ونحو ذلك من الألفاظ التي تتضمن القسم بمخلوق على الله عز وجل، أو السؤال به، فيقولون: نسألك أو نقسم عليك بنبيك، أو بجاه نبيك.. ونحو ذلك مما يفعله بعض الناس
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی، غیر موجودگی میں یا وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا، اللہ تعالیٰ کو آپ کی ذات یا دیگر انبیائے کرام کی ذات کی قسم دینا یا انبیائے کرام ہی کو پکار کر ان سے حاجت طلبی کرنا، سب کاموں کا حکم ایک ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہاں یہ کام معروف نہ تھا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا معاویہ بن ابوسفیان، ان کے ساتھ موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے تابعین جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو وہ زندہ نیک لوگوں، مثلاً سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور یزید بن اسود رحمہ اللہ، سے دعا کراتے اور اس دعا کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے تھے۔ انہوں نے ایسی صورت حال میں کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کر کے بارش طلب نہیں کی، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس نہ کسی اور کی قبر کے پاس، بلکہ یہ لوگ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور یزید بن اسود رحمہ اللہ کی طرف چلے گئے۔ وہ دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دینے کی بجائے آپ پر درود و سلام پڑھتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اے اللہ ! پہلے ہم تیرے نبی کو تیرے دربار میں وسیلہ بناتے تھے اور تو ہمیں بارش عنایت فرماتا تھا، اب ہم تیرے پاس اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، لہٰذا ہمیں بارش عطا فرما۔ یعنی صحابہ کرام نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اختیار کیے جانے والے طریقے کو اختیار کرنا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرانا) ممکن نہ سمجھا تو اس کے بدلے میں اس طریقے (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعا) کو اختیار کر لیا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر۔ آتے اور آپ کی ذات کا وسیلہ اختیار کرتے یا کھلے میدان میں جا کر اپنی دعا میں آپ کا وسیلہ ان الفاظ میں پیش کرتے جن سے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دینا یا مخلوق کے واسطے سے سوال کرنا لازم آتا۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ اے اللہ ! ہم تجھ سے تیرے نبی کے مقام و مرتبہ کے طفیل سوال کرتے ہیں یا تجھے تیرے نبی کی قسم دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں (لیکن صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا)۔“ (مجموع الفتاوي:318/1)

قابل غور بات تو یہ ہے کہ سلف صالحین راہِ اعتدال پر تھے، سنت کے متبع تھے۔ کسی زندہ یا فوت شدہ شخص کی ذات کے وسیلے کا ان کی زندگیوں میں ثبوت نہیں ملتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) لکھتے ہیں :
ثم سلف الأمة، وأئمتها، وعلماؤها إلى هذا التاريخ، سلكوا سبيل الصحابة في التوسل في الاستسقاء بالأحياء الصالحين الحاضرين، ولم يذكر عن أحد منهم في ذلك التوسل بالأموات، لا من الرسل، ولا من الأنبياء، ولا من الصالحين. فمن ادعى أنه علم هذه التسوية التي جهلها علماء الإسلام، وسلف الأمة، وخيار الأمم، وكفّر من أنكرها، وضلله: فالله تعالى هو الذي يجازيه على ما قاله وفعله
”پھر امت کے اسلاف و ائمہ اور آج تک کے علمائے کرام بارش طلب کرنے کے حوالے سے نیک زندہ لوگوں کا وسیلہ لینے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے فوت شدگان کا وسیلہ پیش کیا ہو، انہوں نے نہ رسولوں کا وسیلہ پکڑا، نہ انبیاء کا اور نہ عام نیک لوگوں کا۔ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ زندہ اور فوت شدہ دونوں کا وسیلہ برابر ہے، حالانکہ علمائے اسلام، اسلاف امت اور امت کے بہترین لوگوں اس برابری کے قائل نہ تھے، پھر وہ اس بدعی وسیلے سے بیزار ہونے والوں کو کافر اور گمراہ قرار دے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے قول و فعل پر اس سے نمٹ لے۔“ (الرد علي البكري لابن تيمية،ص:127،126)

سلف صالحین کی پیروی ہی اہل سنت کا شعار ہے۔

دلیل نمبر ۳

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنهم لما فتحوا تستر، قال : فوجد رجلا أنفه ذراع في التابوت، كانوا يستظهرون ويستبطرون به، فكتب أبو موسى إلى عمر بن الخطاب بذلك، فكتب عمر : إن هذا نبي من الانبياء والنار لا تأكل الانبياء، والارض لا تأكل الانبياء، فكتب أن أنظر أنت وأصحابك – يعني أصحاب أبي موسى – فادفنوه في مكان لا يعلمه أحد غيركما، قال : فذهبت أنا وأبو موسى فدفناه.
”جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ اس کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا: تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابو موسیٰ گئے اور اسے (ایک گمنام جگہ میں ) دفن کر دیا۔“ (مصنف ابن أبي شيبه:4/7، الرقم:33819، وسنده صحيح)

یعنی سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیائے کرام کے جسم یا ان کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ عجمی علاقوں کے کفار اس توسل کے قائل تھے، ان کے اس فعل شنیع کو ختم کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس نبی کے جسم کو کسی گمنام جگہ میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔

دلیل نمبر ۴

ابوالعالیہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
لما افتحنا تستر وجدنا في بيت مال الهرمزان سريرا، عليه رجل ميت، عند رأسه مصحف له، فأخذنا المصحف، فحملناه إلى عمر بن الخطاب، فدعا له كعبا، فنسخه بالعربية، أنا أول رجل من العرب قراه، قرأته مثل ما أقرأ القرآن ھذا، فقلت لأبي العالية : ما كان فيه؟ قال: سيرتكم، وأموركم، ودينكم،ولحون كلامكم، وما هو كائن بعد، قلت: فما صنعتم بالرجل ؟ قال: حفرنا بالنهار ثلاثة عشر قبراً متفرقة، فلما كان في الليل، دفناه وسوينا القبور كلها، لنعميه علي الناس لا ينبشونه، فقلت : وما يرجون منه ؟ قال: كانت السماء إذا حبست عليهم برزوا بسرير، فيمطرون۔ قلت: من كنتم تظنون الرجل؟قال: رجل يقال له : دانيال، فقلت: مذ كم وجدتموه مات؟ قال: منذ ثلاثمائة سنة، قلت: ما كان تغير شيء ؟ قال: لا، إلا شعرات من قفاه أن لحوم الأنبياء لا تبليها الأرض، ولا تأكلها السباع.
”ہم نے جب تستر کو فتح کیا تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی۔ اس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔ اس کے سر کے پاس ایک کتاب تھی۔ ہم نے وہ کتاب پکڑی اور اسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔ میں عربوں میں سے وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کتاب کو پڑھا۔ میں اس کو یوں پڑھ رہا تھا، گویا قرآن کریم کو پڑھ رہا ہوں۔ ابوالعالیہ کے شاگرد کہتے ہیں : میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا: اس میں امت محمدیہ کی سیرت، معاملات، دین، تمہارے لہجے اور بعد والے حالات۔ میں نے عرض کیا: آپ نے اس فوت شدہ شخص کا کیا کیا؟ انہوں نے فرمایا: ہم نے دن کے وقت مختلف جگہوں پر تیرہ قبریں کھو دیں۔ پھر رات کے وقت ان میں سے ایک میں اسے دفن کر دیا اور سب قبریں زمین کے برابر کر دیں۔ اس طرح کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو صحیح قبر کا علم نہ ہو اور وہ قبر کشائی نہ کر سکیں۔ میں نے عرض کیا: وہ لوگ اس فوت شدہ شخص سے کیا امید رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ان کا خیال یہ تھا کہ جب وہ قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کی چارپائی کو باہر نکالنے سے ان کو بارش عطا کی جاتی ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال میں وہ شخص کون تھا؟ انہوں نے کہا: جسے دانیال کہا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے خیال کے مطابق وہ کتنے عرصے سے فوت ہو چکا تھا؟ انہوں نے فرمایا: تین سو سال سے۔ میں نے کہا: کیا اس کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی ؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، بس گدی سے چند بال گرے تھے، کیونکہ انبیائے کرام کے جسم میں نہ زمین تصرف کرتی ہے نہ درندے اسے کھاتے ہیں“۔ (السيرة لابن إسحاق، ص:67،66، طبع دارالفكر، بيروت، دلائل النبوة للبيھقي:382،381/1، طبع دار الكتب العلمية، بيروت)

ان دونوں آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام، انبیائے کرام کے جسموں اور ان کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بڑے اہتمام سے اس دانیال نبی علیہ السلام کے جسم مبارک کو چھپا دیا تاکہ نہ لوگوں کو ان کی قبر کا علم ہو، نہ وہ ان سے توسل کر سکیں۔

بعض لوگ خیانت علمی سے کام لیتے ہوئے ان روایات کے آدھے ٹکڑے سامعین کے سامنے رکھتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ انبیائے کرام کے اجسام اور ان کی قبروں سے توسل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ اگلے ٹکڑے ڈکار جاتے ہیں جن میں وضاحت ہے کہ یہ کام عجمی کفار کا تھا اور صحابہ کرام نے ان کے اس کام کو جائز نہیں سمجھا، نہ انہیں اس کام کی اجازت دی، بلکہ اس کے سدباب کے لیے انتہائی اقدامات کیے۔

یہ حرکت بدترین خیانت ہے۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے نام نہاد سکالرز کو مہلت دی ہوئی ہے، لیکن ایسے لوگ روز قیامت عذاب الٰہی سے نہیں بچ پائیں گے۔ اب بھی موقع ہے، انہیں حشر اور حساب سے ضرور جانا چاہیے۔

اسی بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولهذا كان السلف يسدون هذا الباب ؛ فإن المسلمين لما فتحوا تستر، وجدوا هناك سرير ميت باق، ذكروا أنه ”دانيال“، ووجدوا عنده كتابا فيه ذكر الحوادث، وكان أهل تلك الناحية يستسقون به، فكتب في ذلك أبو موسى الأشعري إلى عمر، فكتب إليه أن يحفر بالنهار ثلاثة عشر قبراً، ثم يدفن بالليل في واحد منها، ويعفى قبره، لئلا يفتتن الناس به.
”سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اس دروازے (انبیاء و صالحین کے توسل) کو بند کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے تستر کے علاقے کو فتح کیا تو وہاں ایک فوت شدہ سلامت شخص کو دیکھا۔ انہوں نے اسے دانیال نبی قرار دیا۔ اس کے قریب ایک کتاب بھی تھی جس میں واقعات کا ذکر تھا۔ اس علاقے کے لوگ اس کے توسل سے بارش طلب کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تو انہوں نے جواباً فرمایا کہ دن کو تیرہ قبریں کھودی جائیں، پھر رات کے اندھیرے میں ان میں سے ایک میں دانیال علیہ السلام کو دفن کر دیا جائے۔ پھر قبر کا نشان مٹا دیا جائے تاکہ لوگ شرک میں مبتلا نہ ہوں۔“ (مجموع الفتاوي:170/27)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
ففي ھذه القصة ما فعله المھاجرون والأنصار، من تعمية قبره، لئلا يفتتن به الناس، وھو إنكار منھم لذلك.
”اس واقعے میں مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دانیال علیہ السلام کی قبر کو چھپایا ہے تاکہ لوگ اس کی وجہ سے شرک و بدعت میں مبتلا نہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام انبیاء و صلحاء کی قبروں سے توسل کو ناجائز سمجھتے تھے۔“

معلوم ہوا کہ صحیح احادیث اور اسلاف امت سے وسیلہ بالذات والاموات ثابت نہیں۔

یہ تحریر اب تک 11 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply