اقسام علی اللہ اور توسل

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

عالم عرب کے مشہور عالم، محمد بن صالح عثمین رحمہ اللہ (۱۳۴۷۔۱۴۲۱ھ) فرماتے ہیں :
والإقسام على الله: أن تحلف على الله أن يفعل، أو تحلف عليه أن لا يفعل، مثل: والله; ليفعلن الله كذا، أو والله; لا يفعل الله كذا. والقسم على الله ينقسم إلى أقسام: الأول: أن يقسم بما أخبر الله به ورسوله من نفي أو إثبات; فهذا لا بأس به، وهذا دليل على يقينه بما أخبر الله به ورسوله، مثل: والله; ليشفعن الله نبيه في الخلق يوم القيامة، ومثل: والله! لا يغفر الله لمن أشرك به، الثاني: أن يقسم على ربه لقوة رجائه وحسن الظن بربه، فهذا جائز لإقرار النبي صلى الله عليه وسلم ذلك في قصة الربيع بنت النضر عمة أنس بن مالك رضي الله عنهما، حينما كسرت ثنية جارية من الأنصار، فاحتكموا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بالقصاص، فعرضوا عليهم الصلح، فأبوا، فقام أنس بن النضر، فقال: أتكسر ثنية الربيع؟ والله ! يا رسول الله، لا تكسر ثنية الربيع، وهو لا يريد به رد الحكم الشرعي، فقال الرسول صلى الله عليه وسلم يا أنس! كتاب الله القصاص يعني: السن بالسن. قال: والله ! لا تكسر ثنية الربيع، وغرضه بذلك أنه لقوة ما عنده من التصميم على أن لا تكسر، ولو بذل كل غال ورخيص، أقسم على ذلك، فلما عرفوا أنه مصمم ألقى الله في قلوب الأنصار العفو، فعفوا; فقال النبي صلى الله عليه وسلم : إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره، فهو لقوة رجائه بالله وحسن ظنه أقسم على الله أن لا تكسر ثنية الربيع، فألقى الله العفو في قلوب هؤلاء الذين صمموا أمام الرسول صلى الله عليه وسلم على القصاص، فعفوا وأخذوا الأرش، فثناء الرسول صلى الله عليه وسلم عليه شهادة بأن الرجل من عباد الله، وأن الله أبر قسمه ولين له هذه القلوب، وكيف لا وهو الذي قال: بأنه يجد ريح الجنة دون أحد، ولما استشهد وجد به بضع وثمانون ما بين ضربة بسيف أو طعنة برمح، ولم يعرفه إلا أخته ببنانه، وهي الربيع هذه، رضي الله عن الجميع وعنا معهم. ويدل أيضا لهذا القسم قوله صلى الله عليه وسلم: رب أشعث مدفوع بالأبواب، لو أقسم على الله لأبره .القسم الثالث: أن يكون الحامل له هو الإعجاب بالنفس، وتحجر فضل الله عز وجل، وسوء الظن به تعالى، فهذا محرم، وهو وشيك بأن يحبط الله عمل هذا المقسم.

’’اقسام علی اللہ کا معنی یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بارے میں قسم اٹھائیں کہ وہ یہ کام کرے گا یا نہیں کرے گا، مثلاً اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ ضرور ایسا کرے گا، یا اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں قسم کی کئی قسمیں ہیں۔

(1) پہلی قسم یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی کسی خبر پر قسم اٹھائے جو نفی یا اثبات پر مبنی ہو۔ اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔ اس سے تو معلوم ہو گا کہ اس شخص کو اللہ اور اس کے رسول کی بیان کردہ خبر پر پورا یقین ہے، مثلاً اللہ کی قسم، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ضرور مخلوق کے بارے میں اپنے نبی کی سفارش قبول کرے گا اور مثلاً اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کو معاف نہیں فرمائے گا۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ انسان مضبوط امید اور اپنے رب پر حسن ظن کی بنا پر قسم اٹھائے تو یہ بھی جائز ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں اس قسم پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ ہوا یوں کہ ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے ایک انصاری لڑکی کا دانت توڑ دیا تھا۔ انصار اس کے فیصلے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص، یعنی دانت کے بدلے میں دانت توڑنے کا حکم صادر فرمایا۔ ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا کے گھر والوں نے دیت کی پیش کش کی لیکن انصار نے اسے مسترد کر دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم، ربیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا مقصد قصاص کے شرعی حکم کو ٹھکرانا ہرگز نہیں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس ! (انصار کے دیت پر راضی نہ ہونے کی بنا پر) اللہ تعالیٰ کی طرف سے قصاص فرض ہو گیا ہے۔ اس پر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم، ربیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ (صحيح البخاري:2703)

مراد یہ تھی کہ ان کا پختہ عزم ہے کہ وہ ربیع کا دانت نہیں ٹوٹنے دیں گے، خواہ اس کے لیے کتنی بھی دولت (بطور دیت) صرف کرنا پڑے۔ اسی بنا پر انہوں نے قسم اٹھا لی۔ جب انصار کو معلوم ہو گیا کہ ان کا ارادہ بہت پختہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں معافی ڈال دی اور انہوں نے معاف کر دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور پورا کر دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ پر اپنی مضبوط امید اور حسن ظن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھائی کہ ربیع کا دانت نہیں ٹوٹے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں کے دل میں درگزر ڈال دی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قصاص لینے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے معاف کر دیا اور دیت قبول کر لی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی تعریف، اس بات کی گواہی تھی کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ اللہ کے مقرب بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کو پورا کرتے ہوئے ان کے لیے انصار کے دلوں کو نرم فرما دیا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ یہ وہی شخص تھے جنہوں نے فرمایا تھا کہ انہیں احد کے پار سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔ اور جب وہ شہید ہوئے تو ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے اسی سے زائد زخم تھے۔ ان کو کوئی پہچان نہ پایا اور صرف ان کی اسی بہن ربیع نے انہیں پہچانا۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے اور ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جائے۔ اس قسم کے جائز ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے کہ کتنے ہی پراگندہ اور دروازوں سے دھکے مار کر دور کیے جانے والے لوگ ہیں جو اللہ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم: 2662)

(3) اقسام علی اللہ کی تیسری صورت یہ ہے کہ آدمی کو تکبر، اللہ تعالیٰ کے فضل کو محدود کرنے کی خواہش اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدظنی ایسی قسم اٹھانے پر آمادہ کرے۔ یہ قسم حرام ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والے کے اعمال کو غارت کر دے۔۔۔ (القول المفيد علي كتاب التوحيد،ص:562۔653)

علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (۷۳۱۔۷۹۲ ھ) اقسام علی اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وأما الاستشفاع بالنبي صلى الله عليه وسلم وغيره في الدنيا إلى الله تعالى في الدعاء فيه تفصيل، فإن الداعي تارة يقول بحق نبيك أو بحق فلان، يقسم على الله بأحد من مخلوقاته، فهذا محذور من وجهين، أحدهما: أنه أقسم بغير الله. والثاني: اعتقاده أن لأحد على الله حقاً، ولا يجوز الحلف بغير الله، وليس لأحد على الله حق إلا ما أحقه على نفسه، كقوله تعالى ﴿وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (سورة الروم:47)
وكذلك ما ثبت في الصحيحين من قوله -صلى الله عليه وسلم- لمعاذ رضي الله عنه وهو رديفه، يا معاذ أتدري ما حق الله على عباده، قال قلت الله ورسوله أعلم قال :حقه عليهم أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئًا، أتدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟ قلت الله ورسوله أعلم قال : حقهم عليه ألا يعذبهم۔ فهذا حق وجب بكلماته التامة ووعده الصادق، لا أن العبد نفسه مستحق على الله شيئًا كما يكون للمخلوق على المخلوق، فإن الله هو.. على العباد بكل خير وحقهم الواجب بوعده هو ألا يعذبهم وترك تعذيبهم معنىً لا يصلح أن يقسم به، ولا أن يُسأل بسببه ويتوسل به، لأن السبب هو ما نصبه الله سببًا. وكذلك الحديث الذي في المسند من حديث أبي سعيد عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في قول الماشي إلى الصلاة : أسألك بحق ممشاي هذا، وبحق السائلين عليك، فهذا حق السائلين، هو أوجبه على نفسه، فهو الذي أحق للسائلين أن يجيبهم، وللعابدين أن يثيبهم، ولقد أحسن القائل: ما للعباد عليه حق واجب … كلا، ولا سعي لديه ضائع… إن عذبوا فبعدله، أو نعموا… فبفضله، وهو الكريم الواسع… فإن قيل فأي فرق بين قول الداعي : بحق السائلين عليك، وبين قوله : بحق نبيك أو نحو ذلك ؟ فالجواب أن معنى قوله : بحق السائلين عليك، أنك وعدت السائلين بالإجابة، وأنا من جملة السائلين، فأجب دعائي، بخلاف قوله: بحق فلان، فإن فلانًا وإن كان له حق على الله بوعده الصادق، فلا مناسبة بين ذلك وبين إجابة دعاء هذا السائل، فكأنه يقول : لكون فلان من عبادك الصالحين أجب دعائي ! وأي مناسبة في هذا وأي ملازمة؟! وإنما هذا من الاعتداء في الدعاء ! وقد قال تعالى ﴿ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ (سورة الأعراف:55)
وهذا ونحوه.. من الأدعية المبتدعة، ولم ينقل عن النبي -صلى الله عليه وسلم-، ولا عن الصحابة، ولا عن التابعين، ولا عن أحد من الأئمة- رضي الله عنهم-، وإنما يوجد مثل هذا في الحروز والهياكل التي يكتبها الجهال والطرقية. والدعاء من أفضل العبادات، والعبادات مبناها على السنة والاتباع، لا على الهوى والابتداع، وإن كان مراده الإقسام على الله بحق فلان، فذلك محذور أيضًا؛ لأن الإقسام بالمخلوق على المخلوق لا يجوز، فكيف على الخالق وقد قال -صلى الله عليه وسلم-. من حلف بغير الله فقد أشرك، ولهذا قال أبو حنيفة وصاحباه- رضي الله عنهم- يكره أن يقول الداعي : أسألك بحق فلان، أو بحق أنبيائك ورسلك، وبحق البيت الحرام، والمشعر الحرام، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة ومحمد- رضي الله عنهما- أن يقول الرجل اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك، ولم يكرهه أبو يوسف رحمه الله لما بلغه الأثر فيه، وتارة يقول : بجاه فلان عندك، أو يقول : نتوسل إليك بأنبيائك ورسلك وأوليائك، ومراده لأن فلانًا عندك ذو وجاهة وشرف ومنزلة فأجب دعاءنا، وهذا أيضًا محذور، فإنه لو كان هذا هو التوسلُ الذي كان الصحابة يفعلونه في حياة النبي -صلى الله عليه وسلم- لفعلوه بعد موته، وإنما كانوا يتوسلون في حياته بدعائه، يطلبون منه أن يدعو لهم، وهم يؤمنون على دعائه، كما في الاستسقاء وغيره، فلما مات -صلى الله عليه وسلم- قال عمر -رضي الله عنه- لما خرجوا يستسقون : اللهم ! إنا كنا إذا أجدبنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا.معناه بدعائه هو ربه، وشفاعته وسؤاله، ليس المراد أنا نقسم عليك به، أو نسألك بجاهه عندك، إذ لو كان ذلك مرادًا لكان جاه النبي صلى الله عليه وسلم أعظم وأعظم من جاه العباس. وتارة يقول باتباعي لرسولك ومحبتي له وإيماني به وبسائر أنبيائك ورسلك وتصديقي لهم، ونحو ذلك۔ فهذا من أحسن ما يكون من الدعاء والتوسل والاستشفاع. فلفظ التوسل بالشخص والتوجه به فيه إجمال، غلط بسببه من لم يفهم معناه : فإن أريد به التسبب به لكونه داعيًا وشافعًا، وهذا في حياته يكون، أو لكون الداعي محبًّا له، مطيعًا لأمره، مقتديًا به وذلك أهل للمحبة والطاعة، والاقتداء، فيكون التوسل إما بدعاء الوسيلة وشفاعته، وإما بمحبة السائل واتباعه، ويراد به الإقسام به والتوسل بذاته، فهذا الثاني هو الذي كرهوه ونهوا عنه، وكذلك السؤال بالشيء، قد يراد به التسبب به، لكونه سببًا في حصول المطلوب، وقد يراد به الإقسام به.

دنیا میں دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور مخلوق کا واسطہ اور وسیلہ دینے کا مسئلہ تفصیل کا متقاضی ہے۔ دعا کرنے والا شخص بسا اوقات کہتا ہے کہ اے اللہ ! اپنے نبی یا فلاں شخص کے طفیل میری دعا قبول کر لے، یعنی وہ کسی مخلوق کی قسم اللہ تعالیٰ پر ڈالتا ہے۔

یہ کام دو وجہ سے ممنوع ہے۔
ایک تو اس وجہ سے کہ اس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی۔
دوسرے اس بنا پر کہ اس نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا حق بھی ہے۔
حالانکہ نہ غیراللہ کی قسم جائز ہے نہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق ہے، سوائے اس حق کے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لازم کیا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ﴾  (سورة الروم:47) ”ہمارے اوپر مومنوں کی مدد لازم ہے“۔

اسی طرح صحیح بخاری و مسلم میں مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے جو آپ کے پیچھے سوار تھے، فرمایا : اے معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق کیا ہے؟ معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو بہتر معلوم ہے۔ آپ نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر فرمایا: کیا تم کو معلوم ہے کہ جب بندے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک نہ کریں تو اللہ تعالیٰ پر ان بندوں کا کیا حق ہے؟ میں نے پھر عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر بندوں کا یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ کرے۔۔۔ (قرآن و حدیث سے اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق تو ثابت ہو گیا) لیکن یہ ایسا حق ہے جو اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات اور سچے وعدے کی بنا پر لازم ہوا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی بندہ بذات خود اس کا حقدار ہوا ہو جیسا کہ مخلوق کا مخلوق پر حق ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہی بندوں کو تمام بھلائیوں سے نوازنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے ان سے وعدہ کر کے انہیں عذاب نہ دینے کا حق اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے موحد بندوں کو عذاب نہ کرنا ایسی بات نہیں کہ اس کی قسم اٹھائی جائے اور اس کے طفیل دعا کی جائے اور اس کا وسیلہ پکڑا جائے، کیونکہ دعا کی قبولیت کا سبب تو وہی چیز بنے گی جسے اللہ تعالیٰ نے سبب بنایا ہے۔۔۔

اسی طرح سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی مسند احمد والی ( 21/3، سنن ابن ماجه:778۔ یاد رہے کہ یہ روایت عطیہ عوفی کی وجہ سے ضعیف ہے ) وہ حدیث ہے جس میں نماز کے لیے پیدل چلنے والے شخص کی دعا یوں ذکر کی گئی ہے کہ اے اللہ ! میں اپنے اس پیدل چلنے کے صدقے اور سوالیوں کے تجھ پر موجود حق کے طفیل سوال کرتا ہوں۔۔۔ تو اس سے مراد سوالیوں کا وہ حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود سوالیوں کی دعا کو قبول کرنے اور عبادت گزاروں کو ثواب عطا فرمانے کا حق تسلیم کیا ہے۔

کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بندوں کا ہرگز کوئی لازم حق نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی کاوش رائیگاں نہیں ہوتی۔ اگر اللہ بندوں کو عذاب دے تو یہ اس کا عدل ہے اور اگر وہ انہیں نعمتوں سے نوازے تو یہ اس کا فضل ہے۔ وہ کریم اور سمیع ہے۔۔۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ سوالیوں کے حق کے طفیل دعا کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ديگر صالحین کے طفیل دعا کرنے میں کیا فرق ہے؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ بحق السائلين عليك کے الفاظ سے دعا کرنے والا کہتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مانگنے والوں سے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے۔ میں بھی سوالی ہوں لہٰذا تو میری دعا قبول فرما لے۔ بحق فلان کے الفاظ اس کے برعکس ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے سچے وعدے کے مطابق بندوں کے لیے (نصرت وغیرہ کا) حق ہوتا ہے لیکن اس حق کا کسی بندے کی دعا کی قبولیت سے کیا تعلق ؟ گویا یہ کہا جاتا ہے کہ اے اللہ ! فلاں شخص تیرا نیک بندہ ہے، لہٰذا میری دعا قبول فرما لے۔ بھلا ان دونوں باتوں کی آپس میں کیا مناسبت ہے؟ دعا میں ایسا کرنا بے ڈھنگا پن اور زیادتی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ﴾ (سورة الأعراف:55) ”تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور مخفی انداز میں دعا کرو۔ بلاشبہ وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“۔ یعنی یہ اور اس طرح کے ديگر دعائیہ الفاظ بدعیہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین میں سے کسی سے بھی ایسی کوئی دعا منقول نہیں۔

اس طرح کے الفاظ تو ان تعویذ گنڈوں میں موجود ہوتے ہیں جنہیں جاہل قسم کے دم جھاڑا کرنے والے لوگ لکھتے ہیں۔ دعا تو افضل عبادت ہے اور عبادات کی بنیاد سنت اور اتباع رسول پر ہوتی ہے، خواہشات نفس اور بدعات پر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا كرنے والے شخص کی مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کے طفیل قسم ڈالی جائے تو یہ بھی ممنوع ہے، کیونکہ مخلوق کی قسم تو ویسے بھی جائز نہیں، خالق پر کیسے جائز ہو گی ؟

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی، اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ اسی لیے امام ابوحنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں (قاضی ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی ) نے انبیاء و رسل، بیت اللہ، مشعر حرام وغیرہ کے طفیل دعا مانگنے کو ناپسند کیا ہے۔ حتی کہ امام ابوحنیفہ اور محمد بن حسن نے تو عرش کو پیدا کرنے والی قدرت کے واسطے سے دعا کرنا بھی مکروہ قرار دیا ہے، جبکہ ابویوسف نے اسے مکروہ نہیں جانا کیونکہ انہیں اس بارے میں ایک روایت پہنچ گئی تھی (الدعوات الكبير للبيھقي:443۔ یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ اس میں ایک تو عمر بن ہارون باتفاقِ محدثین متروک و کذاب ہے، دوسرے عامر بن خداش کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ اس میں کمزوری ہے (تاريخ الاسلام:96/5)۔ تیسرے اس میں ابن جریج مدلس ہیں۔ چوتھے اس کے بارے میں حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں (نصب الراية للزيلعي الحنفي:273/4)۔

بسا اوقات دعا کرنے والا کہتا ہے کہ فلاں شخص کے تیرے دربار میں مقام و مرتبہ کے طفیل۔ ہم تجھے تیرے انبیاء، رسل اور اولیاء کا وسیلہ دیتے ہیں۔۔ 

اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص تیرے ہاں مقام و مرتبہ اور شرف رکھتا ہے، لہٰذا ہماری دعا قبول فرما۔ یہ بھی ممنوع ہے، کیونکہ اگر وسیلے کا یہ طریقہ وہی ہوتا جو صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اختیار کرتے تھے تو وہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اختیار کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، یعنی آپ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ کی دعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقاء (بارش طلبی کی دعا) وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا: اے اللہ ! پہلے ہم جب خشک سالی میں مبتلا ہوتے تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔ اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں۔ یعنی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا جائے۔ اگر یہ طریقہ جائز ہوتا تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و منزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی شان و منزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔۔۔

بسا اوقات دعا کرنے والا کہتا ہے کہ اے اللہ ! میں تیرے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیاء و رسل پر ایمان لاتا ہوں اور ان کی تصدیق کرتا ہوں، اس بنا پر تو میری دعا قبول کر لے۔۔۔ 

تو یہ دعا اور وسیلے کا بہترین طریقہ ہے۔ رہی بات کسی شخص کے وسیلے یا اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی تو یہ تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ اس کا صحیح معنی نہ سمجھ سکنے کی بنا پر بعض لوگوں نے غلطی کھائی ہے۔ اگر اس سے اس شخص کی دعا و سفارش کو وسیلہ بنانا مراد ہے تو وہ ایسے نیک شخص کی زندگی ہی میں ممکن ہے۔ یا اس سے مراد یہ ہو سکتی ہے کہ دعا کرنے والا شخص جس نیک ہستی کا وسیلہ دے رہا ہے، اس سے محبت کرتا ہے اور اس کا مطیع و فرمانبردار ہے بشرطیکہ وہ نیک ہستی محبت، اطاعت اور فرمانبرداری کی مستحق بھی ہو (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم )۔ مذکورہ صورتوں میں یہ توسل نیک شخص کی دعا و سفارش کا ہو گا یا دعا کرنے والے کی محبت و اطاعت (جو کہ اس کا نیک عمل ہے) کا ہو گا۔ اس توسل میں دوسری قسم یہ ہو سکتی ہے کہ وسیلہ دینے والے کی مراد یہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کسی نیک ہستی کی قسم ڈالے یا اس کی ذات کا وسیلہ اختیار کرے۔ یہی دوسری قسم ائمہ کرام کے ہاں مکروہ اور ممنوع ہے۔۔۔ (شرح العقيدة الطحاوية،ص:236۔238)

علامہ برکوی حنفی (م : ۹۸۱ھ) دعا میں ممنوع توسل کے بارے میں اپنا اور اپنے ائمہ کا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں :
والمقصود أن الشيطان يلطف كيده للإنسان بتحسين الدعاء له عند القبر وجعله أرجح منه في بيته ومسجده وأوقات الأسحار . فإذا قرر ذلك عنده نقله درجة أخرى من الدعاء عنده إلى الدعاء بصاحب القبر والإقسام على الله تعالى به، وهذا أعظم من الذي قبله، فإن شأنه تعالى أعظم من أن يقسم عليه بأحد من خلقه أو يسأل بأحد من خلقه . وقد أنكر أئمة الإسلام ذلك، فقال أبو الحسن القدوري في (شرح كتاب الكرخي) قال بشر بن الوليد : سمعت أبا يوسف يقول : قال أبو حنيفة : لا ينبغي لأحد أن يدعو الله تعالى إلا به، قال : وأكره أ ن يقول : أسألك بمعقد العز من عرشك، وأكره أن يقول : بحق فلان وبحق أنبيائك ورسلك وبحق البيت الحرام . قال أبو الحسن : أما المسألة بغير الله فمنكرة في قولهم، لأنه لا حق لغير الله عليه، وإنما الحق لله تعالى على خلقه . قال ابن بلدجي في (شرح المختار) : ويكره أن يدعو الله تعالى إلا به فلا يقول: أسألك بفلان أو بملائكتك أو أنبيائك أو نحو ذلك، لأنه لا حق للمخلوق على خالقه، أو يقول في دعائه : أسألك بمعقد العز من عرشك، وعن أبي يوسف جوازه لما روي أنه عليه السلام دعا بذلك، ولأن معقد العز من العرش إنما يراد به القدرة التي خلق الله تعالى بها العرش مع عظمته، فكأنه سئل بأوصافه . وما قال فيه أبو حنيفة وأصحابه وأصحابه : أكره كذا، فهو عند محمد حرام وعند أبي حنيفة وأبي يوسف هو إلى الحرام أقرب وجانب التحريم عليه أغلب . فإذا قرر الشيطان عنده أن الإقسام على الله تعالى به والدعاء به أبلغ في تعظيمه واحترامه وأنجع في قضاء حاجته، نقله درجة أخرى إلى دعائه نفسه من دون الله والنذر له، ثم ينقله بعد ذلك درجة أخرى إلى أن يتخذ قبره وثناً يعكف عليه، ويوقد عليه القنديل والشمع ويعلق عليه الستور، ويبني على المسجد، ويعبده بالسجود له والطواف به وتقبيله واستلامه والحج إليه والذبح عنده، ثم ينقله درجة أخرى إلى دعاء الناس إلى عبادته واتخاذه عيداً ومنسكاً، وأن ذلك أنفع لهم في دنياه وآخرتهم .

’’حاصل کلام یہ ہے کہ شیطان انسان کے خلاف بڑی خفیہ تدبیر کرتا ہے، وہ اسے یہ باور کراتا ہے کہ قبر کے پاس دعا کرنا مستحسن امر ہے، بلکہ وہ اس کے ذہن میں ڈال دیتا ہے کہ قبر کے پاس دعا کرنا گھر، مسجد اور سحری کے اوقات میں دعا کرنے سے افضل ہے۔ جب انسان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے تو شیطان اسے ایک درجہ اوپر لے جاتا ہے اور اسے یہ باور کراتا ہے کہ صاحب قبر سے دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کو اس کی قسم دینا بھی مستحسن ہے۔ اس کی یہ تدبیر، پہلی سے بھی بڑھ کر گھمبیر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کو کسی مخلوق کی قسم دی جائے یا اس سے کسی مخلوق کے واسطے سے مانگا جائے۔

ائمہ اسلام نے اس طریقے کو سخت برا جانا ہے۔ ابوالحسن قدوری، علامہ کرخی کی کتاب کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بشر بن ولید کا بیان ہے کہ میں نے ابویوسف سے سنا کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا: کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیراللہ کے واسطے اللہ تعالیٰ کو پکارے۔ میں یہ بھی مکروہ سمجھتا ہوں کہ کوئی اللہ تعالیٰ کو اس کی عرش کو پیدا کرنے والی قدرت کا وسیلہ دے، نیز انبیاء و رسل اور بیت اللہ کے وسیلے سے دعا کرنا بھی مکروہ ہے۔۔۔ ابوالحسن (قدوری) کا کہنا ہے کہ ائمہ احناف کے نزدیک غیراللہ کے واسطے سے دُعا کرنا باطل ہے کیونکہ غیراللہ کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔۔۔

ابن بلدجی نے شرح المختار میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے غیراللہ کا واسطہ دے کر دعا کرنا مکروہ ہے۔ یہ کہنا جائز نہیں کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے فرشتوں یا تیرے انبیاء وغیرہ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں، کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں۔ یہ بھی درست نہیں کہ کوئی کہے: اے اللہ !میں تیری عرش کو پیدا کرنے والی قدرت کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں۔ البتہ امام ابویوسف سے اس کا جواز منقول ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے اس طرح دعا فرمائی تھی ( الدعوات الكبير للبيھقي:443۔ یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ اس میں ایک تو عمر بن ہارون باتفاق محدثین متروک و کذاب ہے، دوسرے عامر بن خداش کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ اس میں کمزوری ہے، (تاريخ الاسلام:96/5)۔ تیسرے اس میں ابن جریج مدلس ہیں۔ چوتھے اس کے بارے میں حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں (نصب الراية للزيلعي الحنفي:273/4) نیز ان الفاظ کے استعمال سے تو انسان اوصاف باری تعالیٰ کا وسیلہ اختیار کرتا ہے (اور وہ جائز ہے)۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے جن چیزوں کو مکروہ قرار دیا ہے، وہ محمد بن حسن کے نزدیک حرام ہیں اور امام ابوحنیفہ اور ابویوسف کے نزدیک حرام کے زیادہ قریب ہیں اور ان میں حرمت کا پہلو غالب ہے۔۔۔

جب شیطان انسان کو یہ بات بھی باور کرا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو غیراللہ کی قسم دی جا سکتی ہے اور اس طرح دعا زیادہ تعظیم و احترام والی ہوتی ہے، نیز اس طریقے سے حاجت جلد پوری ہوتی ہے۔۔۔ تو اس کے بعد وہ انسان کو ایک اور درجہ اوپر لے جاتا ہے کہ غیراللہ سے بھی دعا کی جائے اور اس کے لیے نذر و نیاز کا اہتمام کیا جائے۔ پھر اس کے بعد ایک اور درجہ اوپر لے جا کر اسے بزرگوں کی قبروں پر جھکنے، ان پر قندیلیں اور شمعیں روشن کرنے، ان پر چادریں چڑھانے اور ان پر مسجدیں بنانے پر آمادہ کرتا ہے، نیز ان قبروں کے لیے سجود و طواف کر کے اور ان کو چوم کر اور ان کا حج کر کے اور ان کے پاس جانور ذبح کر کے ان کی عبادت کراتا ہے۔ پھر اس سے ایک اور درجہ اوپر لے جا کر اس کو آمادہ کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو ان قبروں کی عبادت کرنے اور ان کو میلہ گاہ بنانے کی دعوت دے اور انہیں بتائے کہ ان کے لیے دنیا و آخرت میں بڑے فائدے کا کام ہے۔ (زيارة القبور،ص:47۔48)

ان ساری عبارات اور حنفی ائمہ کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ جس طرح غیراللہ کی قسم اٹھانا ناجائز، حرام اور شرک ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو غیراللہ کا واسطہ دینا یا اللہ تعالیٰ کو غیراللہ کی قسم دینا بھی حرام ہے۔ نیز امام ابوحنیفہ سمیت تمام متقدمین ائمہ احناف اللہ تعالیٰ پر غیراللہ کی قسم ڈالنے اور اللہ تعالیٰ کو غیراللہ کا وسیلہ دینے کو مترادف خیال کرتے تھے اور دونوں کے ممنوع ہونے پر متفق تھے۔ لہٰذا جناب انور شاہ کشمیری صاحب کا اس سلسلے میں متردد ہونا اپنے ائمہ کی تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ تھا۔ ان کے معتقدین کو چاہیے کہ وہ ان تصریحات کی روشنی میں تردّد سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے ممنوع توسل سے توبہ کر لیں۔

اہل حدیثوں کو مبارک ہو کہ وہ سلف کے منہج پر ہیں۔ عقیدہ و عمل میں ان سے سرمو منحرف نہیں۔ اسی وجہ سے ان کو مطعون کیا جاتا ہے۔ مخالفین ان کو ستاتے ہیں، ان کو طرح طرح کے نام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تاقیامت اس طائفہ منصورہ کو حق کے ساتھ غالب رکھے گا اور ان کے معاندین کو منہ کی کھانی پڑے گی۔  ان شاءاللہ ! ولله الحمد والمنة، وصلی الله علی محمد وعلی اله وصحبه وسلم تسليما

یہ تحریر اب تک 18 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply